انصار عباسی
اسلام آباد :…باخبر ذرائع نے اس نمائندے کو بتایا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قومی معاملات پر مذاکرات کی آمادگی کے اشاروں کے بعد حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کو واضح طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ کسی بھی طرح کے مذاکرات میں 8؍ فروری 2024ء کے عام انتخابات پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ ذرائع کے مطابق، حکومت نے دوٹوک موقف اختیار کیا ہے کہ 2024ء کے انتخابات کو مسترد کرنے، گزشتہ سال کے انتخابات پر کمیشن بنانے یا مذاکرات کے ذریعے اقتدار اپوزیشن کے حوالے کرنے جیسے مطالبات پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل سے متعلق تمام اعتراضات کا ازالہ صرف اور صرف الیکشن ٹربیونلز اور عدالتوں کے ذریعے ہی ہوگا، اور انہی اداروں کے فیصلے قبول کیے جائیں گے، خواہ وہ حکمران جماعتوں کیخلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ پیغام پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کو پہنچا دیا گیا ہے اور پی ٹی آئی نے یہی موقف محمود خان اچکزئی کی قیادت میں قائم اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان تک بھی پہنچا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت نے پی ٹی آئی کو یہ بھی باور کرایا ہے کہ 2024ء کے انتخابات کا معاملہ دوبارہ کھولنے سے لازمی طور پر 2018ء کے انتخابات اور اس سے قبل ہونے والے دیگر عام انتخابات پر بھی سوالات اٹھیں گے، جسے حکومت عملی طور پر ممکن سمجھتی ہے اور ہی سیاسی طور پر قابلِ عمل۔ تاہم ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومت نے ادارہ جاتی اور آئینی اصلاحات، قومی سیاسی معاملات، پارلیمان کو مضبوط بنانے، قانون کی حکمرانی اور وسیع تر جمہوری اصلاحات پر مذاکرات کیلئے آمادگی ظاہر کی ہے۔ آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے سیاسی قیدیوں اور دیگر قومی سطح کے معاملات پر بات چیت پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ 9؍ مئی کے تشدد اور فوجی تنصیبات پر حملوں سے جڑے مقدمات کے حساس معاملات کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف حکومت کے اختیار میں نہیں۔ کسی بھی ریلیف یا حل کیلئے سویلین حکومت سے باہر کے اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت بھی ضروری ہوگی۔ ذرائع نے نشاندہی کی کہ 9؍ مئی کے حوالے سے عسکری قیادت کا موقف پہلے ہی سب کے سامنے آ چکا ہےاور اس میں کوئی نرمی نہیں ہے۔ جب پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان سے دی نیوز نے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کو پیغامات موصول ہوئے ہیں، تاہم ان کی تفصیلات پر تبصرے سے گریز کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بدھ کو ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی اور اس بات پر زور دیا کہ بات چیت صرف ’’جائز مطالبات‘‘ پر ہی ہو سکتی ہے، جبکہ انہوں نے خبردار کیا کہ ’’مذاکرات کی آڑ میں بلیک میلنگ سود مند نہیں ہوگی۔‘‘ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماؤں نے محتاط مگر مثبت ردِعمل دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ قومی معاملات اور آئینی بحالی پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں، جبکہ پی ٹی آئی نے واضح کیا کہ وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کرے گی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں فریقوں کو سیاسی کشیدگی کم کرنے میں دلچسپی ہے، تاہم 2024ء کے انتخابات اور 9؍ مئی کے واقعات پر احتساب سے متعلق بنیادی اختلافات یہ طے کریں گے کہ آیا یہ رابطے محض ابتدائی سطح سے آگے بڑھتے ہیں یا نہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی اس وقت مذاکرات کیلئے تیار نہیں، لیکن غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں، اور مذاکرات کی سب سے زیادہ اور فوری ضرورت خود پی ٹی آئی کو ہے تاکہ سیاسی معمولات کی بحالی کی راہ ہموار ہو سکے۔ اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کے مزید ارکانِ پارلیمان کو 7؍ جنوری تک اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت کی جانب سے سنگجانی جلسہ کیس میں فردِ جرم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے فیصلے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ عمران خان نے 4؍ نومبر کو محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر کو اختیار دیا تھا، تاہم اب تک مذاکرات کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ تحریک، خواہ وہ سڑکوں پر ہو یا کسی اور شکل میں، اس حوالے سے بھی صورتحال واضح نہیں۔ ایک ذریعے کے مطابق، مستقبل میں کسی بھی پیش رفت کیلئے ضروری ہوگا کہ دونوں فریق نیک نیتی کے ساتھ براہِ راست رابطہ کریں۔