دونوں کا ٹکرائو شعبۂ کیمیا کی سیڑھیوں پر ہوا تھا۔ ایک سیڑھیاں چڑھ ، دوسرا اُتر رہا تھا۔ لکڑی کی سیڑھیاں اونچی ایڑی کے جوتوں سے ٹھک ٹھک بج رہی تھیں۔ گہری برائون اور ہلکی برائون چیک لائنز کی قمیص کے بازو کہنیوں تک اُٹھے ہوئے تھے اور اور آل ایک کندھے پر جھول رہا تھا۔ جب اُس نے سُنا ’’لوگوں کو متوجّہ کرنے کے لیے آپ کا یہ شنگر فی چہرہ ہی کافی ہے، ایڑیاں نہ بھی بجائیں تو فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ ویسے ایڑیاں تو وہ قصداً بجا رہی تھی کہ ڈھائی گھنٹے تک تجربہ گاہ میں کام کرنے کے بعد اس قدر تھک چُکی تھی کہ گویا اس نیم تاریک زینے پر (جہاں سنّاٹا تھا) شور پیدا کر کے اپنی ساری تھکاوٹ اور بوریت دُور کرنا چاہتی تھی۔
اس نے بس ایک نظر اس پر یوں ڈالی،جیسے کوئی فرزانہ(عقل مند) کسی دیوانے پر ڈالتا ہے اور بغیر کچھ بولے ٹھک ٹھک کرتی آگے بڑھ گئی۔وہ لکڑی کی ریلنگ پکڑے رُخ موڑے اسے دیکھتا رہا، جیسے کوئی فرزانہ کسی دیوانے کو دیکھتا ہے۔اپنی اپنی جگہ دونوں فرزا پر ایک دوسرے کے لیے دونوں دیوانے پانچ دنوں میں کوئی 14 بار شعبے کی غلام گردشوں اور کشادہ آنگنوں میں ایک دوسرے سے ٹکرائے، لیکن پندرہویں بار دونوں کی آنکھوں اور ہونٹوں پر جو مسکراہٹ نمودار ہوئی، وہ بڑی شناسا سی تھی۔
یوں، جیسے کہہ رہے ہوں ’’ہم کتنے پھر وندو ہیں۔‘‘دونوں ایک ساتھ غلام گردش کے چار پوڈوں سے اُتر کر نیچے گرائونڈ میں آگئے۔ ایک نے دوسرے کی طرف رُخ پھیر کر پوچھا’’آپ کا نام؟‘‘’’ماہ رخ مجید‘‘اس نے تارہ سی آنکھیں ٹمٹماتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں ضیاء ماہ تاب‘‘۔’’پر، ضیاء ماہ تاب والی کوئی بات تو نہیں ہے آپ میں‘‘ماہ رُخ نے کہا۔ ’’چلیے، شکر کریں، آپ میں تو ہے۔‘‘یہ سُن کر اس نے ہونٹ یُوں پھیلائے ،جیسے کہتی ہو ’’بات تو سو فی صد درست ہے۔‘‘ اور دونوں میں اُسی لمحے دوستی ہوگئی۔ پورے پونے چار ماہ بعد انہوں نے کیفے ٹیریا میں گھونٹ گھونٹ کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے ایک دوسرے سے متعلق جانا۔ضیاء کی زبان سموسوں میں مرچوں کی زیادتی سے جل رہی تھی، جسے وہ کولڈ ڈرنک کے بڑے بڑے گھونٹوں سے بجھانے کی کوشش میں تھا۔
