• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کیس سننے والا بینچ پھر ٹوٹ گیا

فائل فوٹو
فائل فوٹو

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا، ان کا کہنا ہے کہ میں مزید اس بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتا۔

وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آ کر کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھایا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل منصور عثمان سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ جسٹس منصور پر اعتراض جانبداری پر اٹھا رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراؤکی بنیاد پر؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے جسٹس منصور پر مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر عدالت کو اعتماد ہے، یہ ججز پر اعتراض کرنے کے تسلسل کی ایک کڑی ہے، پہلے حکومت نے بینچ کے تناسب کا معاملہ اٹھائے رکھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا وزیرِ اعظم سے پوچھیں کہ کسی رشتے داری کی بنیاد پر اعتراض کیوں اٹھایا گیا؟جسٹس منصور علی شاہ بہت حساس ہیں، جسٹس منصور وہ انسان نہیں کہ ان کی رشتے داری فیصلے پر اثرانداز ہو، سپریم کورٹ کو داغدار نہ کریں، تضحیک مت کریں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ جس جج پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے ان کی اہلیت پر کسی کو شک نہیں، حکومت نے پہلے بھی اس قسم کے اعتراضات اٹھائے ہیں، الیکشن کیس میں 90 دنوں پر کسی نے اعتراض نہیں کیا، بس بینچ پر اعتراض کیا گیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ابتداء میں 9 رکنی بینچ تشکیل دیا، جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے بینچ پر اعتراض کے بعد 7 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جسٹس منصور کی علیحدگی کے بعد بینچ 6 ججز پر مشتمل رہ گیا ہے۔

قومی خبریں سے مزید