• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی دورہ، بھارت امریکا تعاون کی تشہیر، تضادات کی پردہ پوشی

نیویارک (تجزیہ / عظیم ایم میاں) میزبان امریکی صدر بائیڈن اور ’’اسٹیٹ وزٹ‘‘ کا پروٹوکول انجوائے کرنےوالے مہمان بھارتی وزیراعظم کی وہائٹ ہاؤس میں ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں جانب سے ہی معیشت ٹیکنالوجی، ڈیفنس پروڈکشن اور موسمیاتی تبدیلی سمیت تمام مسائل پر بھارت اور امریکا کے درمیان تعاون کی خوب تشہیر اور تعریف کی گئی لیکن اصل مسائل اور دونوں کے قومی مفادات کے تضادات کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ان کے ذکر سے گریز کیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم نے دہشت گردی اور بنیاد پرستی کیخلاف امریکا کے ساتھ ملکر کام کرنے اور پاکستان کا نام لئے بغیر خطے میں اپنے عزائم کا بالواسطہ ذکر تو کیا لیکن امریکا کے اس مطالبے کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ کیا بھارت امریکی اتحاد کا حصہ بن کر چین کیخلاف گھیراؤ اور فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر چین کے خلاف رول ادا کرنے پر رضامند ہے یا نہیں؟ اسی طرح امریکی صدر اور بھارتی وزیراعظم دونوں ہی اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی جارحانہ سلوک، جمہوریت کی تنزلی کے بارے میں صحافیوں کے سوالات کا کوئی مناسب جواب نہ دے سکے اور نہ ہی اس اہم مسئلہ کو بیک گراؤنڈ میں چھپا سکے۔ اس مشترکہ کانفرنس میں دو امریکی اور دو بھارتی صحافیوں کو کل چار سوالات کی اجازت دی گئی تو امریکی صحافیوں کی جانب سے بھارت امریکا معاشی اور دفاعی تعاون پر سوالات کی بجائے بھارت میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی پامالی کے بارے میں سوالات کئے گئے۔ صدر بائیڈن نے بھی اس سوال کا کوئی بہتر اور حقیقی جواب دینے کی بجائے گول مول جواب دیا۔ امریکی کانگریس کے اراکین کی جانب سے صدر کے نام اس موضوع پر مشترکہ خط کا بھی کوئی حوالہ دیئے بغیر آگے بڑھ گئے جبکہ بھارتی وزیراعظم نے اس سوال کے جواب میں حیرانگی کے اظہار کےساتھ اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب غلط ہے۔ دنیاجانتی ہے کہ سچ کیا ہے؟ بھارتی شہر بنگلور اور احمد آباد میں امریکی قونصلیٹ کھولنے کے اضافہ اور سیائل کی امریکی شہر میں نئے بھارتی قونصلیٹ کے اضافہ کا ذکر ضرور ہوا لیکن اصل بنیادی اور دونوں ممالک کے درمیان اختلافی مسائل پر اختلافات کا قطعاً کوئی ذکر جان بوجھ کر نہیں کیا گیا۔ امریکا بھارت سے یوکرین کی حمایت اور روس کی مذمت حاصل نہ کرسکا۔ چین کے خلاف بھارت کو عملی اور اعلانیہ طور پر امریکا کا اتحادی کہلوانے کی بجائے ابھی تک ’’پارٹنر‘‘ کے لفظ تک محدود رہا جبکہ بھارت بدلتی دنیا میں امریکا کی تمام معاشی، سیاسی اور اسٹریٹجک مجبوریوں کے باوجود پاکستان، افغانستان کے خلاف اپنے عزائم کی مکمل اور اعلانیہ حمایت حاصل نہ کرسکاالبتہ پس پردہ مذاکرات اور بھارتی وزیراعظم کے دورہ امریکا کی تیاریوں کے دوران دونوں طرف کی اعلی سطحی ملاقاتوں اور مذاکرات میں پاکستان کے حوالے سے بھی گفتگو اور حکمت عملی طے ہوچکی۔ چین کے خلاف محاذآرائی ، بحرہند میں امریکی مفادات اور چین کے گھیراؤ کے بارے میں بھی متعدد امور طے ہوچکے۔ روس کے بارے میں بھارتی مذمت نہ کرنے کے بارے میں بھارت اپنی مجبوریوں کی داستان بیان کرچکا۔ مختصر یہ کہ بائیڈن مودی ملاقات سے قبل ہی ایشیا میں چین کے خلاف محاذ آرائی کیلئے بھارت کے خاموش رول کو بھی طےکیا جاچکا اور لائن ڈرا ہوچکی۔ امریکی وزیر خارجہ بھی چین کا دورہ کرکے واپس آچکے لیکن پاکستان کے تمام سیاستدان اور عملی حکمران اس بدلتی صورتحال اور خطرات سے بے خبر اقتدار اور کنٹرول کیلئے باہم دست و گریبان میں مصروف ہیں۔
اہم خبریں سے مزید