شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور بیکری دیہات کی کسی تنگ گلی میں واقع ہو یا کسی بڑے شہر کے مین بلیوارڈ پر، دُکان دار کا بچّوں سے لے کر ضعیف العمر صارفین تک سے واسطہ پڑتا ہے۔ اگر بچّہ ہاتھ میں پیسے پکڑ کر انکل سے چپس، بنٹیز اور ٹافیوں کا تقاضا کرتا ہے، تو خواتین ناشتے کے لیے ڈبل روٹی، پاپے، سال گرہ کے لیے کیک اور مہمانوں کے لیے مٹھائی، آئس کریم اور کولا مشروبات مانگتی ہیں۔
دوپہر کو دفتری اوقات میں وقفے کے دَوران ملازمت پیشہ افراد لنچ کے طور پر پیزا، پیٹیز اور ڈرنکس کے لیے بے چین ہوتے ہیں، تو بیش تر گھرانوں کے افراد دن ڈھلے مہمانوں کی چائے کے لیے فروٹ کیک، رس ملائی، بسکٹس، کولا مشروبات اور بچّوں کے لیے چاکلیٹس وغیرہ کا بِل بنوا رہے ہوتے ہیں اور یہ کسی ایک بیکری کا احوال نہیں، پاکستان کے طول و عرض میں خیبر سے پنجاب، سندھ سے بلوچستان اور شمالی علاقہ جات تک پھیلی ہزاروں بیکریوں کی یہی صُورتِ حال ہے اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ متمول سے متوسّط اور غریب طبقے کے افراد بھی شام کی چائے یا مہمان نوازی کے لیے ان ہی بیکریوں کا رُخ کرتے ہیں۔
جب کہ اگر کاروباری حجم کی بات کی جائے، تو ایک عالمی میگزین BBM نے پاکستان میں بریڈ اینڈ بیکری پراڈکٹس کے کاروباری حجم کا گزشتہ5 برس کے دَوران اوسط تخمینہ 24 ارب ڈالرز سالانہ لگایا ہے، جو اگلے دو، تین برس میں30 ارب ڈالرز تک متوقّع ہے۔ صرف بسکٹس انڈسٹری کا کاروباری حجم90 ارب روپے بتایا گیا ہے۔اسی حیران کُن رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں بریڈ اینڈ بیکری پراڈکٹس میں7 فی صد اضافے کی توقّع ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں آٹے کی کُل پیداوار میں سے ایک کروڑ ٹن سے زاید بیکری کی درجنوں مصنوعات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
جہاں تک پنجاب کے صوبائی دارالحکومت، لاہور کی بیکریوں کا تعلق ہے، تو یہ ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں گزشتہ 5،6 دہائیوں میں ہماری بدلتی غذائی عادات دیکھی جاسکتی ہیں۔یہ بیکریاں ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح روایتی کھانے اور مشروبات رفتہ رفتہ ہمارے دستر خوانوں سے معدوم ہوگئے یا ہو رہے ہیں۔ کسی زمانے میں دیہات اور چھوٹے، بڑے شہروں میں مہمانوں اور رشتے داروں کی تواضع روایتی مشروبات مثلاً سکنجبین، لسّی، چھاچھ، رو (گنے کا رس) ستّو، صندل، الائچی، آلو بخارے اور املی کے شربت وغیرہ سے کی جاتی تھی۔
چائے، بسکٹ کا نام و نشان نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ گھر میں بنی نان خطائیاں، لڈو، دہی بڑے یا فروٹ چاٹ وغیرہ مہمانوں کے سامنے رکھ دیئے جاتے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہماری روز مرّہ زندگی اور غذائی عادات کے رنگ ڈھنگ تبدیل ہونے لگے۔ شہروں اور دیہات کے درمیان آمدو رفت بڑھی، موبائل فون، انٹرنیٹ، کمپیوٹر، الیکٹرانک میڈیا نے نہ صرف ہماری روزمرّہ زندگیاں، بلکہ ہمارے کچن بھی یک سَر بدل کے رکھ دیئے۔یاد رہے، پاکستان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ موبائل فون استعمال کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
