• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ہر بیٹی ہی کے لیے اُس کا باپ شفقت و محبت کا استعارہ، کسی گھنیرے سائے دار درخت کی مانند ہوتا ہے، تو میرے والد، احمد یار سیال بھی میرے لیے ایسی ہی ایک سکھ چھائوں ہیں۔ جنھوں نے میری بہترین تعلیم و تربیت پرہمیشہ بھرپور توجّہ مرکوز رکھی۔ میرے والد نے پنجاب کے ایک خوب صورت گائوں کے متوسّط زمین دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اگرچہ اب اپنی بیماری اور عمررسیدگی کے باعث اتنے فعال نہیں رہے، لیکن اپنی جوانی اور ادھیڑ عمری میں بھرپور زندگی گزاری۔ 

تین بہنوں کے اکلوتے بھائی ہونے کے ناتے ان کی پرورش انتہائی لاڈ پیار سے ہوئی۔ وہ بے حد خوش شکل، خوش لباس،نرم دل اور امن پسند شخصیت کے مالک ہیں۔ مختلف امور و معاملات پر خاندان کے سب افراد اُن سے مشاورت کرتے ہیں اور وہ سب کو صائب مشورے دیتے ہیں۔ عموماً دلیل سے بات کرکے دوسرے کو قائل کرلیتے ہیں۔ ہمیشہ سامنے والے شخصیت سے اس کے مقام و مرتبے کے مطابق بات کرتے ہیں۔ کسی کو کوئی دُکھ، پریشانی ہو، اُسے دُور کرنے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں اور سب سے محبت و شفقت کا برتائو کرتے ہیں۔

مجھے یاد نہیں کہ زندگی میں انہوں نے ہم بہن، بھائیوں کو کبھی ڈانٹا ڈپٹا ہو۔ ہمیشہ نرمی سے سمجھایا اور کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ وہ اگرچہ بہت زیادہ پڑھے لکھے نہیں، تاہم ہم سب بھائی، بہنوں کی تعلیم کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ہماری تعلیم کے لیے دن رات ایک کردیا، خصوصاً لڑکیوں کے تعلیم کے تو وہ بہت بڑے حامی ہیں۔ ہم چاروں بہنوں کو اُس دَور میں اسکول میں داخل کروایا، جب لڑکیوں کا اسکول جانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ 

بڑی بیٹی ہونے کے ناتے مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اُن کی دکان کے قریب ہی میرا ٹیوشن سینٹر تھا، تو ہرروز مجھے اپنی سائیکل پر بٹھاکر گائوں سے دُور ٹیوشن کے لیے لے جاتے اور واپس گھر لاتے۔ مَیں بھی خود کو اُن کی فرماں بردار بیٹی ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہوں۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ ایک رجسٹر رکھتے ہیں، جس پر دکان کا حساب کتاب اور ادھارلین دین کا اندراج ہوتا ہے۔ مجھے یا دہے، ایک روز دکان کے آس پاس کے تمام علاقوں کی بجلی صبح ہی سے منقطع تھی۔ شام، رات کی تاریکی میں ڈھل گئی مگر بجلی نہیں آئی، تو والد صاحب نے دکان بند کردی اور ہم دونوں گھر کی جانب چل پڑے۔

اندھیری شاہ راہ پر چلتے ہوئے سڑک کے کنارے آگ کا الائو نظر آیا، تو اچانک سائیکل روک لی اور کہا، ’’بیٹا! دن کے وقت فلاں فلاں سے لیے ہوئے ادھار کا اندراج رجسٹر پر کردو، کہیں بھول نہ جائوں۔‘‘ اور مَیں نے اُسی وقت آگ اور دھوئیں کے اُس ڈھیر کے قریب بیٹھ کر فوراً سارا حساب کتاب لکھ کر دے دیا اور وہ اس بات کو کبھی نہیں بُھولے، ہمیشہ کہتے کہ ’’مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے، یہ پڑھنے لکھنے میں میری مدد کرتی ہے۔‘‘

صد شُکر کہ میرے ابّو نے دن رات کی محنّت مشقّت سے اپنا گھر تعمیر کروایا، پھراللہ تعالیٰ نے اُنھیں عمرے کی سعادت بھی نصیب فرمائی۔ اب میرے ابّو پیرانہ سالی کے باعث بہت ضعیف ہوچکے ہیں، پے درپے صدمات نے انہیں کم زور اور بیمارکردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ انہیں صحت اور تن درستی عطا فرمائے اور ہمیں اُن کی خدمت کے قابل کرے۔ (آمین) (فوزیہ ناہید سیال، لاہور)