• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بھائی، بھائی…آپ کہاں غائب ہیں، جب سے گئے ہیں، نہ کوئی کال کی، نہ خط لکھا۔ ہم سب کتنے پریشان ہیں۔ بہت ہوگئی محنت، بہت دن گھر سے دُور رہ لیے، اب آپ واپس آجائیں، بھابھی، بچّوں کو آپ کی ضرورت ہے۔ وہ ابھی چھوٹے ہیں، ان کے سر پر باپ کا ہونا ضروری ہے۔‘‘وہ ریسیور پکڑے مسلسل روئے جا رہی تھی، باتیں سُن کر یہ تو اندازہ ہوگیا تھا کہ فون کی دوسری طرف اُس کا بھائی ہے، جس نے پردیس جانے کے بعد پہلی مرتبہ کال کی تھی۔ بات سُن کربھائی نے کیا جواب دیا، کیا کہا، یہ تو معلوم نہیں، لیکن بہرحال بھائی نے پردیس ہی میں رہ کر اپنے بیوی بچّوں اور گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کو ترجیح دی اور اب تو اس بات کو پورے تیس برس گزر چُکے ہیں کہ بعدازاں، بھائی نے بیرونِ مُلک قدم جما کر سال، دو سال میں ایک ایک، دودو چکّر لگانے شروع کر دیئے۔ 

وہ جب جب آتے، سب کے لیے کچھ نہ کچھ تحائف لاتے، جب کہ بیوی بچّوں کی توموج ہی ہوجاتی۔ قدم زمین ہی پر نہ ٹکتے کہ منہگے منہگے کھلونے، تحفے تحائف جو آتے۔ وقت یوں ہی گزرتا گیا اور بچّوں کی فرمائشوں میں کھلونوں کی جگہ لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، موبائل فونز، برانڈڈ پرفیومز، کپڑوں، جوتوں وغیرہ نے لے لی۔ باپ بھی ایسا شفیق کہ اِدھراولاد کے منہ سے کوئی بات نکلی، اُدھر پوری کردی۔ خود ساری زندگی شیئرنگ رُوم میں رہنے کے باوجود اولاد کی ہر فرمائش، خواہش، مانگ پوری کرتا رہا۔ شاید ایسا کرکے وہ اپنے بچّوں کو وقت نہ دینے کا ملال، فادرزگِلٹ دُور کررہا تھا۔ جب تک وہ مُلک سے باہر رہا، اولاد خُوب لہک لہک کر، انتہائی فخر سے سب کو بتاتی کہ ’’ہمارے بابا برطانیہ میں ہیں، ہم تو لوکل پراڈکٹس استعمال ہی نہیں کرتے۔ 

وہ کبھی چاکلیٹس کوریئر کرتے ہیں، تو کبھی جوسز، شیمپو، کنڈیشنر، لوشن تک وہیں سے بھجواتے ہیں۔ ہماری کوئی فرمائش ایسی نہیں، جسےپوری نہ کرتے ہوں۔‘‘ نیز، باپ کے چُھٹیوں پرگھر آنے سے قبل ہی ہر دن کا شیڈول بنا لیا جاتا کہ کس ریسٹورنٹ جانا ہے، کہاں سے شاپنگ کرنی ہےوغیرہ۔ پھر وہ اکثر باپ سےشکوہ بھی کرتے کہ ’’آپ نے ہمارا بچپن انجوائے نہیں کیا، جب ہمیں آپ کی ضرورت تھی، تب یہاں ہمارے پاس نہیں تھے، ہمیں تو صحیح معنوں میں آپ کا پیار ملا ہی نہیں، اسی لیے جب آپ آتےہیں، تو ہمیں آپ کا کسی اور سے ملنا، کسی اورکو وقت دینا اچھا نہیں لگتا۔ ‘‘ اور باپ بے چارہ اولاد کی باتیں سُن کر شرمندہ ہوتا رہتا۔یوں ہی وقت کا پہیّہ گھومتا رہا، بچّے فارغ التّحصیل ہوگئےاور پھر…پوری جوانی سخت محنت و مشقّت کرنے والا باپ ریٹائر ہو کےاپنے وطن لوٹ آیا۔ 