ایسا کرتے ہوئے اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں ہلکی سی نمی کی تہہ بھی تیرنے لگی۔ ماہ رُخ مجید نے ایک شاکی نظر اس پر ڈالی اور بولی۔’’تو تم خیر سے مہارا جا پٹیالہ کی آل اولاد ہو۔ دیکھو، مجھے تو اختلاج ہونے لگا ہے، یہ سب سن کر۔ ‘‘ضیاء نے دائیں بائیں دیکھ کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور بولا’’ارے کیوں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘’’ہاں،شاید تمہیں نہیں پڑے گا، پر …‘‘وہ بولی۔ ’’ماہ رخ…!وقت سے پہلے گھلنے کا کیا فائدہ‘‘ضیاء نے سنجیدگی سے کہا۔ پھر چند دن بعد اسے اپنی گاڑی میں گھر لے کر گیا۔ سجا سجایا عالی شان گھر، جس کی قیمتِ خرید سُن کر اُس کا اوپر کا سانس اوپر اور تلے کا تلے رہ گیا۔
وہ گھر جسے رحیم یار خان میں مقیم اس کے خاندان نے کبھی کبھار کے دَورے کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔وہ عقبی کوریڈور کی سیڑھیوں کے،جو باغ میں اترتی تھیں، پانچویں پوڈے پر بیٹھی سامنے آم اور شہتوت کے درخت دیکھ رہی تھی۔ اوائل اپریل کی یہ شام بہت سہانی تھی۔ کیاریوں میں ہر رنگ کا گلاب کِھلا ہوا تھا۔ پٹونیا اور چینا کی کیاریاں خوش رنگ پھولوں کی چادریں بنی ہوئی تھیں، جن پر اس سنہری شام میں اُس کا جی دھپ سے لیٹنے کو چاہ رہا تھا۔یہ سارا ماحول اس درجہ افسانوی تھا کہ جس کا وہ اپنے ساڑھے سات مرلے کے مکان میں بیٹھ کر تصوّر بھی نہیں کرسکتی تھی۔
ضیاء کے باپ نے اُسے دیکھنے اوراُس سے ملنے کے بعد دونوں کے سامنے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔’’مجھے تو یہ لڑکی بہت پسند آئی ہے، پر تمہاری ماں کی طرف سے مجھے بہت خطرہ ہے۔ وہ طبقاتی تقسیم کی بہت قائل ہے، چھوٹے لوگوں کو تو انسان ہی نہیں سمجھتی۔ یوں بھی اس کا کہنا ہے کہ بہو گھر کی بنیاد ہوتی ہے، تو اس کے انتخاب میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘یہ سُن کر ماہ رُخ کا کلیجہ دھک دھک ہوا، مگر ضیاء نے حوصلہ بڑھایا۔ پھر جلد ہی ماہ رُخ کی ملاقات ضیاء کی ماں سے بھی ہو گئی، جو بڑی محبّت سے ملی۔
شفقت سے اپنے پاس بٹھایا۔ ڈھیر ساری باتیں کیں۔ پنجابی شاعری کی بڑی دل دادہ تھی۔ اپنی پسند کے شعر بھی سنائے۔؎ اوبلبلاں تھک مریندیاں نے ،او جیہڑیاں بازاں نال لین اُڈاری… اونہاں ہرنیا ںدی عمر ہو چکی پوری، اوجیہڑیاں شیراں دی جوتے پیون پانی۔ ماہ رُخ مجید کو جب اس شعر کی سمجھ آئی، تو وہ بلبلا اُٹھی۔ ضیاء کی ماں نے حقائق کی کڑوی گولی، جو اُسے شہد میں لپیٹ کر کھلا دی تھی۔ اُسی پل، اُس نے ضیاء کو دس ہزار صلواتیں سُنائیں اور اپنے گھر آگئی۔ قصور وار تو وہی تھی، جو اُس نے اتنی اونچی پتنگ اڑانی چاہی کہ آسمان کی وسعتوں کا بھی خیال نہ کیا۔