یوں جب تقریباً ہر نوجوان اور خواتینِ خانہ کے ہاتھ میں موبائل فون آگیا، تو دنیا بَھر کے چائے کے لوازمات اور کھانے پینے کی تراکیب بھی اُن کی دسترس میں آگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یوٹیوب پر فوڈ چینلز کے فالوورز لاکھوں، کروڑوں میں ہیں اور خواتین ترکش، ملیشئین اور اسپینش کھانوں کی تراکیب تک اپنے باورچی خانوں میں آزما رہی ہوتی ہیں، تو دوسری طرف، نوجوان طبقہ اور کم سِن بچّے بھی کیک پیزا، برگر، شوارما اور دوسری بیکری پراڈکٹس کے لیے قدم قدم پر پھیلی بیکریوں کا رُخ کرتے ہیں یا آن لائن آرڈر کرتے ہیں، کہ اِدھر آرڈر کیا اور اُدھر ڈیلیوری بوائے ڈور بیل بجا رہا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اکثر رات ایک، دو بجے جب ہر طرف خاموشی چھائی ہوتی ہے، اچانک گھر کی بیرونی گھنٹی بجنے پر سوئے ہوئے والدین بے دار ہو جاتے ہیں، تو کمپیوٹر، لیپ ٹاپ پر مصروف بچّے اُنھیں دِلاسا دیتے ہیں کہ’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، یہ پیزا لانے والا ڈیلیوری بوائے ہے۔‘‘
چائے اور بیکری مصنوعات
لاہور، صدیوں سے مختلف حملہ آوروں کی آماج گاہ اور مختلف النّوع تہذیب و ثقافت کا گہوارہ رہا ہے۔ برّصغیر میں صدیوں تک مغلئی کھانوں کی حُکم رانی رہی اور ان مرچ مسالوں سے مزیّن چٹخارے دار کھانوں میں روغنِ جوش، نہاری، گوشت، مغلئی پراٹھا، مٹن بوٹی، مغلائی کوزین، چکن قورما، مغلئی پلائو، مٹن سیخ کباب اور نرگسی کوفتے وغیرہ شامل تھے۔ ان مغلئی کھانوں کو پہلا جھٹکا اُس وقت لگا، جب پرتگالی جہاز راں یہاں پہنچے۔ بعد ازاں، انگریزوں نے چینیوں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے برّصغیر میں چائے کی کاشت کا فیصلہ کیا اور 1776ء میں بوٹانسٹ نے یہاں کی آب و ہوا کو نہایت سازگار قرار دیا، جس کے بعد 1780ء میں چین سے لائے گئے چائے کے بیجوں پر کام یاب تجربہ کیا گیا اور پھر مئی 1823ء میں آسام میں کاشت کی جانے والی چائے کو پہلی مرتبہ نہ صرف مقامی طور پر استعمال کیا گیا، بلکہ اُسے عام لوگوں کے استعمال کے لیے برطانیہ بھی بھیجا گیا۔ یوں 1840ء میں ہمارے خطّے میں ٹی انڈسٹری کا آغاز ہوا، جس کے بعد آسام کی پہاڑیوں کے دامن میں جنم لینے والی یہ چائے برّصغیر کے کونے کونے میں پھیل گئی اور آج پاکستان کا تقریباً ہر گھرانہ، غریب اور امیر کی تخصیص کے بغیر، اس کی لپیٹ میں ہے۔غریب اور سرتاپا غیر مُلکی قرضوں میں جکڑے پاکستان کا صرف چائے کا درآمدی بِل ایک سال پہلے تک80 ارب روپے سے متجاوز تھا، مگر جب ایک پاکستانی وفاقی وزیر نے لوگوں کو کم چائے پینے کا مشوررہ دیا، تو لوگوں نے سوشل میڈیا پر اُن کا خُوب مذاق اُڑایا۔