اصولاً تو باپ کے لوٹنے پر اولاد کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہنا چاہیے تھاکہ اب ان سے ملاقات کے لیے سال بَھر انتظار نہیں کرنا پڑے گا،وہ ہر وقت ان کے ساتھ رہیں گے، لیکن ہوا اس کے بالکل بر عکس ۔باپ کی واپسی سے اولاد کو ڈیپریشن ہوگیا، ’’آپ نے ہمارا بچپن نہیں دیکھا، ہمارے ساتھ وقت نہیں گزارا‘‘ کہنے والوں کو باپ کی گھر میں ہر پل موجودگی کھٹکنےلگی ۔وہ باپ ، جس نے اپنی جوانی، چین سکون، آرام، راحت، خوشیاں سب کچھ ہنستے ہنستے اپنی اولاد کے بہتر مستقبل پر قربان کردیئے، اُسی کی مستقل واپسی اولاد کے لیے صدمہ بن گئی۔ اُنہیں یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ اب ہم ’’غریب‘‘ ہوجائیں گے، ہر مہینے پاؤنڈز میں پیسےآنا بند ہوجائیں گے، بینک بیلنس کم ہوجائے گا، باپ سارا دن گھر میں رہے گا، تو آنے جانے، سونے جاگنے کے اوقات پر سوال کرے گا۔ گویا ، باپ نہ ہوا، اے ٹی ایم ہوگیا کہ جب تک فرمائشیں پوری کرتا ، پاؤنڈز اسٹرلنگ بھیجتا رہا، تو قدرتھی، جیسے ہی ’’مشین‘‘ میں پیسے ختم ہوئے، وہ بےکار ہوگئی۔

متذکرہ بالا قصّہ،کسی ایک گھرانے کا نہیں، یہ ہر اُس تیسرے، چوتھے، پانچویں گھر کی کہانی ہے، جس کا کوئی نہ کوئی فرد اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی بچّوں سے میلوں دُور دیارِ غیر میں محنت مشقّت کر رہا ہے تاکہ یہاں اہلِ خانہ ایک پُرسکون، پُرتعیّش زندگی گزار سکیں۔ دیارِ غیر میں بستے ان مَردوں کے مسائل، محنتیں، مشقّتیں، پریشانیاں، دُکھ درد، تنہائیاں حقیقتاً کم ہی لوگوں کو نظر آتی ہیں۔ بیوی سمجھتی ہے کہ شوہر گوری میم کے ساتھ کام کر رہا ہے، تو مجھے بھول گیا۔ والدین کو لگتا ہے کہ پردیس کی چکا چوند نے بیٹے کا خون سفید کردیاہے، تو رشتے داروں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ تو بس محنت کیے ڈالرز، پاؤنڈز، ریال یا درہم وغیرہ چھاپ رہاہے۔ حالاں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ پردیس جاناتو شاید آسان ہو سکتا ہے، مگر وہاں رہنا، کمانا نہیں۔ 

وہ ہے ناں ’’دُور کے ڈھول سُہانے‘‘ تو یہ محاورہ ان پردیسیوں ہی پر سو فی صد صادق آتا ہےکہ جب تک اپنے مُلک میں ہوتے ہیں، پردیس کی اچھائیاں ہی اچھائیاں نظر آرہی ہوتی ہیں، لیکن دیارِغیر میں پہلا قدم رکھتے ہی جس اجنبیت، بے گانگی، بے مروتی اور اکیلے پَن کا احساس ہوتا ہے ، وہ صرف وہی جانتے ہیں، جو سات سمندر پار جا بستے ہیں۔ جنہیں باپ کی میّت کو کاندھا دینانصیب ہوتا ہے،نہ اولاد کی پیدائش پر اُسے گود لینا،بہن کی رخصتی پر سرپر ہاتھ رکھ پاتے ہیں، نہ ماں کے دوا دارو، علاج معالجے کی توفیق ملتی ہے۔

ہمارے یہاں جن پردیسی باپوں کو سونے کا انڈا دینے والی مُرغی سمجھاجاتا ہے،ذراکوئی ان کا ’’شاہانہ طرزِ زندگی‘‘ تو دیکھے کہ ایک ہی کمرے میں مختلف قومیتوں، مذاہب، مزاجوں کے چار چار لوگوں کے ساتھ رہنا کس قدر جان جوکھم کا کام ہے۔ ملازمت سے واپسی پر جب کوئی کھانا دینے والا، دُکھ، تکلیف ،بیماری میں تسلّی کے دو بول بولنے والا نہ ہو، تو کیا احساسات ہوتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ ان پردیسیوں کی بھی بھلاکیا زندگی ہوتی ہےکہ پردیس میں ہوں، تو دوسرے درجے کے شہری کہلاتےہیں اور اپنے مُلک میں بھی بس اُسی وقت تک قدر ہوتی ہے، جب تک ’’پردیس‘‘ میں ہوں۔ یعنی چُھٹی پر آئیں، تو سو بسم اللہ، مستقل طورپر واپس آجائیں تو اُٹھتےبیٹھتے، سوتےجاگتے،گھر کے مسائل کی لمبی فہرست ہی گنوائی جاتی رہتی ہے۔