خیر، ماہ رخ مجید کی شادی کسی اور جگہ ہوگئی اور اس کا شوہر ایسا شکیل و جمیل کہ ضیاء جیسا تو اس کے سامنے کچھ بھی نہ تھا۔ گھر گھرانہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ دیوروں کی فوج ظفر موج تھی۔ اونچے لمبے، ذہین، حاضر دماغ، بذلہ سنج، شرارتی…ماہ رُخ بھی بَھرے پُرے گھر سے آئی تھی اور سُسرال بھی ویسا ہی ملا۔ ماہ رُخ نے نئے ماحول سے سمجھوتا ضرور کر لیا تھا، پر اندر جیسے رِستا ہوا پھوڑا تھا، جس سے اُٹھتی ہوئی ٹیسیں اُسے اکثر مضطرب رکھتیں۔
ایک دن اس کا دوسرے نمبر والا دیور آیا، تو وہ اس وقت باورچی خانے میں ہنڈیا بھون رہی تھی۔ کھٹ سے اس نے فوجی سلیوٹ مارا اور دوزانو ہو کر اس سے بولا۔’’بھلا بتائیے ذرا، اس مُٹھی میں کیا ہے؟‘‘’’ہوگی کوئی گندی مندی چیز۔‘‘اس نے فوراً مٹھی کھول دی، جس میں ایک چمکتا دمکتا، سُرخ اور سفید نگوں کا سُنہری کوکا تھا۔ ’’ارے واہ…!!‘‘وہ اشتیاق سے بولی۔ ’’بہت گُھنّے ہو تم، اتنے سے وقت میں جان گئے کہ ناک کے اس زیور سے مجھے عشق ہے۔‘‘ ماہ رُخ بولی۔ ’’دراصل بھابھی، یہ آپ کے لیے کہیں سے تحفہ آیا ہے۔‘‘ دیور نے کہا۔ ’’کہاں سے…؟؟‘‘ ماہ رخ نے حیرت سے پلکیں جھپکاتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہنڈیا بھی پکائیے اور بیٹھ کر سوچیے بھی…‘‘وہ یہ کہتا ہوا باہر چلا گیا۔ اِدھر ہنڈیا میں پانی ختم، اُدھر اس کی سوچوں کی سطح پر وہ تمام ممکنہ نام ختم کہ جن کے حاتم طائی بننے کا اس نے تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیا تھا۔
رات کو وہ عقبی صحن میں دو سو واٹ کے بلب کی روشنی میں بیٹھی تھی کہ سب سے چھوٹا دیور آیااوراپنی انگلی اس کے نتھنے کے اوپر چمکتے کو کے پر ٹکائی اور بولا۔’’ارے بھابھی جی، یہ لونگ آپ پر بہت جچ رہی ہے۔ بڑے بھیّا لائے ہیں یا خُود خریدی؟‘‘ اُس نے پوچھا تو ماہ رُخ نے ساری کہانی کہہ سنائی۔ وہ ہنسی سے دُہرا ہوا اور پھر بولا۔ اچھا تو ڈچز آف و نڈسر کی جانب سے تحائف آئے ہیں۔’’ڈچزآف ونڈسر…؟؟‘‘ اُس کے انداز میں حددرجہ حیرت تھی۔’’تو گویا آپ اس رنگ رنگیلی داستان کے پس منظر سے بھی آگاہ نہیں؟؟‘‘ عرفان نے کہا۔ اب وہ تفصیل جاننے کی آرزو مند اور عرفان کو کہیں جانے کی جلدی میں یہ کہتا ہوا بھاگ گیا کہ ’’بھابھی، صبر کریں، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔‘‘
اگلے دن جب وہ سو کر اُٹھی، توپتا چلا ڈرائنگ رُوم میں کوئی ملنے کے لیے بیٹھا ہے۔ اُس نے دیکھا، ایسی دل کش اور طرح دار لڑکی کہ ڈرائنگ رُوم جگمگا رہا تھا۔ اس نے پلکیں جھپکا جھپکا کر اسے دیکھا، جب طارق نے بتایا کہ وہ دو بچّوں کی ماں بھی ہے۔ اور ناک کی لونگ اُسی خاتون نے بھیجی تھی۔ جس پر ماہ رُخ نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور رات کو طارق کوجا پکڑا۔’’ہاں تو بولو ،ڈیوک آف ونڈسر کون ہے، تم یا اس کا گھر والا…؟ اوراگر ایسا عشق تھا، تو شادی کیوں نہیں کی؟‘‘طارق نے چہرے پر مسکینی کا پورا جام انڈیل لیا۔ ’’مَیں تو اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ گیا تھا۔
