• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآن مجید واضح طور پر گواہی دیتا ہے کہ یاجوج ماجوج دو وحشی، خوں خوار قبیلوں کے نام تھے۔ وہ لوگ اپنے اِرد گرد بہت زیادتیاں، ظلم و ستم کرتے تھے۔ مفسّر، علامہ طباطبائی نے ’’المیزان‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’توریت کی ساری باتوں سے مجموعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج ایک یا کئی بڑے بڑے قبیلے تھے، یہ شمالی ایشیا کے دُور دراز علاقے میں رہنے والے جنگ جُو، غارت گر اور ڈاکو قسم کے لوگ تھے۔‘‘

مہذّب دنیا پر وحشیانہ حملے: تقریباً روز کا معمول بن چکا تھا کہ پہاڑ کی دوسری جانب سے بدہیئت، وحشی، خوں خوار یاجوج ماجوج بڑی تعداد میں آکر مہذّب انسانی دنیا پر حملہ آور ہوتے اور ہر چیز تباہ و برباد کر ڈالتے۔ اُن کے لیے انسانوں کو ہلاک کرنا، مال مویشی لُوٹنا اور کھیت کھلیان تباہ کرنا ایک عام سی بات تھی۔ لوگ نہایت خوف کی حالت میں اُس زمینی آفت سے نجات کے لیے اپنے ربّ سے گِڑگِڑا کر دُعائیں کرتے۔ ایک صبح جب وہ سوکر اُٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں ایک عالی شان اجنبی فوج ان کے کُھلے میدانوں میں خیمہ زن ہے۔ پہلے تو وہ حیران اور خوف زدہ ہوئے، لیکن پھر قوم کے چند سردار اس جنگ جُو لشکر کو اپنے لیے غیبی مدد اور نجات دہندہ سمجھتے ہوئے لشکر کی جانب گئے اور سپہ سالار سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ 

اجازت کے بعد مقامی سرداروں کو فوج کے سپہ سالار کے خیمے میں پیش کیا گیا۔ سپہ سالار نے معززینِ شہر کو خوش آمدید کہتے ہوئے یہ یقین دلایا کہ اُن کی فوج اُن کے علاقوں پر قبضہ کرے گی، نہ ہی اُن کے مال مویشی اور کھیت کھلیان کو کوئی نقصان پہنچائے گی۔ مقامی سردار، جنگی لباس میں ملبوس فوج کے سپہ سالار کا حُسنِ اخلاق اور طرزِ مہربانی دیکھ کر مطمئن ہوگئے، لیکن جب اُن کے سامنے یہ بات لائی گئی کہ وہ دنیا کے عظیم بادشاہ ذوالقرنین سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کررہے ہیں، تو بہت حیران ہوئے اور دل میں سوچنے لگے کہ ’’شاید یہ شخص قدرت کی جانب سے ہمارے لیے نجات دہندہ بن کر آیا ہے۔‘‘ 

سرداروں کو سوچ میں گُم دیکھ کر ذوالقرنین نے کہا ’’اے میرے قابلِ احترام دوستو! ویسے تو مَیں اپنی بادشاہت سے بہت دُور دیارِ غیر ایک سفر پر ہوں، لیکن اگر میں آپ لوگوں کی کوئی خدمت کرسکوں، تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘ بس یہی وہ لمحہ تھا کہ جب اُن کی دلی خواہش اُن کے لبوں پر آگئی۔ اُن سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر ایک شخص بولا ’’اے مہربان بادشاہ! اس پہاڑ کے دوسری جانب یاجوج ماجوج نام کی قوم رہتی ہے، جو زمین پر بہت فساد مچانے والے لوگ ہیں۔ اگر ہم آپ کو کچھ خراج ادا کردیں، تو کیا اس کے عوض آپ ہمارے اور اُن کے درمیان ایک دیوار تعمیر کردیں گے؟‘‘ بادشاہ نے کہا ’’میرے قابلِ احترام دوستو! ربّ نے مجھے جو کچھ دے رکھا ہے، وہ بہت بہتر ہے، البتہ اگر تم لوگ میری مدد قوت و طاقت سے کرو، تو میں تمہارے اور اُن کے درمیان ایک مضبوط دیوار تعمیر کردوں گا۔‘‘ (سورئہ کہف، آیات95,94:)۔

