• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر پر گیٹ کی تعمیر کے معاملے پر شروع ہونے والی کشیدگی اور باہمی جھڑپوں پر امریکی انتظامیہ کی یہ وضاحت کہ تنازع کو ختم کرنے کے لیے اس کی جانب سے کوئی ثالثی نہیں کی جائے گی، وونوں ملکوں کے حکام سے سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے گزشتہ روز ایک نیوز کانفرنس میں پاک افغان تنازع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں پائی جانے والی کشیدگی خصوصاً طورخم بارڈر پر ہونے والی سرحدی جھڑپوں پر امریکہ کو سخت تشویش ہے اورہماری خواہش ہے کہ دونوں فریق تشدد کے سلسلے کو بند کرکے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پرامن باہمی گفت و شنید سے مسئلے کو حل کریں اور سرحد کو کھلا رہنے دیں۔جان کربی نے ایک سوال پر حالیہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے حوالے سے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ امن عمل پر ان کا کیا اثر مرتب ہوگا۔ انہوں نے صورت حال پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جھڑپیں ایک بالکل تازہ واقعہ ہیں تاہم امریکہ اب بھی چاہتا ہے کہ مفاہمت کا عمل آگے بڑھے۔لیکن اس کے ساتھ امریکی ترجمان نے اس مقصد کے لیے اپنی حکومت کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی ثالثی کے امکان کی واضح طور پر تردیدبھی کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ صدر غنی افغان امن اور مفاہمت کے عمل کو بحال کرنا چاہتے ہیں ، اور افغان حکومت کی سربراہی میں ہم اسے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں،لیکن پاکستان اور افغانستان کے تنازع میں ثالثی امریکہ کی ذمہ داری نہیں ۔ امریکہ چاہتاہے کہ دونوں ملک اپنے اختلافات باہمی بات چیت سے حل کریں اور وہ ماضی کی طرح اب بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ جان کربی نے وضاحت کی کہ طورخم سمیت دونوں ملکوں میں سرحدی جھڑپوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں،لہٰذا ہمیں اعتماد ہے کہ جس طرح ماضی میں اس طرح کے معاملات کو پرامن بات چیت سے طے کرلیا گیا تھا ویسے ہی دونوں حکومتیں اب بھی اس میں کامیاب ہوں گی۔انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کو کئی مشترکہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ موجودہ صورت حال سے یہ نتیجہ اخذکرنا درست نہیں ہوگا کہ امن و مفاہمت کا پورا عمل خطرے میں پڑگیا ہے یا افغانستان اور پاکستان کے اختلافات ناقابل حل ہیں جس کے باعث بات چیت اور تعاون کا جاری رہنا اب ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی اہمیت کا بھی غیرمبہم الفاظ میں اعتراف کیا اور تسلیم کیا کہ اس کے بغیر اس عمل کی کامیابی کا امکان نہیں۔ امریکہ کے اس موقف کی روشنی میں افغانستان اور پاکستان کے تمام متعلقہ فریقوں کو سمجھنا چاہیے کہ خطے میں امن کا قیام فی الحقیقت سب سے زیادہ دونوں ملکوں کی اپنی ضرورت ہے۔ان کے کم و بیش چوتھائی ارب باشندوں کی ترقی اور خوشحالی کا خواب پائیدار امن کے قیام کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس کے لیے دونوں کوباہمی کاوشوں ہی سے اس کی راہیں تلاش کرنی ہوں گی۔اس مقصد کے لیے امریکہ یا دوسری بیرونی طاقتوں پر انحصار نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ۔ بالخصوص امریکہ کے بعض حالیہ اقدامات نے، جن میں بلوچستان میں کیا جانے والا ڈرون حملہ ، افغانستان میں امریکی فوج کے کردار میں توسیع اور بھارت کو خطے کی بالادست طاقت بنانے کی کوششیں شامل ہیں،بعض مبصرین کے مطابق اس کی جانب سے امن عمل کی زبانی حمایت کے باوجود اس کے اصل عزائم کو مشتبہ بنادیا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ قیادت کو جلد از جلد باہمی رابطے کرکے طورخم گیٹ کے مسئلے کا بھی متفقہ حل تلاش کرنا چاہیے اور امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے دیگر تمام ضروری اقدامات بھی شروع کرنے چاہئیں۔اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ کسی بھی جانب سے دوسرے ملک کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی قدم اٹھانا منفی نتائج کا سبب بنے گا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو طورخم گیٹ کے حوالے سے بھی دوسرے نقطہ نظر پر غور کرنا چاہئے تاکہ اچانک پابندی کے سبب رونما ہونے والے منفی ردعمل سے بچا جاسکے۔
تازہ ترین