آپ کے میاں سے کہہ دیا تھا کہ گھر والوں سے کہہ دو یا تو میرا اس سے بیاہ کر دیں یا پھر مَیں اسے لے کر بھاگ جائوں گا، پر آپ کے شوہر مجھے لمبا چوڑا لیکچر دے کر خود کالج چلے گئے۔اُس کی منگنی ہونے والی تھی اور ذخیرے والے باغ میں وہ میرے سامنے بیٹھی دھواں دھار رو رہی تھی۔ دوسری جانب، امّاں ابّا چیچوں کی ملیاں گئے ہوئے تھے کہ کوئی رشتے دارفوت ہو گیا تھا۔ اتفاق سے چھوٹے ماموں آگئے۔ شام کے سائے ڈھل گئے تھے اور مَیں افسردہ سا پڑا تھا۔ انہوں نے میری چارپائی کے پاس کھڑے ہو کر چادر میرے اوپر سے گھسیٹی اور کہا’’بدمعاش! عشق کرنے چلا ہے۔ بھگا لے جانا چاتا ہے اس شہزادی نفر تیتی کو، پہلے پڑھائی تو پوری کر لے۔عشق تب کرتے ہیں، جب جیب وزنی ہو یا پھر اماں باوا کے پاس ڈھیروں سونا اور پیسا ہو۔
پر تیری جیب تو خالی ہے اور تیری امّاں ایسی شکی مزاج کہ پونے بیس تولے سونے کی پوٹلی کبھی ٹرنکوں کے پیچھے چھپاتی ہیں، کبھی کاٹھ کباڑ والی کوٹھری میں۔ باوا تیرا زمانے بھر کا کنجوس، جو سو روپے کا بھان دس کتابوں میں رکھتا ہے۔کم بخت، تو اسے کس زعم میں بھگا لے جائے گا۔ چل اُٹھ، وگرنہ لتر لگا لگا کر سارا عشق مشک نکال دوں گا…‘‘ بس، پھر مَیں اُٹھ گیا۔ اور ماموں کے کہنے پر کھانا کھانے بیٹھنا پڑا۔‘‘’’تو تمہاری محبت ایسی تھی کہ اس کا سوگ صرف چند گھنٹے ہی منایا…!!‘‘ماہ رُخ نے کہا۔ ’’تو اب مَیں کیا مجنوں بن کر سڑکوں پر آہ و زاریاں کرتا ۔ چند دن آنسو بھی بہائے اور افسوس بھی کیا، پر وقت ہر زخم بَھر دیتا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’پر دُم چھلّا تو ابھی بھی پیچھے لگائے پھرتے ہو…‘‘ماہ رخ نے کہا۔ ’’قصور وار وہ خود ہے، مَیں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘اس نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔’’کمینگی ہے تم مَردوں کی…‘‘ ماہ رخ کا لہجہ غصیلا سا ہوگیا۔’’اور وہ لڑکی، وہ بھی بڑی اونچی شئے ہے، جو اب تک تمہارے پیچھے لگی ہے۔ تم اسے نہیں کہتے کہ وہ ماں ہے، اپنا مقام پہچانے۔‘‘’’لو جی، آپ تو الٹی گنگا بہانے لگ گئیں۔ مَیں کیوں اُسے درس دیتا پھروں۔‘‘وہ قدرے غصّے میں آگیا، تو ماہ رُخ بھی خاموش ہو گئی۔