سدّذوالقرنین کی تلاش: ذوالقرنین نے دونوں پہاڑوں کے سروں کے درمیان جو خلا تھا، اُسے لوہے کی بڑی موٹی چادروں کے ساتھ پُر کردیا۔ پھر چادروں کو خُوب گرم کرکے اُن پر پگھلا ہوا لوہا، تانبا اور سیسہ ڈال کر اُسے مضبوطی سے بند کردیا۔ جسے عبور کرکے یاجوج ماجوج کا دوسری طرف انسانی آبادیوں میں آنا ناممکن ہوگیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اس دیوار کے آثار بحیرئہ کیسپئن کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ داریال اور دربند کے درمیان اب بھی موجود ہیں۔ یہ دیوار پچاس میل لمبی، انتیس فٹ اونچی اور دس فٹ چوڑی ہے۔ آج سے سیکڑوں سال پہلے لوہے اور تانبے کی اتنی بڑی دیوار تعمیر کرنا یقیناً ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔‘‘ (بیان القرآن، جلد4،صفحہ،387)۔ داریال روس اور جارجیا کے درمیان ایک دریائی گھاٹی ہے۔ داریال اور دربند کا درمیانی راستہ کوہستانی درّوں پر مشتمل ہے۔ 

حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ اپنی کتاب ’’عقیدۃ الاسلام‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’مختلف ادَوار میں مفسد اور وحشی انسانوں کی تاخت و تاراج سے حفاظت کے لیے زمین پر بہت سی جگہوں پر سدّیں (دیواریں) تعمیر کی گئیں۔‘‘ حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ نے اپنی کتاب ’’قصص القرآن‘‘ میں فرمایا کہ ’’یاجوج ماجوج کی تاخت و تاراج اور شر و فساد کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ ایک طرف کاکیشیا کے نیچے بسنے والے اُن کے ظلم و ستم کا شکار تھے، تو دوسری طرف تبّت اور چین کے باشندے بھی ہر وقت اُن کی زد میں رہتے تھے۔ 

ان ہی یاجوج ماجوج کے شر و فساد سے بچنے کے لیے مختلف زمانوں میں مختلف مقامات پر متعدد دیواریں تعمیر کی گئیں۔‘‘ ابنِ کثیرؒ نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں لکھا کہ ’’واثق باللہ خلیفہ عباسی نے سدّ ذوالقرنین کی تحقیق کی غرض سے ایک جماعت کو روانہ کیا، جس نے اپنی تحقیق کے بعد بتایا کہ ’’یہ دیوار لوہے سے تعمیر کی گئی ہے، اس میں بڑے بڑے دروازے بھی ہیں، ان پر قفل پڑا ہوا ہے اور یہ شمال مشرق میں واقع ہے۔‘‘ (واللہ اَعلم)

اہلِ مغرب کا گم راہ کُن پروپیگنڈا

حضرت مولانا سیّد محمد انور شاہؒ نے کوہ قاف قفقاز کی سدّ کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ سدّ ذوالقرنین کی تعمیر کردہ ہے۔‘‘ (عقیدۃ الاسلام، 297) اہلِ یورپ ان شمالی دیواروں میں سے کسی کا موجود ہونا یا، یاجوج ماجوج کا راستہ بند ہونا تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اسی بنیاد پر بعض مسلمان مؤرخین نے بھی یہ لکھنا شروع کردیا ہے کہ قرآن و حدیث میں یاجوج ماجوج کے خروج کا جو ذکر ہے، وہ ہوچکا ہے۔ بعض نے چھٹی صدی ہجری میں قومِ تاتار کی طوفانی یلغار کو یاجوج ماجوج قرار دے دیا اور بعض نے دنیا پر غالب آجانے والی قوموں روس، چین، یورپ اور امریکا کو یاجوج ماجوج کہہ کر اس باب کو بند کردیا۔

