انوارِ جہاں، اسلام آباد
امّاں نے کراہ کر کروٹ بدلی اور پوچھا ’’بیٹا آج جمعہ ہے ناں…؟‘‘اثبات میں جواب ملنے پر انہوں نے دیوار گیر گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا ’’ارے، دس بج گئے…پتا نہیں، بچّے کیا کر رہے ہوں گے۔‘‘مَیں سمجھی، امّاں میرے بچّوں کے لیے متفکّر ہیں، تو انہیں ہنس کر جواب دیا’’آپ فکر نہ کریں، میری غیر موجودگی میں بچّے اور اُن کے ابّا ’’جشنِ آزادی‘‘ منارہے ہوں گے۔‘‘ جواباً امّاں نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’’اس وقت تو مَیں اسکول کے بچّوں کا سوچ رہی ہوں۔ جانے ٹیچرز نے آج ان سے کوئی مفید کام کروایا ہو گا یا صرف رٹّے ہی لگواتی رہی ہوں گی۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے پھر آنکھیں موندلیں۔
دراصل دو روز پہلے مارکیٹ سے واپسی پر امّاں کے پاؤں میں موچ آگئی تھی،ابّا نے اپنے ڈاکٹری تجربے کی بنیاد پر فوری ایکس رے کروایا تو پتا چلا ہڈّی ٹوٹ گئی ہے۔ چناں چہ امّاں کے پاؤں پر پلاسٹر لگادیا گیا۔ بقول ابّا’’بھئی، قدرت نے تمہاری امّاں کو کچھ دن آرام کروانے کا انتظام کیا ہے۔‘‘ ابّا ٹھہرے ہمیشہ سے اپنے مریضوں کے مربی،وہ بھلا انہیں چھوڑ کر امّاں کی پٹی سے لگ کر کتنے دن بیٹھ سکتے تھے،رہے دونوں بھائی، تو ان کی یونی وَرسٹیز نے انہیں سر کُھجانے کے بھی قابل نہیں چھوڑا تھا،لہٰذا مَیں نے اپنی خدمات پیش کردیں، تو اسی بہانے کوئی ڈیڑھ سال بعد پاکستان آنے کا موقع ملا۔
امّاں کی بچّوں کے لیے فکر دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ گزشتہ ایک سال سے میری اماں ایک سرکاری پرائمری اسکول میں جمعے کے دن بچّوں کو نِت نئی چیزیں بنانا سکھاتی ہیں۔ یہ اسکول متنازع زمین پر بنا ہوا ہے، اس لیے وہاں پانی ہے، نہ بجلی۔ حد تو یہ ہےکہ اسکول کی چار دیواری تک ٹوٹی پھوٹی ہے اور سڑک سے اُتر کر ایک کچّا رستہ اسکول تک جاتاہے۔ وہاں پڑھنے والے قریباً ڈیڑھ سوبچّے یا تو نزدیکی کچّی بستی سے آتے ہیں یا قریبی کوٹھیوں کے ملازمین کے ہیں۔
وہ بچّے اس قدر پُھرتیلے، زندگی سے بَھرپور تھے کہ ہمیشہ ہنستے مُسکراتے، کھیلتے کودتے رہتے، کوسوں دُور سے ایک دوسرے سے بات کر لیتے، مگر ذرا کسی صاحبِ حیثیت سے بات کرنی پڑجاتی، تو سر خود بخود جُھک جاتا، آواز حلق ہی میں دَب کے رہ جاتی تھی۔ پھر اسکول کی حالت یہ تھی کہ ابتدائی جماعت میں اگر ساٹھ بچّے داخل ہوتے، تو پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے صرف پانچ یا چھے ہی رہ جاتے تھے۔اس کی وجہ بلکہ وجوہ یہ تھیں کہ کتاہیں تو دیر سویر حکومت سےمفت مل جاتیں،مگر کاپیز، یونی فارم وغیرہ تو والدین کو خود خریدنا پڑتا۔سرکاری اسکولوں میں بچّوں کی دل چسپی کی ہر سرگرمی مثلاً بزمِ ادب، لائبریری کا وقفہ، کھیل کا پیریڈ سب کچھ یک سر ختم کرکے بچّوں کو محض رٹّو توتا بنانے پر زور دیا جاتا۔ ریاضی، سائنس، اردو، انگریزی، غرض ہر مضمون کو لفظ بہ لفظ یاد کرنا بچّوں پر گویا فرض ہوتا۔
