• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر اِفسوس بُت پرستی کا سب سے بڑا مرکز: جس زمانے میں اصحابِ کہف یعنی ان خُدا پرست نوجوانوں کو آبادی سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔ اُس وقت شہر اِفسوس/ اِفسِس ایشیائے کوچک میں بُت پرستی اور جادُوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا، جس کی شہرت پوری دُنیا میں پھیلی ہوئی تھی، لوگ دُور دُور سے اس کی پوجا کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادوگر عامل، فال اور تعویذ نویس دُنیا بھر میں مشہور تھے۔ اُن کا کاروبار شام، فلسطین اور مصر تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی اچھا خاصا حصّہ تھا، جو اپنے فن کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی جانب منسوب کرتے تھے۔ (تفہیم القرآن، 14/3)۔

غار میں نوجوانوں کی دُعا: جب نوجوانوں نے غار میں پناہ لے لی، تو کہنے لگے ’’اے ہمارے رَبّ! تُو ہمیں رحمت اور آسانی عطا فرما اور ہمارے معاملات میں عافیت کا راستہ اور اپنے خاص خزانۂ فضل سے رحمت کا بندوبست فرمادے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دُعا قبول فرمائی اور غار کے اندر اُن پر ایک طویل نیند طاری کردی اور وہ نو اُوپر تین سو سالوں تک سوتے رہے۔

غار کا ہیبت ناک منظر: جس غار میں یہ نوجوان سو رہے تھے۔ وہ ایک سُنسان جگہ پر واقع تھا، جہاں لوگوں کا آنا جانا بالکل نہیں تھا۔ اس غار کا دہانہ شمال کی جانب تھا، جس کی وجہ سے اس کے اندر روشنی منعکس ہوکر آتی تھی، براہِ راست روشنی یا دُھوپ نہیں پڑتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے اُن کی نیند کے دوران کروٹیں بدلنے کا اہتمام بھی فرمایا ہوا تھا۔ یہ غار اندر سے کافی کشادہ تھا۔ اس کے دہانے پر ان کا کتّا دونوں ہاتھ پھیلائے اپنے مخصوص انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔ ویرانے اور سُنسان جگہ پر ایک اندھیری غار اور اس کی دہلیز پر اپنے بازو پھیلائے بیٹھا ہوا ایک خوف ناک کتّا۔ یہ ایک ایسا بھیانک منظر تھا کہ جو بھی دیکھتا ڈر کے مارے ہیبت زدہ ہوکر وہاں سے بھاگ جاتا۔ (بیان القرآن، 350/4)۔

دین کی حفاظت کے لیے ہجرت کرنا: علّامہ عمادالدین ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ’’دین کی حفاظت کے لیے دُوسرے محفوظ مقام پر ہجرت کرجانا کہ جہاں وہ اپنی عبادت کرسکیں، تمام انبیاء کی سُنّت ہے اور اصحابِ کہف نے بھی اس سُنّت پر عمل کیا۔‘‘ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مسلمان اپنے دین کو بچانے کے خاطر فتنوں سے راہِ فرار اختیار کرکے اپنے مال اور بکریوں کے ساتھ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر ہجرت کرجائیں گے۔‘‘(صحیح بخاری، 19)۔

اصحابِ کہف اللہ کی حفاظت میں: اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کی حفاظت کس طرح فرماتا ہے، مختلف اَدوار میں اللہ تعالیٰ عام لوگوں کی نصیحت کے لیے اس کا اظہار فرماتا رہتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کس طرح حفاظت فرماکر فرعونِ وقت کے ہاتھوں پروان چڑھایا۔ سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ گُل وگل زار فرمادی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دُشمنوں سے محفوظ فرما کر صحیح سلامت آسمانوں پر اُٹھالیا۔ 

اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے باہر قریشِ مکّہ کے تمام سردار شمشیر برہنہ لیے منتظر ہیں کہ آج قصّہ تمام کردیا جائے گا، لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے، تو اللہ نے ان تمام خوں خوار جنگجوئوں کی بینائی سلب فرمادی اور وہ سیّدنا علی مرتضیٰؓ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ سوتے دیکھ کر صبح تک مطمئن کھڑے رہے۔ مدینہ منوّرہ ہجرت کے وقت غارِ ثور میں اللہ کے نبیؐ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ دُشمن تلاش کرتا ہوا غارِ ثورکے دَہانے پر پہنچ چکا ہے۔ 

سیّدنا ابوبکر صدیقؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مَیں غارِ ثور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ جب میں نے اپنا سر اُٹھایا، تو کچھ لوگوں کے پائوں نظر آئے۔ میں نے عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر ان میں سے کسی نے بھی اپنی نگاہ نیچی کی، تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’اے ابوبکرؓ! خاموش رہو، ہم دو آدمی ایسے ہیں، جن کے ساتھ تیسرا ہمارا اللہ ہے۔‘‘(صحیح بخاری، 3922)۔ حضرت امیر معاویہؓ نے جنگِ روم کے وقت کہف کی طرف سے گزرتے ہوئے مقامِ اصحابِ کہف کے اندر داخل ہونے کا ارادہ کیا۔ حضرت ابنِ عباسؓ اس جنگ میں ساتھ تھے، انھوں نے منع کیا اور یہ آیت پڑھ کر سُنائی۔ ترجمہ:’’اے سُننے والے، اگر تُو انھیں جھانک کر دیکھ لے، تو اُن سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور اُن سے ہیبت میں بھرجائے۔‘‘ (سورۂ کہف،18)۔ مفتی محمد شفیع نے تفسیرِ مظہری کے حوالے سے لکھا کہ ’’جب یہ لوگ غار میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایک سخت گرم ہوا بھیج دی، جس کی وجہ سے یہ کچھ نہ دیکھ سکے۔‘‘(معارف القرآن، 569/5)۔

اصحابِ کہف کا بے دار نظر آنا: سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’آپ خیال کرتے ہیں کہ وہ بے دار ہیں، حالاں کہ وہ سوئے ہوئے تھے اور خود ہم ہی انھیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے۔‘‘ (سورئہ کہف،18)۔ آیت کی تفسیر میں مفسّرین فرماتے ہیں کہ اُن کی آنکھیں اس طرح کُھلی ہوئی تھیں، جس طرح جاگنے والے شخص کی کُھلی ہوتی ہیں اور چوں کہ انھیں فرشتے کروٹیں دلوایا کرتے تھے، لہٰذا وہ بے دار نظر آتے تھے، اور اگر کوئی شخص دیکھنے والا ہوتا، تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ابھی ابھی لیٹے ہیں۔ حالاں کہ وہ تین سو نو سال تک مستقل سوتے رہے۔ کروٹیں بدلنے میں حکمت یہ تھی کہ نہ صرف وہ بے دار نظر آئیں، بلکہ ایک ہی کروٹ میں لیٹنے کی وجہ سے مٹّی اُن کے جسم کے ایک حصّے کو نہ کھا جائے۔

اصحابِ کہف کا کتّا: قرآن کریم میں اصحابِ کہف کے کتّے کا ذکر ہے، جو اصحابِ کہف کے ساتھ غار میں ایک طویل مدّت تک رہا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصحابِ کہف نے اپنے ساتھ کتّا کیوں رکھا؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ کتّا پالنے کی ممانعت شریعتِ محمدیؐ میں ہو اور ممکن ہے کہ دین مسیح علیہ السلام میں یہ ممنوع نہ ہو۔ 

