• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز 14460 ارب روپے کا بجٹ 6924 ارب روپے خسارے کے ساتھ پیش کیا جس میں 7303ارب روپے صرف قرضوں اور سود کی مد میں ادا کئے جائیں گے جبکہ دفاع کیلئے 1804ارب روپے اور PSDP کیلئے 950ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مالی گنجائش نہ ہونے کے باوجود انتخابات کے مدنظر وزیر خزانہ نے اتحادی حکومت کی جانب سے ایک انتخابی بجٹ پیش کیا ہے جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ریکارڈ 30سے 35فیصد، پنشن میں 17.5فیصد اور دیگر الائونسز میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ نجی شعبے کے ملازمین کی کم از کم اجرت 32000 روپے کردی گئی ہے۔ بجٹ میں آئی ٹی سیکٹر، نوجوانوں اور اوورسیز پاکستانیوں کو مراعات دی گئی ہیں اور آئی ٹی ایکسپورٹ کا ہدف 2.5 ارب ڈالر سے بڑھاکر 4.5رب ڈالر رکھا گیا ہے۔ سولر پینل پر ڈیوٹی میں کمی شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے میں مدد دیگی۔ حکومت کو زراعت، صنعت اور تعمیراتی شعبوں کی اہمیت کا احساس ہوا ہے اور بجٹ میں ان شعبوں کے فروغ کیلئے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں جو خوش آئند ہے۔ بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دینے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر تجارت نوید قمر، سیکریٹری تجارت صالح فاروقی، طارق باجوہ، طارق پاشا، ایف بی آر کے چیئرمین عاصم احمد اور ان کی ٹیم نے صنعت و تجارت کے چیمبرز، ایسوسی ایشنز، آباد کے نمائندوں اور میری جو ملاقاتیں ہوئیں، ان کی زیادہ تر تجاویز بجٹ میں شامل کی گئی ہیں جس پر بزنس کمیونٹی کا مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ کراچی کے K-4منصوبے کیلئے 17.5ارب روپے مختص کرنے کو سراہا گیا ہے لیکن ایکسپورٹرز کے ڈیوٹی ڈرا بیک (DLTL) اور سیلز ٹیکس ریفنڈ کی عدم ادائیگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ بجٹ سے ایک دن پہلے اکنامک سروے رپورٹ جاری کی گئی جس میں حکومت اہم معاشی اہداف پورا کرنے میں ناکام رہی۔ بجٹ کے حجم میں 34ارب ڈالر کی کمی رہی جو گزشتہ سال کے 371ارب ڈالر سے کم ہوکر 341ارب ڈالر رہ گیا۔ سود کی ادائیگیوں کا دبائو بڑھ کر GDP کے 67فیصد تک پہنچ گیا ہے اور وفاق کو صوبوں کو فنڈز کی ادائیگی کے بعد سود کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینا پڑیں گے۔ اس سال GDP گروتھ گزشتہ سال کے 6.1فیصد سے کم ہوکر صرف 0.29 فیصد رہ گئی ہے۔ معیشت کے تینوں شعبوں زراعت، صنعت اور سروس سیکٹر کی کارکردگی گزشتہ سال کے مقابلے میں مایوس کن رہی اور کوئی شعبہ اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکا۔ فی کس آمدنی میں بھی 11فیصد کمی ہوئی جو 1765ڈالر سے کم ہو کر 1568 ڈالر رہ گئی ہے۔ افراط زر یعنی مہنگائی بڑھ کر ریکارڈ 29.2 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جو گزشتہ سال 11.3فیصد تھی۔ امپورٹس کم ہوکر 51.2ارب ڈالر ہوگئی ہیں جو گزشتہ سال 72.3ارب ڈالر تھیں جبکہ ایکسپورٹس 12فیصدگرکر 25ارب ڈالرہوگئی ہیں۔ ترسیلات زر بھی گزشتہ سال کے 31ارب ڈالر سے گر کر 20.5ارب ڈالر پر آگئی ہیں جس کی وجہ ڈالر کا اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ایکسچینج ریٹ میں بڑا فرق ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی 23فیصد کمی ہوئی ہے جو گزشتہ سال کے 2.6ارب ڈالر سے کم ہوکر 1.86ارب ڈالر پر آگئی ہیں۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہوکر 3.4ارب ڈالر رہ گیا ہے جو GDP کا 4.6 فیصد بنتا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ 13.7 ارب ڈالر تھا۔ نجی شعبے کے قرضوں (ورکنگ کیپٹل)میں کمی آئی ہے جو جولائی سے اپریل کے دوران 576 ارب روپے سے کم ہوکر صرف 158 ارب روپے رہ گئے ہیں۔ ملکی GDP میں ٹیکس کی شرح گزشتہ سال کے 9.8فیصد سے کم ہوکر 9.2 فیصد رہ گئی ہے حالانکہ اس سال FBR نے 7لاکھ ہدف کے مقابلے میں 9 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان رجسٹرڈ کئے ہیں اور امپورٹ پابندیوں کے باوجود ریونیو وصولی میں 16.1فیصد گروتھ حاصل کی جبکہ آئندہ مالی سال ریونیو کا ہدف 9200ارب روپے رکھا گیا ہے۔ IMF نے بجٹ کے اہداف پر گہری نگاہ رکھی ہوئی ہے اور IMF کا انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ایکسچینج ریٹ میں فرق کو کم کرنے کا دبائو ہے۔IMF کےمطالبے پر حکومت نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی، سیلز ٹیکس اور دیگر اضافی ٹیکسز کی مد میں 170ارب روپے کا جو منی بجٹ پیش کیا تھا، IMF اِسے قومی بجٹ میں ضم کرکے فنانس بل کی شکل میں پارلیمنٹ سے منظور کروانا چاہتی ہے تاکہ یہ ٹیکسز مستقل بنیاد پر لگے رہیں۔ ہمیں اپنے ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات لانا ہونگی۔ دنیا میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز غیر مقبول ہونے کی وجہ سے ختم کئے جارہے ہیں جبکہ ڈائریکٹ ٹیکسز کو فروغ دیا جارہا ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ٹیکسوں کی وصولی میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز 60فیصد (5441 ارب روپے) اور ڈائریکٹ ٹیکسز 40فیصد (3759ارب روپے) ہیں۔ کئی دہائیوں سے خسارے میں چلنے والے ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں جن میں عوام کے 500ارب روپے سالانہ جھونکے جارہے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں خسارے میں چلنے والے ان اداروں کی نجکاری یا تنظیم نو کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ملک میں معاشی تنزلی کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ حال ہی میں FPCCI نے لاہور میں سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے مابین طویل المیعاد ’’میثاق معیشت‘‘ کی ضرورت پر سیمینار کیا جس کی سابق صدر آصف زرداری نے بھرپور حمایت کی۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ پالیسیوں کے تسلسل اور بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ایک طویل المیعاد ’’چارٹر آف اکانومی‘‘ پر متفق ہوں۔

تازہ ترین