کتابوں، کاپیز کے بوجھ سے بستہ اتنا بھاری ہوتا کہ ایک طرف تو بچّوں کی کمر دُہری ہو جاتی، تو دوسری جانب استعمال ہونے والا بستہ بے چارہ چند دنوں ہی میں پھٹ جاتا۔ روزانہ صبح دیر سے اسکول آنے والے بچّوں کو تو بھاری بستوں سمیت دھوپ میں لائن بنانا پڑتی، جب کہ دیر سے آنے والی استانیاں مزے سے اپنی ساتھیوں سے گپّیں لگانے میں مصروف رہتیں۔ کلاس رُومز کا یہ حال کہ ڈیسکس، بینچز ٹوٹی پُھوٹی، زنگ آلود۔ پھر جب دو بچّوں کی نشست پر چار بچّے بیٹھتے تو بھلا لکھائی کیسے ممکن ہوپاتی۔
جانے کس ’’عقل بند‘‘ کا کہنا ہے کہ اگر بچّے بینچز کی جگہ چٹائی پر بیٹھیں تو ان کی عزّتِ نفس متاثر ہوتی ہے، بھئی، ایک بینچ پر چار، چار بچّوں کو بیٹھانے سے تو اچھا ہی ہے ناں کہ بچّے سکون سے نیچے بیٹھ کر پڑھ لیں۔ پھر آرٹ کے معتبر، نام وَر اداروں میں آج بھی خطاطی فرشی نشست ہی پر بیٹھ کر ہوتی ہے۔ خیر، کلاس میں اساتذہ کا پسندیدہ نعرہ ہوتا’’خاموش بیٹھو‘‘۔ نتیجتاً، بہت سے بچّے اسکول سے بھاگ نکلتے۔
ہماری امّاں کا خیال تھا کہ ہم ریٹائرڈ لوگ کھانستے، چھینکتے موت کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی معمولی خدمات سے پس ماندہ بچّوں کا بچپن بہت دل چسپ اور رنگین بناسکتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف ان کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ وہ تعلیم کی طرف بھی راغب ہوں گے۔ چناں چہ محکمۂ تعلیم کے افسر کی اجازت سے انہوں نے جمعے کے دن ایک گھنٹے کے لیے قریبی پرائمری اسکول میں بچّوں کو نِت نئی چیزیں بنانا سکھاناشروع کردیں۔
اس حوالے سے امّاں کے شوق کا یہ عالم تھا کہ جمعرات کا پورا دن تیاریوں میں گزر جاتا۔ پھلوں کی گٹھلیاں، آسانی سے لگ جانے والے پودے جمع کرتیں، تو کبھی دستی کاغذ بنانے کے لیے ردّی سے گودا تیار کرکے رکھتیں۔ان کی پوری کوشش ہوتی کہ ہر بچّے کو غیر نصابی سرگرمی کے لیے پورا سامان ملے، تو کلاس کے تمام بچّوں کے لیے سارا سامان لے کر پوری تیاری کے ساتھ جمعے کو اسکول پہنچتیں۔
دُعا کے فوراً بعد اپنی جادو کی پٹاری کھولتیں، رنگین کاغذوں سے پھول پتیاں کاٹ کر انہیں لئی سے جوڑ کر بیلیں وغیرہ بنانا سکھاتیں، پھر گروپ کی صُورت میں بچّوں کو تیار شُدہ پھول پتیاں دی جاتیں اور وہ انہیں جوڑ کر بیلیں بناتے، کبھی زمین کھود کر بیج ڈالتے اور کیاریاں بناتے۔ اس طرح بچّے نہ صرف کتابی مضامین کو عملی طور پہ سیکھتے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور چھوٹے بچّوں کی مدد بھی کرتے۔ ہر جماعت کے بچّوں کے مختلف گروپس کا آپس میں مقابلہ بھی ہوتا۔ یوں کھیل ہی کھیل میں وہ ہنر بھی سیکھ لیتے۔