دُوسرا یہ قرین قیاس ہے کہ یہ لوگ چوں کہ صاحبِ جائیداد اور صاحبِ مویشی بھی تھے، اس لیے اُن کی حفاظت کے لیے کتّا پالا ہو، کیوں کہ کتّے کی وفاداری مشہور ہے۔ اس لیے یہ جب شہر سے چلے، تو وہ بھی ساتھ لگ گیا ہو۔ ابنِ عطیہؒ فرماتے ہیں کہ ’’میرے والد ماجد نے ابوالفضل جوہریؒ کا ایک وعظ469ہجری میں جامع مصر کے اندر سُنا، وہ برسر منبر یہ فرما رہے تھے کہ ’’جو شخص نیک لوگوں سے محبّت کرتا ہے۔ اُن کی نیکی کا حصّہ اُسے بھی ملتا ہے، دیکھو، اصحابِ کہف کے کتّے نے اُن سے محبّت کی اور ساتھ ہولیا، تو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس کا ذکر فرمادیا۔‘‘ (معارف القرآن، 568/5)۔

اصحابِ کہف کا ساتھی شہر کے بازار میں: سورۂ کہف آیت19میں اصحابِ کہف کے دوبارہ بے دار ہونے اور اشیائے خورو نوش خریدنے کے لیے شہر جانے کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جس طرح ہم نے انہیں اپنی قدرت سے سُلایا تھا، اُسی طرح تین سو نو سال کے بعد ہم نے انھیں اس حال میں اُٹھایا کہ اُن کے جسم اسی طرح صحیح سالم تھے، جس طرح تین سو سال قبل سوتے وقت تھے۔‘‘ اس لیے بے دار ہونے کے بعد انھوں نے آپس میں ایک دُوسرے سے سوال کیا۔ گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے، تو صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بے دار ہوئے، تو دِن کا آخری پہر تھا۔ یوں وہ سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم دن کا کچھ حصّہ سوئے رہے۔

تاہم، کثرتِ نوم کی وجہ سے وہ سخت تردّد میں رہے اور بالآخر انھوں نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا کہ وہی صحیح مدّت جانتا ہے۔ بیدار ہونے کے بعد انھیں خوراک کا بندوبست کرنے کی فکر ہوئی، چناں چہ پاکیزہ کھانے کی جستجو اور احتیاط کے تقاضوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اصحابِ کہف کا ایک ساتھی چاندی کا وہ سکّہ لے کر شہر کی جانب گیا، جو تین سو سال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا، اس نے وہ سکّہ ایک دُکان دار کو دیا، تو کئی سو سال پُرانا سکّہ دیکھ کر دُکان دار سخت حیران ہوا۔ اُس نے دوسری دکان والے کو دِکھایا، وہ بھی دیکھ کر حیران ہوا۔ چند اور لوگ بھی جمع ہوگئے اور اُس سے پوچھ گچھ شروع کردی۔ اصحابِ کہف کا ساتھی یہی کہتا رہا کہ ’’مَیں اسی شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہی یہاں سے گیا ہوں۔‘‘ لیکن اس کل کو تین صدیاں گزر چکی تھیں، لوگ کس طرح اس کی بات پر یقین کرلیتے؟ لوگوں کو شبہ ہوا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ نہ ملا ہو۔ لوگوں نے اسے پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں پیش کردیا۔‘‘ (تفسیر، مولانا صلاح الدین یوسف، 805)۔

اور اللہ نے نیک بادشاہ کی دُعا قبول کرلی: غار میں اصحابِ کہف کے غار میں جانے کے وقت جو ظالم اور مشرک بادشاہ، دقیانوس اس شہر پر مسلّط تھا، اُسے مرے ہوئے صدیاں بیت گئی تھیں اور اس وقت اس مملکت پر، توحید پہ یقین رکھنے والے ایک نیک اورصالح بادشاہ کی حکومت تھی۔ تفسیر مظہری میں اس بادشاہ کا نام ’’بیدوسیس‘‘ لکھا ہے۔ اس کے زمانے میں اتفاقاً قیامت اور اس میں سب مُردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے مسئلے پر کچھ اختلافات عوام میں پھیل گئے۔ ایک فرقہ اس کا منکر ہوگیا کہ جسم کے گلنے سڑنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوجانا کیسے ممکن ہے؟ بیدوسیس بادشاہ کو فکر لاحق ہوئی کہ کس طرح اُن کے شکوک و شبہات دُور کیے جائیں؟ 