پاکستان کی وزارت برائے سمندر پار پاکستانیوں کے مطابق اس وقت قریباً80 لاکھ پاکستانی بیرونِ مُلک مقیم ہیں، جن کی اکثریت ( 40 لاکھ سے زائد) خلیجی ممالک میں آباد ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2021ء میں قریباً دولاکھ پچیس ہزار پاکستانیوں نے اپنا مُلک چھوڑا اورگزشتہ سال یہ تعداد قریباً تین گُنا ہو کر سات لاکھ سے زائد ہوگئی، جن میں92 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ورافراد جیسے ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی ماہرین اور اکاؤنٹنٹس وغیرہ شامل ہیں۔جب کہ یہ رجحان 2023 ء میں بھی تیزی سے جاری ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس سال کی پہلی سہ ماہی میں قریباً دو لاکھ پاکستانی مُلک چھوڑکرجاچُکے ہیں۔ 

جب کہ روزنامہ جنگ میں شایع ہونے والی ایک حالیہ خبر کے مطابق اِمسال جاپان جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے جاپان کے امیگریشن ذرایع نےانکشاف کیاہےکہ گزشتہ دس ماہ میں پانچ ہزار سے زائد پاکستانیوں نےملازمت، تربیت اور کاروبار کے حوالے سےجاپان میں رجسٹریشن کروائی ہے۔ یہاں یہ اعداد و شمار بتانے کا مقصد اس امرکی طرف توجّہ دلانا ہے کہ بیرونِ مُلک جا بسنے والے افراد کی اکثریت اُن مَردوں (باپوں) پر مشتمل ہے، جو اپنے خاندان کا پیٹ پالنے، بچّوں کی معیاری تعلیم، بہتر زندگی کی خاطر اپنا سُکھ چین قربان کرکے بخوشی دیارِغیرکی مشقّتیں برداشت کر رہے ہیں، جو شاید عید، بقرعید پر بھی صرف اس لیے نہیں آتے، اپنوں سے دُور رہتےہیں کہ سفری اخراجات بچائے جاسکیں۔ لیکن ان کے بچائے گئے پیسے، خون پسینے کی کمائی کو گھروالےجس بے دردی سے خرچ کرتے بلکہ لٹاتےہیں، اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی۔ جب کہ بلاشبہ اگر اپنےمُلک میں روزگار کے بہتر مواقع، تعلیم و صحت کا سستا اورمعیاری نظام موجود ہو، تو شاید کوئی باپ اپنے بچّوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں دیکھنے سے محروم رہے، نہ کسی کی جوانی دیارِ غیر میں اپنے بیوی بچّوں کے بغیر کٹے۔

اس سال ’’عالمی یومِ والد‘‘ کے موقعے پر ہم نے اِن ہی پردیسی باپوں کے دُکھ، مسائل، پریشانیاں، مشکلات جاننے کے لیے کچھ پر دیسی باپوں سے بات چیت کی ہے، جس کی تفصیل پیشِ خدمت ہے۔ تین بچّوں(دو بیٹوں، ایک بیٹی)کے والد عصمت خان گزشتہ بارہ برس سے متحدہ عرب امارات کی ریاست، ابوظبی میں مقیم ہیں اورایک کنسٹرکشن کمپنی میں بطور ڈاکومینٹ کنٹرولرکام کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں تو باپ کا دوسرا نام ’’قربانی‘‘ ہے۔ وہ اپنے بچّوں کے بہتر مستقبل، انہیں ہرآسائش، سہولت مہیّا کرنے کے لیے بخوشی ہرتکلیف برداشت کرتا، ہر دُکھ اُٹھاتاہے۔ ہمارے یہاں ایک عام خیال ہے کہ’’بیرونِ مُلک ہے،توخُوب مزے کررہا ہوگا‘‘ پر، یقین کریں کہ دیارِغیر میں رہنے والے اپنا دل، جان مار کر جیتے ہیں۔ 