ہر جمعے کی رات وہ تمام رُوداد اسکائپ پر مجھے سُناتیں، تو اُن کی خوشی اُن کی آواز سے عیاں ہوتی۔ اماں کے بقول ’’شروع میں تو بچّوں کی جھجھک کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی سوال پوچھو تو ہر بچّہ سر جھکا کر یہ تاثر دیتا گویا اس سے نہیں بلکہ دائیں بائیں والے بچّوں سے پوچھا گیا ہے، لیکن اب وہ بہت خود اعتماد ہوتے جا رہے ہیں۔ سب ہی عملی کاموں میں بَھر پور دل چسپی لیتے ہیں۔ ‘‘امّاں کا طریقۂ کار یہ تھا کہ جو بھی چیز بنواتیں، تو پہلی مرتبہ بچّوں کو گھر لے جانے دیتیں، جب کہ دوسری دفعہ اسکول میں سجانے کے لیے رکھوا لیتیں۔رفتہ رفتہ بچّوں کا اعتماد بڑھنے لگا۔
ایک دفعہ اماں نے پلاسٹک کی بےکار بوتلوں سے چڑیوں کے لیے ’’ناشتے دان‘‘ بنوایا تاکہ بچّے اپنا بچا کھچا لنچ یازمین پر گر جانے والا رزق اس میں ڈال سکیں۔ ساتھ ہی بچّوں کو ایک شعر بھی یادکروایا؎ لنچ ہمارا جو بچ جائے …بھو کی چڑیا شوق سے کھائے۔جس پر ایک بچّے نے کہا ’’میڈم جی!تو ہم کہیں گے’’لنچ ہمارا جو بچ جائے…بھو کی چڑیا مزے سے کھائے۔‘‘بہرحال ،ان سر گرمیوں سے نہ صرف بچّوں کا اعتماد بڑھا بلکہ اسکول میں حاضری بھی بڑھنے لگی اوریہ صورتِ حال ٹیچرز کے لیے کافی حیران کُن تھی۔
ایک دن مَیں نے امّاں سے کہا ’’آپ کچھ اور لوگوں کو اپنے ساتھ کیوں نہیں ملالیتیں کہ ڈیڑھ سو بچّوں کی ذمّے داری اکیلے اُٹھانا مشکل ہے‘‘،تو امّاں ہنس کر کہنے لگیں’’ ایک ریٹائرڈ انجینئر صاحب سے مَیں نے درخواست کی کہ چوتھی،پانچویں کے بچّوں سے انگریزی میں بات چیت کر لیا کریں۔‘‘، تو فرمانے لگے’’دیکھیں جی، مَیں ایک انجینئر ہوں۔ میرا ایک لیول، ایک اسٹینڈرڈ ہے، اگر مجھے کوئی نجی ادارہ لیکچر کے لیے بلائے، توالگ بات ہے، ورنہ پرائمری اسکول میں اس طرح کے کام…‘‘
ابھی ہم ماں، بیٹی باتوں ہی میں مصروف تھے کہ در وازے پر ہلکی سی دستک ہوئی ہے، بالکل ایسے ، جیسےکوئی چڑیا اپنی چونچ سے ٹُھک ٹُھک کر رہی ہو۔ مَیں نے دروازہ کھولا، تو اسکول یونی فارم میں ملبوس، کمر وںپر بستے لادے، کچھ بچّے،بچیاں نظر آئے۔ بچیوں نےنیلی قمیص، سفید شلوار پہنی اور سفید اسکارف اوڑھا ہوا تھا، جب کہ لڑکوں نے سفید قمیصیں اور کالی اونچی سی پتلونیں پہن رکھی تھیں۔تمام بچّے بغیر موزوں کے کالے شُوز پہنے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر آنکھیں جھپکاتے ہوئے بولے’’آنٹی! السلام علیکم، وہ…جمعے والی میڈم ہیں…؟‘‘ کچھ نہ سمجھتے ہوئے مَیں نے پوچھا ’’کون…؟؟‘‘تو ایک بچّی نے کچھ شرماتے ہوئے کہا ’’آنٹی! وہ میڈم، جو ہمیں پھول بنانا سکھاتی ہیں۔ ہمیں اُن کا نام نہیں پتا۔‘‘