جب کوئی بھی تدبیر نہ بن پڑی، تو اس نے ٹاٹ کے کپڑے پہنے اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر اللہ سے دُعا اور اِلحاح و زاری شروع کردی کہ ’’یااللہ! تُو ہی کوئی ایسی صورت پیدا فرما دے کہ جس سے ان لوگوں کا عقیدہ صحیح ہوجائے اور یہ راہِ راست پر آجائیں۔‘‘ ایک طرف تو یہ نیک بادشاہ گریہ و زاری اور دُعا میں مصروف تھا۔ دُوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اُس کی دُعا کی قبولیت کا یہ سامان پیدا کردیا کہ اصحابِ کہف بے دار ہوگئے اور انھوں نے تملیخا نامی اپنے ایک آدمی کو اُن کے بازار میں بھیج دیا۔ وہ کھانا خریدنے کے لیے ایک دُکان پر پہنچا اور تین سو برس پُرانا سکّہ، جو بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا، اشیائے خورو نوش کے حصول کے لیے قیمتاً پیش کیا، تو دُکان دار حیران رہ گیا۔ اُس نے بازار کے دُوسرے دُکان داروں کو دِکھایا، سب نے یہ کہا کہ کہیں سے پُرانا خزانہ اس شخص کے ہاتھ آگیا ہے، اور یہ سکّہ اُسی خزانے کا ہے۔ 

نتیجتاً اس کے لاکھ انکار کے باوجود اسے گرفتار کرکے بادشاہ کی عدالت میں پیش کردیا گیا۔ بادشاہ نیک اور صالح تھا۔ اس نے سلطنت کے پُرانے خزانے کے آثارِ قدیمہ میں کہیں وہ تختی بھی دیکھی تھی، جس میں اصحابِ کہف کے نام اور فرار ہوجانے کا واقعہ تحریر تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ خود ظالم بادشاہ، دقیانوس نے اصحابِ کہف کو اشتہاری مجرم قرار دے کر اُن کے نام اور پتے کی تختی لکھواکر محفوظ کروادیا تھا کہ یہ جب کبھی کہیں نظر آئیں، تو انھیں گرفتار کرلیا جائے۔ تاہم، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ دربارِ شاہی میں کچھ ایسے مومن بھی تھے، جو دِل سے بُت پرستی کو بُرا جانتے اور اصحابِ کہف کو حق پر سمجھتے تھے، مگر بادشاہ کے خوف کی وجہ سے وہ یہ بات ظاہر کرنے کی ہمّت نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے یہ تختی بطور یادگار لکھ لی تھی۔ اسی تختی کا نام رقیم ہے۔ جس کی وجہ سے اصحابِ کہف کو اصحابِ رقیم بھی کہا گیا۔ بادشاہ اصحابِ کہف کے واقعے سے کسی حد تک واقف تھا اور اس وقت وہ اپنے رَبّ کے حضور اس دُعا میں مشغول تھا کہ کسی طرح لوگوں کو اس بات کا یقین آجائے کہ مُردہ اَجسام کو زندہ کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے سامنے کچھ بعید نہیں۔

بادشاہ نے تملیخا سے بہت سے سوالات کیے، جن کے جوابات سے اطمینان کے بعد بادشاہ کو یقین ہوگیا کہ یہ شخص اصحابِ کہف میں سے ہے۔ اس موقعے پر بادشاہ نے کہا کہ’’مَیں اکثر اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کیا کرتا تھا کہ مجھے ان لوگوں سے ملا دے، جو دقیانوس کے خوف سے اپنا ایمان بچا کر بھاگے تھے۔‘‘ بادشاہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’شاید اللہ تعالیٰ نے میری دُعا قبول فرمالی ہے اور یہ واقعہ اپنی آنکھ سے دیکھ کر لوگ یقین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے اور موت و زندگی اس کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بادشاہ نے اس شخص سے کہا کہ ’’مجھے اس غار پر لے چلو، جہاں سے تم آئے ہو۔‘‘ (معارف القرآن، 574/5)۔

