• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی کودے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو!
نہ ہوجب دل ہی سینے میں، توپھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوںچھوڑیں
سبک سربن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو!
گزشتہ دنوں الیکڑونک میڈیا پردل کاتذکرہ اس قدر ہوا کہ میرے ذہن میں دل سے متعلق غالب کے مندرجہ بالا اشعار آگئے سوچا قارئین کی نذر کردوں جنرل پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی اور عدالت میں وکلا کی تکرار اور پھر دھمکیوں سے متعلق الزامات اور سینئر وکلا کو ڈرانے دھمکانے کے مکالمے نہ صرف غور طلب ہیں بلکہ ان پر فوری عملی کارروائی کی ضرورت ہے اگر اتنے اونچے فورم پر اتنے بڑے بڑے وکلا کا ایک دوسرے کے ساتھ ایسا رویہ ہوگا تونوجوان وکیل اس کا کیا تاثر لیں گے اور حکومتی اور عدالتی اہلکاروں کے درمیان وکلا کے وقار کی بابت ہونے والی چہ مگوئیوں کوکون روکے گا۔ وکیل ایک ضابطہ اخلاق کاپابند ہوتا ہے اور اسے اس ضابطہ اخلاق کے مطابق ہی کام کرنا چاہیے۔ جوکچھ بھی عدالت اور اسکے باہر ہوا انتہائی افسوس ناک ہے اور سنیئر وکلا کوچاہیے کہ آئندہ احتیاط سے کام لیں اور اس طرح کا ماحول نہ پیدا کریں جس سے خود کوبھی تکلیف ہو اور جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ عدالتوں کے اندر بحث ومباحثہ کے دوران وکلا کی آپس میں نوک جھونک اور جملے بازی روزانہ کامعمول ہے مگر جیسے ہی وکلا عدالت سے باہر نکلتے ہیں تووہ آپس میں نارمل ہوجاتے ہیں اور بارروم میں اکٹھے بیٹھ کرچائے پیتے ہیں لڑائی موکلوں کی ہوتی ہے وکیل توصرف اسے پیش کرتا ہے آپس میں نہیں لڑتے۔ بہرحال جوہونا تھا ہوگیا مگر آئندہ کے لئے احتیاط کی جائے اور مقدس پیشے کے وقار کا خیال رکھا جائے جنرل پرویز مشرف کی عدالت کے راستے میں اچانک سینے کے درد کی شکایت پر پورا دن بے انتہا تبصرے کئے گئے اور ہر چینل نے اپنی اندرونی پالیسی کے مطابق اس واقعہ پر اپنے اپنے تجزیات پیش کئے حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے ذہنی دباؤ اور70سال کی عمر میں دیئے گئے حالات کے تحت سینے میں درد اور دل کی تکلیف کے امکانات کورد نہیں کیاجاسکتا بہرحال اصل رپورٹ تواب ماہر ڈاکٹر صاحبان ہی دیں گے جس کے مطابق آئندہ لائحہ عمل طے ہوگا سیاستدانوں کواپنی عمر کی وجہ سے بیماریاں توہوتی ہیں مگر جب ان پر قیدوبند کی صعوبتیں آتی ہیں تو ان بیماریوں کی شدت میں یکایک اضافہ ہوجاتا ہے اب کچھ اسے سیاسی اضافہ کہتے ہیں مگرStressکے تحت بیماری میں اضافہ ہونا ناگریز ہے مجھے یاد ہے کہ ضیاالحق کے دور میں محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ اور محترمہ بے نظیر صاحبہ پر مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں آئی تھیں جوانہوں نے کافی عرصہ دلیری سے برداشت کیں لیکن بعد میں محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ کا معائنہ مڈایسٹ اسپتال میں اس وقت کے مشہور چیسٹ اسپشلسٹ ڈاکٹر عبدالحیٔ صاحب نے کیا اور ان کے پھیپھڑوں کے مرض کے بارے میں تشویش اور بیرون ملک علاج کا اظہار کیا اور اس طرح محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ ضیاء الحق دور میں علاج کی غرض سے باہر گئیں اور طیارہ گرنے کے بعد ہی واپس آئیں اس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے کان کا معائنہ اس وقت ڈاکٹر امداد سومرو نے کیا اور بیرون ملک علاج کی تجویز دی اور پھر وہ بھی تشریف لے گئیں اور کافی عرصے بعد جناب شاہنواز بھٹو کے جسد خاکی کولیکر محمد خان جونیجو کی حکومت میں آئیں اور پھر فوراً واپس چلی گئیں ۔ ایسے ہی واقعات دوسرے سیاسی رہنماؤں کی جیل میں بیماری اورپھر بیرون ملک علاج سے متعلق بھی ہیں جن کا اب یہاں لکھنا مناسب نہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ کوئی میڈیکل بورڈ جناب پرویز مشرف کے بیرون ملک فوری علاج کی سفارش کردے اور وہ ائیرایمبولینس میں دوبئی منتقل کردیئے جائیں۔ بہرحال علاج کروانا ہر قیدی کابنیادی حق ہے اور عدالت اس حق کوہمیشہ تسلیم کرتی ہے اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیتی۔ جس کسی کو جس طرح علاج کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے مہیا کیاجاتا ہے اب یہ قیاس آرائیاں کے مشرف ملک سے باہر علاج کی غرض سے چلے جائیں گے درست بھی ہوسکتی ہیں سعودی وزیر کی آمد اورUAEکے نمائندے کی موجودگی میں دل کی تکلیف اگر ہوجائے توعلاج میں رکاوٹ مشکل ہوجاتی ہے بہرحال علاج کروانا ملزم کا بنیادی حق ہے اور اس سے انکار نہیں ہوسکتا ۔ محسن نقوی کے اشعار ہیں
نظر کاحسن بھی حسن بتاں سے کم تونہ تھا
مرایقین تمہارے گماں سے کم تونہ تھا
مزاج عظمت آدم کی بات ہے، ورنہ
زمین کاظلم تیرے آسماں سے کم تونہ تھا
اب اس مقدمے کی قانونی پوزیشن یہ ہے کہ اگرجنرل پرویز مشرف کوعدالت نے علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی اجازت دیدی تو مقدمے کی کارروائی رک جائے گی کیونکہ اس مقدمے میں ابھی تک صرف ایک ہی ملزم ہے اور اگر وہ بھی نہیں ہوگا تو فوجداری کارروائی نہیں ہو سکتی جب ایک سے زیادہ ملزم ہوں توکسی ایک ملزم کواستثناء دینے کے بعد باقی ملزمان کی موجودگی میں مقدمہ چل سکتا ہے اور مستثنیٰ ملزم کیطرف سے اس کا وکیل پیش ہوجاتا ہے محترمہ بے نطیر صاحبہ کے مقدمات انکی غیر موجودگی میں چلتے رہے تھے اور جناب لاکھو صاحب وکیل پیش ہوتے تھے مگر موجودہ مقدمے میں ابھی تک کوئی دوسرا ملزم نہیں ہے اس لئے کارروائی رکنے کے امکانات کافی ہیں، اس سے پہلے راولپنڈی سازش کیس اگرتلہ سازش کیس اور حیدرآباد سازش کیس اپنے اپنے وقت میں کافی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ سب بے نتیجہ رہے بقول غالب
بے خودی، بے سبب نہیں، غالب!
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے
تازہ ترین