تب مجھے سمجھ آیا کہ ’’جمعے والی میڈم‘‘ کون ہیں۔ ’’ہاں بھئی، وہ ہیں اور تھوڑی دیر پہلے پریشان ہو رہی تھیں کہ پتا نہیں ،آپ لوگوں نے آج صبح کچھ سیکھایا نہیں۔‘‘ میری بات سُن کربچّے بولے’’آنٹی! مِس نے ہمیں بتایا تھا کہ میڈم کو چوٹ لگ گئی ہے، تو آج ہم سب اُن کے لیے چیزیں بناکر لائے ہیں۔‘‘ بچّوں نے کہا۔ ’’مگر تم نے گھنٹی کیوں نہیں بجائی؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ تو ایک بچّہ بولا ’’یہ سوچ کر کہ کہیں جمعے والی میڈم سونہ رہی ہوں۔ اس لیے ہم نے پینسل سے دروازہ کھٹکھٹایا‘‘۔ اور مَیں، ان حسّاس بچّوں کو فخر سے دیکھنے لگی۔
بچّوں کی آوازیں سُن کر امّاں نے پکارا ’’بیٹا! کیا بچّے آئے ہیں؟‘‘ ’’ جی امّاں…‘‘ مَیں نے کہا اور بچّوں کو ساتھ لے کر امّاں کے پاس آگئی۔ اماں تو ان سے یوں ملیں، گویا صدیوں کی بچھڑی ہوں۔پھر بچّوں نے اپنے اپنے تحفے امّاں کو دیئے، جن میں پیپل کا پتّا لگا ہینڈ میڈ کاغذ کا کارڈ،رنگین کاغذ کے خوش نما پھول وغیرہ تھے۔ امّاں تو یہ سب دیکھ کر واری قربان جارہی تھیں۔ جانے ان کی آواز کی نقاہت کہاں غائب ہو چُکی تھی۔ ادھر بچّے بھی نہال تھے، اُن کے مسکراتے چہروں پر ستاروں جیسی چمکتی آنکھیں اور موتیوں سے سفید دانت کتنے بھلے لگ رہے تھے۔ مَیں بچّوں کے لیے شربت بنانے جارہی تھی اور امّاں اُن سے کہہ رہی تھیں ’’اس کار ڈپر GET WELL SOON لکھیں۔‘‘
شربت پی کر اور امّاں کی ڈھیروں دُعائیں لے کر بچّے چلے گئے، تو مَیں نے امّاں سے پوچھا ’’کیا سب بچّے آپ کو جمعے والی میڈم کہتے ہیں؟‘‘ تو وہ بولیں’’ہاں! یہ سب پیار سے مجھے یہی کہتے ہیں۔ جب مَیں جمعے کی صبح سڑک سے اُتر کر کچّے راستے پر قدم رکھتی ہوں، تودُور سے کوئی بچّہ دیکھ کر پکارتا ہے،’’جمعے والی میڈم آگئیں‘‘۔ اور پھر اسکول کے سارے بچّے بے تاب ہو کر میری طرف بھاگنے لگتے ہیں اور قریب آنے پر باری باری سلام کرکے ہاتھ ملاتے ہیں۔پھر میرے ہاتھوں میں پکڑا سارا سامان اُٹھا لیتے ہیں اور ہم سب جلوس کی صورت میں اسکول میں داخل ہوتے ہیں‘‘۔
پھر انہوں نے کہا ’’بیٹا! اب اسکول کی چُھٹّی کا وقت ہونے والا ہے، تو یقیناً اور بھی بہت سے بچّے آئیں گے۔ ایسا کرو کہ بڑے پتیلے میں شربت بنالو…‘‘ ’’جی امّاں…‘‘ کہتے ہوئے مَیں کچن میں چلی گئی اور پتیلے میں چینی گھولتے ہوئےایک مُسکراہٹ کے ساتھ امّاں کا نیا نام میرے ہونٹوں پر آگیا’’جمعے والی میڈم‘‘۔ اتنے میں دوبارہ دروازے پر ہلکی سی دستک سُنائی دی، تو مَیں سمجھ گئی کہ ’’پرندے‘‘ اپنی جمعے والی میڈم سے ملنے آئے ہیں۔