علامہ شہاب الدین محمود آلوسی نے اپنی تفسیر’’ روح المعانی‘‘ میں تاتاریوں کو یاجوج ماجوج قرار دینے والوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ایسا خیال کرنا کُھلی گم راہی اور نصوصِ حدیث کی مخالفت ہے۔ البتہ یہ فتنہ یاجوج ماجوج کے فتنے سے مشابہ ضرور ہے۔‘‘ (روح المعانی،44)۔ قرآنِ مجید اور احادیث میں یاجوج ماجوج کے خروج کو قُربِ قیامت کی ایک بڑی علامت قرار دیا گیا ہے اور اُن کے خروج کا وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد بتایا گیا ہے۔ (صحیح مسلم،7285)۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ مزید فرماتے ہیں کہ ’’اہلِ یورپ کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے کہ ہم نے ساری دنیا چھان ماری ہے، ہمیں اس دیوار کا سراغ نہیں ملا، لیکن اوّل تو یہ خود ان لوگوں ہی کی تصریحات میں موجود ہے، جن میں وہ کہتے ہیں کہ سیّاحت اور تحقیق کے انتہائی معراج پر پہنچنے کے باوجود آج بھی بہت سے ایسے جنگل، دریا، جزیرے اور صحرا پوشیدہ ہیں، جن کا ہمیں علم نہیں۔

دوسرے اس بات کا بھی احتمال بعید نہیں کہ اب یہ دیوار موجود ہونے کے باوجود پہاڑوں کے گرنے اور باہم مل جانے کے سبب ایک پہاڑ ہی کی صورت اختیار کرچکی ہو۔‘‘(واللہ اعلم)، لیکن سدّ ذوالقرنین کے تاقیامت باقی رہنے پر بڑا استدلال تو قرآنِ کریم کے ان الفاظ سے کیا جاتا ہے۔ ترجمہ،’’قیامت کے قریب جب یاجوج ماجوج کے نزول کا وقت آجائے گا، تو اللہ تعالیٰ اس آہنی دیوار کو ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کردے گا۔‘‘ چناں چہ دیوارِ ذوالقرنین کے تعلق سے ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ قیامت کے قریب اللہ تعالیٰ اس دیوار کو ڈھادے گا اور یاجوج ماجوج کا خروج ہوجائے گا۔

یاجوج ماجوج کا تعارف:حضرت ابنِ عباسؓ، حضرت نوح علیہ السلام کے چار بیٹوں کا ذکر فرماتے ہیں، جن کے نام سام، حام، یافث اور کنعان ہیں۔ کنعان طوفانِ نوح میں غرق ہوگیا تھا، عرب اسے ’’یام‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ سام کی اولاد کے رنگوں میں سفید اور گندمی رنگت شامل ہے۔ سام سے اقوامِ عرب، فارس اور روم وغیرہ پیدا ہوئے۔ ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ ’’اے موسیٰ! تُو اور تیری قوم اہلِ جزیرہ اور اہلِ العال (یعنی بالائی عراق کے باشندے) سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد ہیں۔‘‘ سام کی اولاد نے بابل سے نکل کر مجول کی زمین میں قیام کیا کہ زمین کا مرکز یہی ہے۔ 