اصحابِ کہف کی بادشاہ سے ملاقات اور موت کا واقع ہونا: بادشاہ اہلِ شہر کے ایک بڑے مجمع کے ساتھ غار کی جانب روانہ ہوا۔ جب غار کے قریب پہنچے تو تملیخا نے کہا کہ ’’آپ ذرا یہاں ٹھہریں، میں اپنے ساتھیوں کو حقیقتِ حال سے باخبر کرکے آپ کے آنے کی اطلاع دے دوں۔ ایسا نہ ہو کہ اچانک آپ سب کو دیکھ کر وہ یہ سمجھیں کہ ہمارا دُشمن ہم پر چڑھائی کرنے آگیا ہے۔‘‘ چناں چہ ان سب کو ذرا دُور کھڑا کر کے تملیخا غار کے اندر گیا اور اپنے ساتھیوں کو تمام حالات سے آگاہ کیا۔ اس کے ساتھی یہ سُن کر بڑے حیران بھی ہوئے اور بہت خوش بھی۔ وہ باہر آئے۔ 

عزت و احترام کے ساتھ بادشاہ کا استقبال کیا اور پھر اپنے غار میں واپس لوٹ گئے۔ یہاں پر اہلِ سیر میں اختلاف رائے ہے اور مختلف روایات ہیں۔ اکثر مؤرّخین نے لکھا کہ جس وقت تملیخا نے ساتھیوں کو یہ سارا قصّہ سُنایا، تو اُسی وقت اُن سب کی موت واقع ہوگئی اور بادشاہ سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ تفسیر بحرِمحیط میں ابوحیّانؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ملاقات کے بعد اصحابِ کہف نے بادشاہ اور اہلِ شہر سے کہا کہ اب ہم آپ سے رُخصت چاہتے ہیں اور غار کے اندر چلے گئے اور اسی وقت وہ سب وفات پاگئے۔ (معارف القرآن، 576/5)۔

اصحابِ کہف کی تعداد: اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے، ’’کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحابِ کہف تین تھے اور چوتھا اُن کا کتّا تھا، کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کتّا تھا۔ (یہ لوگ) غیب کی باتوں میں اَٹکل (کے تیر تکے) چلاتے ہیں۔ کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتّا ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ میرا پروردگار اِن کی تعداد کو بخوبی جاننے والا ہے، انھیں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔ پس، اُن کے مقدمے میں صرف سرسری گفتگو ہی کریں۔ اور ان میں سے کسی سے اُن کے بارے میں پوچھ گچھ بھی نہ کریں۔‘‘ (سورۂ کہف آیت، 22)۔

بعض مفسّرین نے چند صحابہ کرامؓ کے حوالے سے یہ اندازہ ظاہر کیا ہے کہ اُن کی تعداد سات ہو سکتی ہے، لیکن اصل حکم وہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمادیا کہ ’’آپ کہہ دیجیے کہ میرا پروردگار ہی اُن کی تعداد کو بخوبی جاننے والا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں غیر ضروری گفتگو، پوچھ گُچھ اور چھان بین سے بھی منع فرمادیا۔ چناں چہ اُمتِ مسلمہ کو بھی چاہیے کہ صرف اتنی ہی ہدایات اور معلومات پر اِکتفا کریں، جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فراہم کیں۔

غار میں قیام کی مُدّت: سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،’’وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو سال اور زیادہ گزارے۔‘‘ (سورۂ کہف آیت، 25)۔ آیت نمبر26میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’اے نبیؐ! آپ کہہ دیجیے کہ اللہ ہی کو ان کے ٹھہرے رہنے کی مدّت کا بخوبی علم ہے، آسمانوں اور زمینوں کا غیب صرف اُسی کو حاصل ہے۔‘‘ (سورئہ کہف آیت، 26)۔ تفسیر کے مطابق، اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ کتاب یا کوئی اور اس مدّت سے اختلاف کرے، تو آپ اُن سے کہہ دیں کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ جب اس نے تین سو نو سال مدّت بتائی ہے، تو یہی صحیح ہے کہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کتنی مدّت غار میں رہے؟ کیوں کہ آسمانوں اور زمین کا تمام تر علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔

اصحابِ کہف کی یادگار: اصحابِ کہف کی بزرگی اور تقدّس کے تو سب ہی قائل ہوچکے تھے، اُن کی وفات کے بعد سب کا خیال ہوا کہ غار کے پاس کوئی عمارت بنا دی جائے۔ شہر میں کچھ بُت پرست بھی تھے، ان لوگوں کا مشورہ تھا کہ یہاں بطور یادگار رفاہِ عامّہ کی کوئی عمارت بنا دی جائے، مگر اربابِ حکومت، بادشاہ اور عوام کی اکثریت اہلِ کتاب میں سے تھی اور ان ہی کا غلبہ تھا اُن کی رائے یہ تھی کہ یہاں مسجد بنا دی جائے، جو یادگار بھی رہے اور آئندہ بُت پرستی سے بچانے کا سبب بھی بنے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ کہف کی آیت21 میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔

مختلف غاروں کے متعلق اصحابِ کہف کے غار ہونے کا گمان: قصّہ اصحابِ کہف کے تاریخی اور جغرافیائی واقعات میں اہلِ تفسیر اور مؤرّخین میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دینِ مسیح علیہ السلام میں رہبانیت کو بڑا مقدّس مقام حاصل ہے۔ چناں چہ جن ممالک میں عیسائیت تھی، وہاں ایسے لوگ بھی تھے، جنھوں نے اللہ کی عبادت کی خاطر اپنی پوری زندگی غاروں میں گزار دی اور وہیں وفات پاگئے۔ 

پھر جب کبھی کھدائی یا صفائی کے دوران وہاں سے بوسیدہ لاشیں اور دیگر سامان ملا تو مؤرّخین کو اصحابِ کہف کا گمان ہوا۔ تفسیر ابنِ کثیر، ابن جریر ابن ابی حاتم، قرطبی اور اُندلسی سمیت مستند تفاسیر میں ایسے بہت سے واقعات کا ذکر موجود ہے۔ موجودہ دَور کے جدید محققّین اور قدیم مسیحی مؤرّخین نے اس پر بہت زیادہ غور و فکر اور تحقیق کی ہے، لیکن ان کی روایات و حکایات اور آثار و قرائن اس درجہ مختلف ہیں کہ اس تحقیق و کاوش کے بعد بھی کوئی قطعی فیصلہ ممکن نہیں۔

جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا، تم بھی مبہم رکھو: اس قصّے میں اللہ تعالیٰ نے صرف ان واقعات کو بیان فرمایا ہے، جو ضروری تھے، پھر اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیثِ مبارکہ میں اس سے متعلق کوئی تفصیل بیان نہیں فرمائی۔ آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ نے بھی اللہ کے احکامات اور سُنّتِ نبویؐ کی پیروی کرتے ہوئے جو ضابطہ کار اپنایا اسے علّامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی مشہور تصنیف ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں بیان فرمایا۔ ترجمہ:’’جس غیرضروری چیز کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا، تم بھی اسے مبہم رہنے دو، اس لیے کہ اس میں بحث و تحقیق کچھ مفید نہیں۔‘‘

علّامہ عمادالدین ابنِ کثیرؒ اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اصحابِ کہف کے حالات کے بارے میں اتنی خبر دی ہے، جسے ہم سمجھیں اور تدبّر کریں۔ اس کی خبر نہیں دی کہ کہف کس زمین اور کس شہر میں ہے، کیوں کہ اس میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں اور نہ کوئی شرعی مقصد اس سے متعلق ہے۔ (ابنِ کثیر، 75/3)۔ (تمام شد)