طارق کا کمرا باہر کی طرف تھا، وہ لڑکی بھی وہیں اس سے ملنے آتی تھی۔ ایک دن ماہ رُخ، طارق کو بلانے گئی تو وہ کمرے میں نہیں تھا، البتہ وہ لڑکی ضرور بیٹھی تھی۔ سو، ماہ رخ بھی اس کے پاس بیٹھ گئی اور دھیرے سے بولی۔ ’’مجھے کوئی حق تو نہیں، تم سے کچھ کہنے کا، پر عورت ہونے کے ناتے میرا دل تمہاری اس حرکت پر کڑھتا ہے۔ دیکھو، تمہارا گھر، تمہارے لیے بہترین جائے پناہ ہے۔ تم بیوی بھی ہو اور ماں بھی۔ پہلا رشتہ بھروسے اور وفاداری کا طالب ہے، تو دوسرا کردار کی عظمت اور تقدیس کا۔‘‘وہ بس یہ سب کہہ کر چلی آئی۔ پھر رات کو شوہر کی موجودگی میں سب دیوروں سے کہا ’’یہ گھر ہے، کوئی کالج کینٹین نہیں۔ مرد کی شان گرل فرینڈز بنانے میں نہیں، نکاح کرنے میں ہے۔حوصلہ اور جرأت ہے، تو جس کا ہاتھ پکڑتے ،ہو اُسے کبھی بیچ منجدھار میں مت چھوڑو۔‘‘درحقیقت، سارا قصور تو اس کے اپنے پھپھولوں کا تھا، جو کسی نہ کسی بہانے پھٹنا چاہتے تھے۔
اُس دن ماسی نہیں آئی تھی، تو وہی سارے کمروں کی صفائی کررہی تھی۔ جب چوتھے نمبر والے دیور کا کمرا صاف کرنے لگی، تو ایک گلابی لفافہ نظر آیا، جو کسی ریحانہ نامی لڑکی کا عشق نامہ تھا۔خط کے مندرجات بتاتے تھے کہ وہ کالج اسٹوڈنٹ اور اچھے گھر سے تعلق رکھتی ہے۔ رات کو ماہ رُخ نے عرفان سے بات کی۔’’یہ خالد کا کہیں افیئر ہےکیا؟‘‘تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا ’’لیجیے، آپ کی تو وہی بات ہوگئی، شہریں بج گئے ڈھول، نی سسّی اے بے خبرے۔ بڑا زبردست قسم کا رومانس چل رہا ہے۔ خطوط آتے، جاتے ہیں۔‘‘ ’’تفصیل نہیں بتائو گے؟‘‘’’ارے بھابھی، ایسے واقعات کی تفصیل کیا ہوتی ہے، بس کہیں ملے، نگاہوں کا ٹکرائو ہوا، دل میں کیوپڈ کے تیر چلے اور عشق شروع ہو گیا۔‘‘ یہ کہہ کر عرفان ہنسنے لگا۔ ’’ویسے بہت اونچے گھر کی ہے۔ کار بھی خود ڈرائیو کرتی ہے، ہمارے خالد سے عشق زوروں پر ہے…‘‘عرفان نے بتایا۔ ’’پر، سنجیدہ کتنی ہے؟‘‘ ماہ رُخ نے پوچھا۔ ’’یہ تو مَیں نہیں جانتا۔‘‘ عرفان کہتا ہوا چلا گیا۔
اگلے دن تنہائی میں ماہ رخ نے خالد سے بات کرنی ضروری سمجھی۔ ’’تم اگر پسند کرتے ہو اسے، تو مَیں امّی سے بات کروں۔‘‘خالد چُپ بیٹھا رہا۔ جب اس نے اصرار کیا تو کچھ گومگو کی کیفیت میں بولا۔’’دراصل بھابھی، مَیں نے اماں سے بات کی تھی، پر انہوں نے سمجھایا کہ ایسی لڑکیاں بیویاں بن کر زندگی عذاب بنا دیتی ہیں۔ مَیں نے بھی کافی غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ اونچے معاشرے کی پیداوار ہے۔ ہمارے گھر میں گزارہ اس کے لیے بہت مشکل ہو گا۔‘‘’’تو گویا تم سنجیدہ نہیں، محض ٹائم پاس کر رہے ہو…؟‘‘ماہ رُخ نے قدرے خفگی سے کہا۔ ’’یہ بات بھی نہیں ہے‘‘ وہ فوراً بولا۔ ’’ہر گھر کی اپنی مخصوص روایات اور ماحول ہوتا ہے۔ آنے والا فرد اگر ان سے مطابقت نہ رکھے تو ٹکرائو ہو جاتا ہے۔‘‘ عرفان نے مزید کہا۔ ’’مَیں نہیں مانتی۔ محبت کرنے والی عورت ایثار کا مجسمہ بن جاتی ہے۔‘‘ماہ رخ اپنی بات پر قائم تھی۔