اسی قوم کواللہ تعالیٰ نے پیغمبری، نبوت، کتابِ شریعت، حُسن و جمال، گندم گونی اور گورا رنگ عطا فرمایا۔ محمد بن السائب فرماتے ہیں کہ ’’ہندی قوم کے ایک بیٹے کا نام مکران تھا۔‘‘ سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’نوح علیہ السلام کے بیٹوں میں عربوں کے ابوالآباء سام ہیں۔ ان سب میں خیر و فلاح ہے۔‘‘ حضرت سعید بن المصیبؓ فرماتے ہیں کہ ’’حام سے قومِ سوڈان، بربر اور قبط پیدا ہوئے۔ یہ تینوں قومیں مصر کی ہیں۔ حام کی اولاد کی رنگت سیاہی اوپر کچھ سفیدی مائل ہے، جو حبشی النسل ہے۔ یافث بن نوح علیہ اسلام سے ترک و ہمقالیہ اور یاجوج ماجوج کی قومیں پیدا ہوئیں۔ 

ان کا رنگ سرخی مائل سیاہ ہے۔‘‘ (طبقاتِ ابنِ سعد،58/1)۔ علامہ شہاب الدین محمود الوسیؒ بغدادی اپنی تصنیف ’’روح المعانی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جمہور علماء تفسیر و حدیث کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج بنی نوع انسان کی دو قوموں یا دو قبیلوں کے نام ہیں۔ جو یافث بن نوح علیہ السلام کی نسل سے اور ترکوں کے جدِّاعلیٰ ہیں۔ یہ نسلِ انسانی کے وحشی قبائل ہیں، جو شمال مشرقی ایشیا میں زندگی بسر کرتے اور مغربی علاقوں میں آکر تباہی مچاتے تھے۔ 

اُن کے متعلق اسرائیلی روایات اور تاریخی قصّے، کہانیوں میں بہت سی بے سروپا اور عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں، جنھیں بعض مفسّرین نے بھی تاریخی حیثیت سے نقل کردیا ہے، جب کہ قرآنِ کریم اور حدیثِ مبارکہ میں اس قصّے کے تعلق سے امّت کو جو آگاہی فراہم کی گئی ہے، وہی ہمارے لیے مستند اور مسلّمہ ہے۔ اس کے علاوہ کُتب میں جو تاریخی واقعات اور جغرافیائی و ماحولیاتی حالات کی تفصیل بیان کی گئی ہے، وہ بہت زیادہ تضاد اور اختلافات سے بھری ہوئی ہے، جن کے صحیح یا غلط ہونے سےمتعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

اللہ کے حکم سے دیوار ٹوٹ جائے گی: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’یاجوج ماجوج دیوارِ ذوالقرنین کو ہر روز کھودتے ہیں، جب وہ دیوار میں شگاف ڈالنے کے قریب پہنچ جاتے ہیں، تو اُن کا نگراں اُن سے کہتا ہے کہ اب واپس چلو، کل ہم اس میں سوراخ کردیں گے۔ اُدھر اللہ تعالیٰ اُسے پہلے سے زیادہ مضبوط اور ٹھوس بنادیتا ہے۔ اگلے روز یہ پھر کھودنے کے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں، چناں چہ یہ روز کھودتے ہیں اور اللہ تعالیٰ درست فرمادیتا ہے۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا، یہاں تک کہ اُن کے خروج کا وقت آجائے گا اور اللہ تعالیٰ اُن کے کھولنے کا حکم فرمادے گا۔ 

اُس روز جب یہ دیوار کے شگاف کو آخری حد تک کھود ڈالیں گے، تو اُس دن اُن کا نگراں کہے گا کہ اِن شاء اللہ تعالیٰ ہم کل اسے پار کرلیں گے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب وہ اگلے دن لوٹ کر آئیں گے، تو اسے اسی حالت میں پائیں گے، جس حالت میں چھوڑ کرگئے تھے۔ پھر وہ اسے توڑ ڈالیں گے اور باہر نکل کر لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔ سارا پانی پی جائیں گے، لوگ اُن سے بچنے کے لیے بھاگیں گے، پھر وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے، تیر خون میں ڈوبے ہوئے واپس آئیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم زمین والوں پر غالب آگئے اور آسمان والے سے بھی ہم قوت و بلندی میں بڑھ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُن کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کردے گا، جس سے وہ ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘ (جاری ہے)