ہاں، روزی تو مِن جانب اللہ ہےاور اللہ پاک اس میں خُوب خیر و برکت بھی عطا فرماتا ہے، لیکن گھروالوں، خاص طور پر بچّوں سے دُوررہنے کا کرب بہت شدید ہوتا ہے۔ جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو مَیں ان کے پاس نہیں تھا، پھرجب اللہ پاک نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا، میری بیٹی پیدا ہوئی تب بھی پاکستان میں نہیں تھا، بیٹے کا اسکول کا پہلا دن بھی بذریعہ ویڈیو کال دیکھا، تو ہم گھر والوں کی خوشیوں، سُکھوں، انہیں بہتر طرزِ زندگی فراہم کرنے کی خاطر اتنا دُور چلے جاتے ہیں کہ پھر نہ اُن کی خوشیوں میں شامل ہوپاتے ہیں، نہ غموں میں۔ اب تو پھر ویڈیو کال کی سہولت موجود ہے، وگرنہ پہلے تو ایک ایک دن کاٹنا عذاب ہوجاتا تھا۔ اس کے باوجود جب میری بیٹی، زیبان فاطمہ نےاپنی پہلی سال گرہ کےموقعے پر ویڈیو کال پہ مجھے دیکھ کر’’بابا، بابا‘‘ کہا، تو شدتِ جذبات سے مَیں رو پڑاتھا۔ ویسے بھی جب بھی پاکستان جاتا ہوں، تو ہربارواپسی پر آنکھیں نم ہو تی ہیں۔ بچّوں کو تو ہم ایئر پورٹ جانے سے قبل ہی سُلا دیتے ہیں تاکہ نہ وہ مجھے جاتے ہوئے دیکھیں اور نہ مجھے انہیں روتا بلکتا چھوڑ کر آنا پڑے۔‘‘

بزنس مین ،ملک اویس تین بچّوں(دو بیٹوں، ایک بیٹی) کے بابا ہیںاور قریباً گیارہ برس سے(سات سال یو اے ای اورچار سال قطر میں ہیں)دیارِ غیر میں ہیں۔ پردیسی زندگی اور بچّوں سے دُوری کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے پلتا، بڑا ہوتا دیکھے۔ اس کی خوشیاں، کام یابیاں،شرارتیں انجوائے کرے، لیکن پردیس میں رہنے والے باپوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم میں سے زیادہ تر افراد تو بچّوں کی پیدائش کے وقت بھی پاکستان میں نہیں ہوتے۔ 

جب میری بیٹی عبیر فاطمہ پیدا ہوئی، تو مَیں پاکستان میں نہیں تھا، تو جب مجھے اس کی پیدائش کی خبر ملی، پہلی مرتبہ اُسے دیکھا، تو بےحدخوشی اور بہت بےبسی سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ خوشی اس بات کی کہ اللہ نے دو بیٹوں کے بعد اپنی رحمت سے نوازا اور بے بسی یہ کہ مَیں اُس رحمت کوگود میں بھی نہیں لے سکتاتھا۔ وہ تو شُکر ہے کہ آج کل ویڈیو کالنگ کا آپشن ہے، ورنہ جانے ہم باپوں کا کیا ہوتا۔ یہاں مَیں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ میری سب سے بڑی سپورٹ، میری بیوی ہے، اس کی ہمّت، ساتھ اور بھروسا ہی میری سب سے بڑی طاقت ہے۔ ‘‘

محمّد اعظم خان گزشتہ دس برس سے سعودی عرب میں مقیم اور سعودی الیکٹرک سے وابستہ ہیں۔ دیارِ غیر کی زندگی کے سوال پر ایک لمبی آہ بَھرتے ہوئے بولے ’’کوئی باپ یا بیٹا نہیں چاہتا کہ گھر والوں سے دُور رہے۔ پردیس کاٹنا درحقیقت، لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے اور ہر آدمی یہ نہیں چبا سکتا۔ ہمیں دیارِ غیر میں جتنی اجرت ملتی ہے، اگر اس کا آدھا پیکیج بھی پاکستان میں مل جائے، تو یقین کریں، کوئی اپناوطن چھوڑکرنہ جائے،لیکن ہمارے مُلک کے حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ بچّوں کی تعلیم، بہتر مستقبل کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں مَیں ایک بات ضرورکہنا چاہوں گا کہ پردیس میں رہنے والے باپوں کے ساتھ ان کے بیوی ، بچّے بھی قابلِ تحسین ہیں کہ وہ بھی ہماری ہی طرح کئی قربانیاں دیتے ہیں۔ اورمیرے بچّے تواتنے سمجھ دار ہیں کہ وہ کبھی کوئی شکوہ شکایت نہیں کرتے۔ ‘‘