’’بنتی ہوگی، پر پرانی عورت۔ جدید عورت کو یہ توفیق نصیب نہیں۔ شادی اپنی ہی کلاس میں کرنی چاہیے۔‘‘بس ،اس سے آگے تو قصّہ کہانی ختم تھا۔نہ بات کہنے کی گنجائش تھی اور نہ ہی سننے کی۔ ’’کلاس…‘‘ماہ رخ نے کہا اور اپنے ہونٹ آپ ہی چبا ڈالے۔پھر رات جب خالد کے کمرے کے سامنے سے اتفاقاً گزری، تو وہاں دیوروں کی منڈلی بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔’’عجیب ہیں یہ بھابھی، شادی کو گڈّے گڑیا کا کھیل سمجھتی ہیں۔ ارے، آدمی کھونٹے سے بندھ جاتا ہے اور شادی کام یاب نہ رہے تو اور مصیبت۔‘‘ یہ سُن کر اس کا جی چاہا کہ دروازہ دھڑ سے کھول کر اندر چلی جائے اور کہے کہ ’’وہ جن کے ساتھ پیار کی پینگیں چڑھاتے ہو، کبھی ان کے بارے میں بھی سوچتے ہو کہ وہ کیسے ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں۔‘‘پر کچھ نہ کہہ سکی۔ عرفان لڑکیوں کے بخیے ادھیڑنے لگ گیا، ایسی ایسی عجیب و غریب باتیں۔ بقیہ لوگ بھی شامل ہو گئے۔ ’’ایسے ہی تبصرے اور حاشیہ آرائی ضیاء اور اس کے گھر والوں نے بھی میرے متعلق کیے ہوں گے۔ ‘‘ اس نے سوچا، تو جی چاہا کہ کہیں سے چُھرالا کر اپنا آپ ٹوٹے ٹوٹے کرلے۔
پھر اس کی گود ہنستے مُسکراتے، خُوب صُورت بیٹے سے بَھر گئی۔وہ اکثر اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر، اس کے شہابی رخساروں کو اپنی پوروں سے ہولے ہولے مسلتی اور کہتی ’’یاد رکھنا، اگر مجھے یہ پتا چل گیا کہ تُو نے کسی لڑکی سے دوستی کی ہے، اس کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے، تو مَیں دیکھے بھالے بغیر تیرا نکاح پڑھا دوں گی۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی اور پھر اسے بھینچ لیتی۔وقت گزرتا گیا اور ماہ رُخ بہت تدبّر اور سلیقے سے سسرال میں رچ بس گئی۔ دیوروں کی بھی شادیاں ہو گئیں۔ پھر اس کے اپنے بچّے جوان ہو گئے۔ سب سے بڑا جنیدتھا،جو میڈیکل میں تھا۔
