• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھلا ہو احمد شاہ کا جس کا قافلہ ادب و ثقافت کی ترویج اور مکالمے کی فضا کو وسیلہ بنا کر دلوں اور ذہنوں میں ڈیرہ ڈالے شکوک و ابہام کو اظہار کا رستہ فراہم کرتا ہوا مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ مقصد نیک اور ارادہ پختہ ہے اس لئے کوئی مخالفت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ پاکستان زبان و ثقافت کے حوالے سے رنگا رنگی کا حامل ملک ہے۔ہر صوبہ بلکہ ہر بڑا شہر بہت سی جدا گانہ خوبصورتیوں کا وارث ہے۔ پی، ایل، ایف ملکی سطح پر ان سب کے رنگ اجاگر کرنے کی کاوش کا خواب ہے جس کی قسط وار تعبیر شروع ہو چکی ہے۔ آرٹس کونسل کراچی میں سینکڑوں لکھاریوں اور فنکاروں کو بلایا جاسکتا تھا ہزاروں، لاکھوں لوگوں کو نہیں۔جبکہ تفریح اور ادبی تربیت سب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی سوچ نے احمد شاہ کے دل پر دستک دی اور پھر پروگراموں کی لمبی فہرست اور شیڈول تیار ہوتا گیا۔ اس بار اس قافلے نے کشمیر کے خوبصورت شہر مظفرآباد میں پڑاؤ کیا اور ایک بار پھر دیکھنے سننے والوں کو حیران کر دیا۔ کشمیر کے پھولوں جیسے شگفتہ اور میٹھے لوگوں نے محبت کی خوشبو سے محفلوں کو مہکائے رکھا، مختلف سیشنز میں مقامی ادیبوں اور شاعروں کی شرکت کے علاؤہ ادب و ثقافت سے رغبت رکھنے والی نوجوان نسل کی بھرپور نمائندگی اس بات کی شاہد بنی کہ نوجوان ادب، تاریخ اور سیاست کے سنجیدہ موضوعات پر بات چیت سننے کے مشتاق ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس دو روزہ میلے کا حاصل حامد میر کا استقبالیہ خطبہ تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ یوں تو کئی سیشنز میں کشمیر کے مسئلے پر بات ہوئی مگر کشمیر اور پاکستان کے درمیان محبت کی جو داستان حامد میر نے سنائی اس سے کوئی بھی واقف نہیں تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب حامد میر کی تحریر کا ہر جملہ نگینے کی طرح جڑا ہوا محسوس ہوا ،ورنہ اکثر اس کی گفتگو کے ایک دو جملے حدود کراس کر جاتے ہیں جن کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑتا ہے لیکن اس خطبے کے دوران ہال میں نہ کسی نے سرگوشی کی نہ توجہ نے آنکھ جھپکی، مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، ضروری ہے کہ ایسے مضمون نصاب میں شامل کئے جائیں۔

سلیم صافی کی کتاب’’اور تبدیلی گلے پڑ گئی‘‘ پر بھرپور سیشن دراصل ملکی سیاست اور حالات وواقعات کا آئینہ تھا۔ کشمیر میں بولی جانے والی زبانوں اور اردو میں چھپنے والی شاعری، تحقیق، افسانے اور تنقید کی کتابوں کی رونمائی میں پہاڑی زبان کی شاعری نے دل موہ لیا۔ پاکستان میں کلچر کے امام کامران لاشاری کی گفتگو بہت خوبصورت اور امید افزا تھی۔ ناصرہ جاوید، فواد حسن فواد ،نور الھدیٰ شاہ اور منور سعید کے سیشنز میں لوگوں کی آنکھوں میں کمال محبت و عقیدت دیکھی۔رحمنٰ فارس اور عمیر نجمی کی شاعری کے سیشنز میں ہال شائقین کی داد سے گونجتا رہا۔عنبرین حسیب عنبر اور یاسر حسین نے عمدہ کمپیئرنگ کی۔ ہر فرد اور ہر سیشن اہم تھا۔یقیناً کچھ گوشے رہ گئے ہوں گے وہ اگلی بار سرفہرست ہوں گے کہ آئندہ یہ میلہ مزید نکھرے اور پھیلے گا۔کئی لوگوں نے گلہ کیا کہ پچھتر سال بعد یہ خیال آیا ،پہلے کیوں نہیں آیا تو اچھے کام کو کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں سے شروع ہونا ہوتا ہے۔شاید ہم وہ قوم ہیں جنہیں اپنے مقاصد سمجھنے اور لائحہ عمل مرتب کرنے میں پون صدی درکار تھی۔ صد شکر کہ سفر آغاز ہو گیا۔ وہ قومی ہم آہنگی جو صرف ترانوں کی حد تک قائم تھی کو اصلی معنوں میں سمجھ لیا گیا ہے۔ ایک کام جو بہت ضروری تھا وہ لوگوں کا آپس میں رابطہ اور مکالمہ تھا جس کی عدم موجودگی نے دوری، تقسیم اور نفرت کو پروان چڑھایا۔مل بیٹھنے سے حوصلے توانا ہوتے ہیں اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے۔ یوں تو وہاں موجود مظفر آباد کا ہر فرد میزبان کی طرح تھا مگر سکریٹری ٹورازم مدحت شہزاد اور شاعرِ محبت،احمد عطا اللہ کی عمدہ کاوش ہرطرف جگمگا رہی تھی۔

پریس کلب کی شاندار عمارت دیکھ کر کشمیر میں صحافت کا مسقبل بہت روشن دکھائی دیا۔ گورنر سندھ نے خصوصی شرکت کی اور لکھی تحریر پڑھنے کی بجائے فی البدیہہ گفتگو چھیڑی جسے سمیٹنے میں کافی وقت لگا۔گورنر صاحب کو ادبی پروگراموں میں لکھی تقریریں پڑھنی چاہئیں۔راجہ فاروق حیدر کی منطقی اور نپی تلی گفتگو ہمیشہ بھلی لگتی ہے، نور الھدیٰ شاہ،مظہر عباس، وسعت اللہ خان، حمیدہ شاہین، ڈاکٹر ضیاالحسن، عاصمہ شیرازی، ابصا کومل،حامد میر،فواد حسن فواد اور سیلم صافی سے ملکی معاملات پر جادوئی گفتگوہوتی رہی، خدا کرے میرا ملک جادو کے مکروہ اثرات سے جلد نجات حاصل کر کے اعتماد کی سڑک پر روانہ ہوجائے۔

مظفر آباد میرے لئے مقدس ہے کہ اس کی گود میں میرے چچا راجہ عنایت جو 47میں شہید ہو گئے تھے ابدی نیند سو رہے ہیں، میں صوفیا کی اس دھرتی کی زیارت کرنے جلد آوں گی، احمد شاہ کی پوری ٹیم کو اس کامیاب ترین میلے کی دلی مبارکباد۔

تازہ ترین