81ء میں سعودی عرب جانے والے سیّد آصف حُسین آج کل ریٹائر ڈزندگی گزار رہے ہیں۔وہ پردیسی باپوں کی قربانیوں کے حوالے سے کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’سعودی عرب جانے سےقبل مَیں اسٹیل مِلز میں ملازم تھا، یعنی سرکاری ملازمت تھی، لیکن صرف اس لیے بیرونِ مُلک گیا تاکہ اپنا گھربنا سکوں اور بچّوں کو معیاری تعلیم دلوا سکوں، جب دونوں کام ہوگئے، یعنی ذاتی گھر بن گیااورتمام بچّے فارغ التحصیل ہوگئے، تو مَیں اپنے وطن لوٹ آیا۔ یہاں ایک بات کا ذکر ضرورکروں گا کہ پردیس کی چکاچوند صرف ظاہری ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ 

بلا شبہ، وہاں قانون کی پاس داری، ہر سہولت، آسائش میسّر ہے، لیکن گھر والوں، خاص طور پر بچّوں سے دُور ہر آسائش بے معنی ہی لگتی ہے۔ اسی لیے مَیں سب سے کہتا ہوں کہ اگر پردیس کسی مقصد کے تحت جا رہے ہو، تو ضرور جاؤ، خُوب کماؤ، گھر بناؤ، بچّوں کو اعلیٰ تعلیم دلواؤ، لیکن جب وہ مقصد پورا ہوجائے، تو اپنے دیس لوٹ آؤ یا کوئی ایسا سیٹ اَپ کر لیا جائے کہ بیوی بچّے بھی وہیں چلے جائیں، کیوں کہ بچّوں کو باپ کے پیسے سے زیادہ اس کی نگرانی، تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر انہیں وہی نہ ملے، تو مال و دولت بھی کسی کام کی نہیں ۔ ‘‘

ایک طویل عرصہ (قریباً تیس سال) متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں زندگی گزارنے والے مظفّر حُسین چار بچّوں(تین بیٹوں، ایک بیٹی)کے پاپا ہیں۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بولے ’’مانا کہ عورت، بالخصوص ماں کی زندگی مشکلات، کٹھنائیوں سے عبارت ہے، لیکن باپ کی مشقتوں، محنتوں، قربانیوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مَیں بیس سال کی عُمرمیں دیارِغیر چلا گیا تھا، جب میرے باباجی (مرحوم) کمانے کی غرض سے مجھے سعودی عرب بھیج رہے تھے، تو امّی اُن سے سخت ناراض تھیں، رو رو کر ہلکان ہوئے جا رہی تھیں کہ ’’میرے بچّے کو اتنی سی عُمر میں اجنبی مُلک بھیج رہے ہیں۔‘‘ 

امّی کی پریشانی، بےچینی بھی بجا تھی، لیکن بابا جی نے اپنا دل مضبوط اور امّی کی ہر بات اَن سُنی کرکے مجھے بھیج دیا اور آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرے باپ نے میرے حق میں کس قدر اچھا فیصلہ کیا، جس سے نہ صرف میری بلکہ میرے بچّوں تک کی زندگی سنور گئی۔ پھر گھر کا بڑا بیٹا ہونابھی کوئی آسان نہیں کہ سر پر ڈھیروں ذمّے داریوں کا بوجھ، باپ کا سہارا بننے کی جلدی ہوتی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ الحمدُللہ مَیں نے اپنی ہر ذمّے داری بحسن وخوبی پوری کی۔ جہاں تک بات ہے گھر والوں، بیوی بچّوں سے دُور جانےکی، تو وہ تکلیف و اذیت الفاظ میں بیان ہی نہیں کی جا سکتی۔ چُھٹیوں سے واپسی پر ایسا لگتا تھا، جیسے قلب و روح پاکستان ہی میں رہ گئے ہیں۔

مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے آئے گھروالوں کے چہرے(پلّو سے امّی کا بار باراپنے آنسو پونچھنا، باباجی کا نظریں چُرانا، باجی کی بھیگی آنکھیں، مجھ پرآیت الکرسی کا دَم کرنا، چھوٹی بہنوں کے مُرجھائے چہرے، بھائیوں کا گلے ملنا اور، ناصرہ (شریکِ حیات) کامیری واپسی سے ہفتہ، دس دن پہلے ہی سےگُم صُم، روتے رہنا) کئی کئی روز تک آنکھوں کے سامنے رہتے۔ پھر جب پہلی اولاد(علی حیدر)کی پیدائش ہوئی، تو مَیں اس وقت بھی پاکستان میں نہیں تھااور وہ ویڈیو کال کا زمانہ بھی نہیں تھا کہ بچّے کا چہرہ ہی دیکھ لیتا۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا اور بچّے بھی بڑے ہو تے گئے، اُس کے بعد تو چھٹیوں سے واپس آنا مزید مشکل ہوجاتا کہ ان کے معصوم چہرے بار بار میرے قدم روکتے ۔

حالاں کہ کچھ عرصے کے لیے مَیں نے اپنی بیوی ، بچّوں کو سعودی عرب بلا لیا تھا، لیکن پھر تعلیم وغیرہ کے لیے واپس پاکستان بھیج دیا۔ جب جب چُھٹی سےواپس آتا، تو جس کمرے میں رہتا تھا، اُس کی خاموشی، تنہائی کاٹ کھانے کودَوڑتی۔ کبھی تو بچّوں سے ملنے، اُنہیں گود میں اُٹھانے کی ایسی ہڑک اُٹھتی کہ کیاکہوں، پرآج جب اپنے بچّوں کو خوش حال، کام یاب اور سب سے بڑھ کر نیک راہ پر چلتا دیکھتا ہوں ، تو دل شُکر کے جذبات سے بَھر جاتا ہے۔ یہاں ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ میری تو زندگی کا ایک طویل عرصہ بچّوں سے دُور گزرا، لیکن میری بیوی نے اُن کی تعلیم وتربیت میں کوئی کمی نہیں اُٹھا رکھی۔‘‘

چاربچّوں (دو بیٹیوں، دو بیٹوں)کے والد وسیم احمد قریباً دس سال سعودی عرب میں مقیم رہے۔ انہوں نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب چھٹیوں کے بعد واپس جاتا تھا تو ہوائی اڈّے ہی سے گھر بھاگ جانےکودل کرتاتھا۔ بچّوں کےروتے چہرے، بیوی کا مغموم لہجہ با بار یاد آتا۔ حالاں کہ سعودی عرب میں میری بہت اچھی جاب تھی، لیکن صرف اسی لیے مَیں وقت سے پہلے واپس آگیا کہ میرے بچّوں کو میری ضرورت تھی۔ 

یہی سوچا کہ پیسا کم، زیادہ ہو تو انسان مینیج کر سکتا ہے، لیکن اگر بچّوں کو باپ کی توجّہ نہ ملے، تو یہ ان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ وہاں میرے دو، تین کولیگ ایسے تھے ،جن کی ساری زندگی بیوی، بچّوں سے دُور دیارِ غیر میں گزری، وہیں رہتے ہوئے انہوں نے بچّوں کی شادیاں کیں پھرجب واپس گئے، تو بچّے ان کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہو سکے۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ جب والد پردیس میں ہو، تو بچّوں سے اس کا جذباتی رشتہ نہیں بن پاتا بلکہ صرف ایک طرح کا مادّی رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ ’’بابا چاکلیٹ بھیج دیں، گڑیا بھیج دیں…‘‘ توکیا فائدہ ایسی دولت کا، جب آپ بچّوں ہی سے قریب نہ ہوں۔‘‘

باپ کی عدم موجودگی کے بچّوں کی شخصیت ، مزاج پر اثرات…

بیرونِ مُلک مقیم باپوں کے بچّوں کی شخصیت، مزاج اور رویّوں پر بات کرتے ہوئے ڈین فیکلٹی آف سائیکائٹری، کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز،ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ ’’اولاد کے لیے ماں اور باپ دونوں کی اپنی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے، جس طرح وہ بچّے، جو باپ کے سائے سے محروم ہوجاتے ہیں،ڈیپریشن، خود اعتمادی کی کمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اسی طرح وہ بچّے، جن کے والد بیرونِ مُلک ہوتے ہیں، اُن کےمزاج،رویّےاور شخصیت پر بھی اس کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔

عام سی بات ہے کہ ماں کی فطرت میں نرمی، پیار، شفقت، ممتا کا عنصر غالب ہوتا ہے، تو وہ اولاد پر اُس طرح سے سختی، کڑی نظر نہیں رکھ پاتی، جس طرح باپ رکھتا ہے۔دوسری طرف جب بچّے اسکول جاتے ہیں اور اپنے دیگر ساتھیوں کو ان کے والد کے ساتھ دیکھتے ہیں، تو ان میں احساسِ کم تری ، عدم تحفّظ، ڈیپریشن کے جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں ۔اس طرح کے کیسز ’’Conversion Disorder‘‘ کہلاتے ہیں، یعنی باپ کی عدم موجودگی کے باعث کچھ بچّے بالکل خاموش ہوجاتےہیں، کھانا پینا، کھیلنا کُودنا، پڑھائی میں دل چسپی لینا بند کر دیتے ہیں اور غصیلے، بلا کے ضدّی، بدتمیز ہوجاتے ہیںاورایسا لڑکوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ 

یوں بھی دیکھاجائے تو باپ کی حیثیت صرف کما کر کھلانے والے ہی کی نہیں، محافظ، نگہبان، ولی کی بھی ہے۔پھر لڑکپن ،وہ دَور ہوتا ہے، جب بچّوں پرکڑی نگرانی رکھنی چاہیے، اب چوں کہ اکثر مائیں باہر کی دنیا سے واقف نہیں ہوتیں، تو بچّے ان سے بچ کرسگریٹ نوشی، منشیات وغیرہ جیسی علّتوں میں پڑ جاتے ہیں۔اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب باپ ملازمت ختم کرکےواپس آجاتا ہے، تو اولاد کو پریشانی لاحق ہوجاتی ہے، بالخصوص بیٹے یہ سوچتے ہیںکہ اب ہمیں سختیوں میں رہنا پڑے گا، روک ٹوک کا سامنا ہوگا، من مرضی نہیں کرے سکیں گے ، تو اس طرح مزید مسائل جنم لیتے ہیں ۔‘‘

باپ کی واپسی، اولاد پر بھاری …

ہمارے ایک جاننے والے قریباً پندرہ، بیس برس یو اے ای میں گزار کر جب ہمیشہ کے لیے وطن واپس لوٹ آئے، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بیوی بچّوں نے بچت کے نام پر ایک پیسا بھی نہیں جوڑ رکھاتھا۔وہ تو شُکر ہے کہ بیرونِ مُلک رہتے ہوئےگھر خرید لیا تھا، ورنہ اس عُمر میں کہاں کرائے کے گھروں میں دھکّے کھاتے پھرتے۔نیز، جوان بیٹوں نے بوڑھے باپ سے یہ تک کہنے میں عار محسوس نہیں کی کہ ’’واپس کیوں آگئے، وہیں رہ کر کماتے رہتے۔ اچھی خاصی زندگی گزر رہی تھی، اب پیسوں کی تنگی ہوجائے گی۔ ‘‘ یہ سب سُن کر پوری جوانی دیارِ غیر میں ٹیکسی چلا کر، اولاد کو بڑا کرنے والے بد نصیب باپ کے دل پر کیا گزری ہوگی ، یہ تو وہی جانتا ہے، لیکن اُس بوڑھے کی بےبسی، آنکھوں کی نمی دیکھ کر دل ضرور تڑپ کر رہ گیا۔جب کہ قرآن و سنّت میں والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کی جس شدّو مد سے تاکید کی گئی ہے، کم ہی احکامات کی ملتی ہے۔ 

ارشادِ ربّانی ہے کہ ’’اور تیرے ربّ نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ ، اگر وہ ( ماں ،باپ) تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ’’اُف ‘‘ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خُوب ادب سے با ت کر نا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جُھکے رہنا اور یوں دُعا کر تے رہنا ،اے ہمارے پروردگار! تُو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔

تمہارا رب، تمہارے دل کی بات خُوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو، تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔‘‘ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حقوق العباد میں سب سے مقدّم حقِ والدین ہےاور ماں کے قدموں تلے جنّت ضرور ہے، لیکن باپ کو راضی کیے بغیر بھی جنّت میں داخلہ ممکن نہیں۔