سردیوں کی شام تھی۔ جنید تھوڑی دیر قبل کالج سے آکر لیٹا۔ ماہ رُخ ،خالد، طارق اور ان کی بیویوں کے ساتھ بیٹھی خاندان میں ہونے والی کسی شادی پر جانے کی بات کر رہی تھی۔ اتنے میں عرفان آیا اور بولا۔’’بھابھی!جنید سے ذرا پوچھیے تو کہ اس کی موٹر بائیک پر آج کون لڑکی بیٹھی تھی۔‘‘یہ سُن کر تو وہ جیسے لرز سی گئی۔’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس نے پاگلوں کی طرح کہا۔طارق نے غصے سے عرفان کو گھورا۔’’یار! لڑکا ہے، کسی کو بٹھا لیا ہو گا۔‘‘ مگر ماہ رخ اُٹھ کر بھاگی، بیٹے کو گریبان سے پکڑ کر اُٹھایا، جو کچی نیند میں تھا۔ ’’کس لڑکی کے ساتھ گھوم پھر رہے ہو، کیا رشتہ ہے تمہارا اس سے،کب سے دوستی ہے؟‘‘ماں کو غصّے میں دیکھ کر جنید نے سب کچھ بتا دیا۔’’تمہیں شادی کرنی ہوگی اس سے…‘‘ اِن الفاظ کے ساتھ ہی وہ کمرے سے نکلی،پائوں کا جوتا بدلا، چادر لی اور باہر جانے کے لیے گیٹ کی طرف بڑھی۔
خالد اور طارق نے روکنا چاہا ،پر اس نے کہا۔’’نہیں، مَیں پرانی تاریخ ہرگز نہیں دُہرانے دوں گی۔ مرد، عورت کا استحصال کرتا رہے، یہ مَیں نہیں ہونے دوں گی۔‘‘ وہ یوں گیٹ سے نکل گئی، جیسے بگولا نکلتا ہے۔پھر جب دو گھنٹے بعد گھر میں داخل ہوئی،تو کرسی پر یوں آگری، جیسے کرائی میں جتے بیل پھیتے ویلے تھک ہار کر گرتے ہیں۔ طارق نے اسے پانی دیا۔ گھونٹ گھونٹ پی کر جب اس نے آدھا گلاس خالی کردیا۔ تب ان سب پر دھیان گیا، جو پریشان سے اس کے اردگرد دَم بخود کھڑے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ ٹوٹی پھوٹی آواز میں رُک رُک کر بولی۔ ’’گھر سے نکلتے وقت مَیں ایک عورت تھی۔ وہ عورت،جو سوکھی ہوئی لکڑی تھی، جس پر وقت کی ظالم کہانیاں مٹّی کا تیل گراتی رہیں اور جسے اس نئے واقعے نے تیلی لگا کر بھڑکا دیا۔
مَیں اُس عورت کو اس کا حق دلانے چلی تھی، جسے مرد کھلونا بنا کر کھیلتا ہے۔ مَیں پیچ دَر پیچ گلیوں کے تانے بانوں میں اُلجھی ایک چھوٹے سے مکان کے سامنے جا رُکی۔ جہاں دروازے کا آدھا پٹ کھلا تھا، اندر داخل ہوئی۔ انگنائی میں مرغیاں کُٹ کُٹ کررہی تھیں۔ پھر مَیں نے وہ لڑکی، اس کی ماں اور بہن بھائی دیکھے۔ گھر بار دیکھا اور محسوس کیا کہ وہ عورت جو مجھے یہاں تک کھینچ کر لائی تھی، وہ تو جانے کہاں گُم ہو گئی۔ وہاں تو صرف ایک ماں پہنچی تھی، جس کا بیٹا شہزادوں جیسی آن بان اور صُورت والا ہے۔ جس کے لیے اس نے کسی شہزادی ہی کو لانے کے خواب دیکھے تھے۔
خالد ٹھیک کہتا تھا، شادی راس نہ آئے، تو آدمی بکھر جاتا ہے۔ مَیں اپنے جنید کو بھلا کہیں بکھرتا دیکھ سکتی ہوں…‘‘یہ کہہ کر اس کی آواز ٹوٹ گئی، کیوں کہ وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔پر جب اس کے آنسو تھمے، تو اس نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔ ’’معاف کرنا مجھے، اگر میری طرح تم بھی مُہوّس بن گئی ہو کہ ناکامی مُہوّس لوگوں کا ہمیشہ سے مقدّر ہے۔‘‘