سپریم کورٹ آف پاکستان نے اٹارنی جنرل کو ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کی مکمل تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔
سلمان اکرم راجا نے سپریم کورٹ کا اکیسویں آئینی ترمیم کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ آرمی ایکٹ سیکشن 2 ڈی اس لیے چیلنج کیا کہ اس کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، جنید رزاق کے بیٹے ارزم رزاق کو ایک الزام لگا کر اٹھایا گیا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ سے حکم امتناع دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کو بیٹے سے ملنے کی اجازت تک نہیں، خاندان کے افراد کو زیرِ حراست سے ملنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے سلمان اکرم راجا کی فوری حکم امتناع دینے کی استدعا مسترد کر دی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کا مؤقف ہے 9 مئی کے واقعات میں ملوث کسی کو رہا نہ کیا جائے، 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کا قانون کے مطابق ٹرائل کیا جائے، میرے موکل کا نام کسی وجہ سے ٹی وی پر چلانے کی اجازت نہیں، پی ٹی آئی اور پارٹی چیئرمین نے بھی اسی کیس میں درخواستیں دائر کیں، پی ٹی آئی کا مؤقف سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے عزیربھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی مقاصد اورخواہشات ہمارے سامنے بیان نہ کریں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیربھنڈاری نے کہا کہ میں سلمان اکرم راجاکے دلائل اپناتا ہوں۔
چیف جسٹس نے عزیر بھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کا تحریری جواب پڑھ لیں گے، آپ اپنے دلائل کل مکمل کر لیجیے گا۔
سماعت کے آغاز پر چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہماری ایک درخواست پر نمبر نہیں لگا، ہم نے فوجی عدالتوں کو چیلنج کیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب، آپ کو بعد میں سنیں گے، جو صبح سیٹ بیک ہوا اس سے ری کور ہو رہے ہیں، آئینی بحث کے بجائے دیگر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ میری درخواستوں میں فوجی عدالتوں کو چیلنج کرنے کے علاوہ استدعا وہی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی درخواست میں ترمیم کر لیں۔
اس دوران درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کسی عدالت میں ٹرائل ہو، شہری کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ کی دلیل فورم سے متعلق ہے یا بنیادی حقوق کے معاملے پر؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ مفروضے کی بات کررہے ہیں، کارروائی کا آغازہی نہیں ہوا تو آپ کیوں ٹرائل میں شہری کے حقوق کی بات کر رہے ہیں، ہمارے پاس محدود وقت ہے، کل آخری ورکنگ ڈے ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سلمان اکرم راجا کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے کیس پر دلائل دیں، کسی بڑے تنازع میں نہ پڑیں، دلائل کو سادہ رکھیں تاکہ ہم کیس ختم کر سکیں، یہ بنیادی انسانی حقوق کا کیس ہے، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی سویلینز کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کر سکتا، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی آئین سے تجاوز نہیں کر سکتا۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میرے موکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پہلے دن کے سوال پر واپس جاؤں گی، آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟
جسٹس منیب نے پوچھا کہ کیا افواج کے اراکین کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟
وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ برطانیہ اور امریکا میں بھی مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے پھر سوال کیا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف ہائی کورٹ میں آئینی درخواست کیوں دائر نہیں کی جا سکتی تھی؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہائی کورٹ فوجی عدالتوں کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ بہتر نہ ہو گا کہ پہلے دیکھا جائے کہ سویلین پر آرمی ایکٹ سیکشن 2 ڈی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں، اگر آپ بات پر آمادہ ہیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلینز پر ہوتا ہے تو پھر کیس کیا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں سویلینز میں ریٹائرڈ آرمی افسران بھی آتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ آرمی ایکٹ کو چیلنج کر رہے ہیں اور سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مخالفت نہیں کر رہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کورٹ مارشل کا لفظ آرمی ایکٹ کے علاوہ کہیں استعمال ہوا؟ ملٹری کورٹس کے بارے میں بہت سے فیصلے ہیں، وہ دیکھنا چاہتے ہیں، جو کیس ملٹری افسران کے بارے میں نہیں اس میں انہیں کیوں لارہے ہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میرا فوکس صرف سویلینز پر ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 199 کا اطلاق کورٹ مارشل پر نہیں ہوتا۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 199 آرمی ایکٹ کے تحت سزاؤں پر لاگو ہوتا ہے پر کورٹ مارشل پر نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ جو افراد آرمی ایکٹ کے تحت ڈسپلن خلاف ورزی کرتے ہیں ان پر بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا؟ آپ کے دلائل کا مقصد سمجھنا چاہ رہے ہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ الزام کی بنیاد پر فوجی افسران یا سویلین پر آرمی ایکٹ 2 ڈی کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فوجی افسران کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ آپ کا کیس سویلینز کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ وکیل متبادل عدالتی نظام کی بات کرتے کورٹ مارشل کے معاملے پر کیسے جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے وکیل سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو باتیں کر رہے ہیں یہ ہارورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ بہت سی عدالتیں یا ٹریبونل ایسے ہیں جہاں ججز 175 کے تحت نہیں لگائے گئے، کیا ہم یہ کہیں کہ ملٹری کورٹس عدالت ہیں لیکن اس کیس میں عدالت نہیں کہلائیں گی؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سمجھیں کہ ڈسپلنری ٹریبول کی کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ ملٹری کورٹ ایک سیشن جج کی عدالت کے برابر ہے، پاکستان میں عدالتی ٹرائل میں کوئی سیکیورٹی تو دی ہی جاتی ہے، آپ جن عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں وہ دہشت گردوں کے ملٹری ٹرائل سے متعلق ہیں، عدالت کو یہ تو بتائیں کہ فوجی عدالتوں سے متعلق پرانے فیصلوں میں کیا نقص ہے؟
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ آرٹیکل 175 کے تحت عدالت نہیں کہ بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ فیصلے آرمی چیف یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سلمان اکرم راجا سے سوال کیا کہ ملٹری کورٹ عدالت ہے یا نہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ملٹری کورٹ عدالت ہے، جو سویلین کی زندگی اور آزادی چھیننے کا اختیار رکھتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یعنی آپ کو صرف سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل پر اعتراض ہے۔
وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ امریکا میں معمول کی عدالتیں کام جاری نہ رکھ سکیں تب فوجی عدالتیں حرکت میں آتی ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ امریکی قانون ان سویلینز کے بارے میں کیا کہتا ہے جو ریاست کے خلاف ڈٹ جائیں؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ امریکا میں سویلینز کی غیرریاستی سرگرمیوں پر بھی ٹرائل سول عدالتوں میں ہی ہوتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں پر نہیں چل سکتے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملٹری کورٹ متوازی نظام ہے جسے عدالت نہیں کہہ سکتے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے، آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ ایمرجنسی نافذ اور بنیادی حقوق معطل ہوں تو پھر سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔
دوران سماعت وکیل سلمان اکرم راجا نے مختلف عدالتی فیصلے پڑھ کر سنائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل سلمان اکرم راجا سے سوال کیا کہ مزید کتنا وقت لیں گے؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ زیادہ وقت نہیں لوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کر لیتے ہیں، وقفے کے بعد عزیر بھنڈاری کو سنیں گے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں 2:15 بجے تک وقفہ کیا۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔
درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ریٹائرڈ آرمی افسران کے علاوہ سویلینز کو بھی شامل کیا گیا ہے، سویلینز کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں شامل کیا گیا اس لیے قانون کو چیلنج کیا، عدالت پر چھوڑتا ہوں کہ سویلینز کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں ہونے کو کیسے دیکھتی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو روسٹرم پر بلایا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، ہمیں کچھ یقین دہانیاں چاہیے، ملٹری ٹرائلز کا کیا بنا؟ کیا کوئی پیشرفت ہوئی ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ابھی تحقیقات چل رہی ہیں، ممکن ہے تحقیقات کے دوران 102 افراد میں سے بہت سوں کو چھوڑ دیا جائے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، پک اینڈ چوز کے پیچھے کیا وجوہات کار فرما ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن افراد نے ممنوع مقامات پر حملہ نہیں کیا ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ یہ بیان اپنے موکل کے ہدایات پر دے رہے ہیں یا ذاتی بیان ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے جواب دیا کہ میں عدالت میں کوئی بھی بات ہدایات کے بغیر نہیں کرتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ بغیر اعداد وشمار کے بات کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ امید کرتا ہوں اس کیس کی سماعت کے دوران کسی کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا، جو افراد گرفتار کیے گئے ان کی مکمل تفصیلات فراہم کریں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ کچھ افراد مکمل طور پر غائب ہیں، ان کا کچھ اتا پتہ نہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ اگر مجھے نام بتا دیں گے تو پتہ کرالیں گے کہ کون کہاں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کی مکمل تفصیلات کل فراہم کریں، جو لوگ زیرِ حراست ہیں ان سے اہلخانہ کو ملنے کی اجازت دی جائے، گرفتار افراد کو تمام تر سہولیات فراہم کریں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، ان کا کہنا ہے کہ میں مزید اس بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتا۔
وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھا دیا
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آ کر کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھا دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا تھا کہ مجھ پر اعتراض تو نہیں، میں نے کہا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں، مجھے ہدایت ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ بینچ کا حصہ نہ ہوں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی مرضی سے بینچ نہیں بنایا جائے گا، کس بنیاد پر وفاقی حکومت جسٹس منصور پر اعتراض اٹھا رہی ہے؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ جس جج پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے ان کی اہلیت پر کسی کو شک نہیں، حکومت نے پہلے بھی اس قسم کے اعتراضات اٹھائے ہیں، الیکشن کیس میں 90 دنوں پر کسی نے اعتراض نہیں کیا، بس بینچ پر اعتراض کیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل منصور عثمان سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ جسٹس منصور پر اعتراض جانبداری پر اٹھا رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراؤکی بنیاد پر؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے جسٹس منصور پر مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک اعلیٰ درجے کے وکیل ہیں، آپ پر عدالت کو اعتماد ہے، یہ ججز پر اعتراض کرنے کے تسلسل کی ایک کڑی ہے، پہلے حکومت نے بینچ کے تناسب کا معاملہ اٹھائے رکھا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کیس میں 90 دنوں کی آئینی بات کے بجائے تناسب پر اعتراض اٹھایا گیا، بنیادی حقوق کے معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پارلیمنٹ میں ہمیں لائیک مائنڈڈ ججز کہہ کر پکارا جاتا رہا، حکومت کرنا کیا چاہتی ہے، ہم نے انتخابات کیس میں توہین عدالت کی کارروائی سے گریز کیا، اب ہم سمجھتے ہیں کہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے، حق اور سچ کی اخلاقی ذمے داری اس عدالت کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا وزیرِ اعظم سے پوچھیں کہ کسی رشتے داری کی بنیاد پر اعتراض کیوں اٹھایا گیا؟ جسٹس منصور علی شاہ بہت حساس ہیں، جسٹس منصور وہ انسان نہیں کہ ان کی رشتے داری فیصلے پر اثرانداز ہو، سپریم کورٹ کو داغدار نہ کریں، تضحیک مت کریں، حکومت کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتوں کو فیصلے نہیں کرنے دیتے، فیصلوں کی تضحیک کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ 90 دن کے الیکشن پر آئین بڑا واضح ہے، جج کوئی حکومتی یا ہم خیال نہیں، جج صرف جج ہیں۔
واضح رہے کہ اس قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود بھی اس بینچ کا حصہ تھے لیکن دونوں نے خود کو اس لارجر بینچ سے الگ کر لیا تھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ بینچ سے اٹھ رہا ہوں، کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونے تک اس عدالت کو نہیں مانتا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتا ہوں، اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کر دیتے ہیں اس کیس میں تو کل کو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس کے لیے ابتداء میں 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے بینچ پر اعتراض کے بعد 7 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جسٹس منصور کی علیحدگی کے بعد بینچ 6 ججز پر مشتمل رہ گیا ہے۔