بہرحال، جب چائے نے ہر گھر کے کچن میں داخل ہوکر روایتی مشروبات کی جگہ لینا شروع کر دی، تو اس کا ایک بڑا نتیجہ چائے کے ساتھ بیکری مصنوعات، جیسے کیک، پیسٹری، بسکٹس، ڈونٹس، کیک رس، پیزا، بریڈ سلائس اور سینڈوچز کی مقبولیت کی صُورت نکلا، جس کے لیے سب نے بیکریوں کا رُخ کیا۔ شام کی فیملی چائے ہو یا مہمانوں کی تواضع، برتھ ڈے پارٹی ہو یا کینٹین میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ، ہر جگہ بیکری مصنوعات ہی نظر آتی ہیں۔ دراصل ان بیکری آئٹمز کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کی پیکنگ اور مینو فیکچرنگ بھی ہے، جو بعض اوقات اتنی شان دار، دیدہ زیب ہوتی ہے کہ خود بخود اپنی جانب متوجّہ کر لیتی ہے۔ تب ہی تو اِس وقت صرف بسکٹس اور مشروبات کی تشہیر پر جو رقم خرچ کی جارہی ہے، وہ اربوں سے متجاوز ہے۔
لاہور کی قدیم ترین بیکری
برّصغیر کی قدیم ترین بیکری کا اعزاز پرانی انار کلی، لاہور میں دو، ڈھائی مرلے پر واقع’’ایس محکم دین اینڈ سنز بیکرز‘‘ کو حاصل ہے، جو 144سال قبل 1879ء میں بنائی گئی تھی۔ اِن دنوں محکم دین اور اُن کے بھائی اسے چلا رہے ہیں۔ محکم دین، جن کا نام دادا کے نام پر رکھا گیا، بتاتے ہیں’’یہ بیکری میرے دادا جان، سیّد محکم دین نے قائم کی تھی، اس سے پہلے برّصغیر میں مٹھائی چلتی تھی، جس پر ہندوئوں کا قبضہ تھا۔ میرے پردادا کا انگریزوں سے گہرا تعلق تھا، اُن کے بیٹے یعنی میرے دادا نے گریجویشن کی، تو پردادا نے انگریزوں سے پوچھا کہ’’اُنہیں کس شعبے میں جانا چاہیے؟‘‘، انگریزوں نے بیٹے کو بیکری کا کام سِکھانے کا مشورہ دیا۔
بعدازاں، لیڈی ایچی سن (لارڈ ایچی سن کی اہلیہ) نے میرے دادا جی پر بہت محنت کی اور بیکری کی مصنوعات بنانے میں ماہر کر دیا، پھر جنوری 1879ء میں میرے دادا نے انارکلی میں ڈھائی مرلے کی دُکان سے کام کا آغاز کیا۔ ابتدا میں ہمارا تعلق راجوں، مہاراجوں اور دیگر بڑی فیملیز سے تھا، جو ہم سے کیک، پیسٹریز اور بسکٹس وغیرہ خریدنے آتے، چوں کہ ہم نہایت دیانت داری سے انتہائی قیمتی مسالا جات، زعفران وغیرہ استعمال کرتے، اِس لیے وہ لوگ ہماری فوڈ پراڈکٹس کے رسیا ہو گئے۔
خواص میں ہماری چیزیں مقبول تو تھیں، لیکن عام لوگوں میں متعارف کروانے کے لیے میرے دادا خود اپنے سَر پر ٹوکری رکھ کر بازاروں میں لوگوں کو ترغیب دیا کرتے، اُس وقت یہ چیزیں منہگی تھیں، لیکن آج اُن کی قیمت سُن کر حیرت ہوتی ہے، یعنی ایک آنے کے تین سیر رس اور ایک آنے کی درجن پیسٹریاں ملتی تھیں، میرے دادا نے ڈھائی مرلے کی جگہ سوا روپے میں خریدی تھی اور یہ دُکان ساڑھے تین سال میں مکمل ہوئی اور اس پر تین سو روپے لاگت آئی، یہاں پنڈت نہرو، نواب دولتانہ، نواب ممدوٹ، نواب آف جونا گڑھ، علّامہ اقبال، آغا شورش کاشمیری کے علاوہ قزلباس فیملی بھی آیا کرتی تھی۔
علّامہ اقبال دودھ میں پیسٹری ڈال کر شوق سے کھاتے، جب عوام نے دیکھا کہ اِتنے بڑے بڑے لوگ یہاں آتے ہیں، تو اُن میں بھی ان اشیا کی رغبت پیدا ہوگئی۔‘‘ محکم دین نے مزید بتایا کہ’’دادا جان کے بعد میرے والد، سیّد خوش بخت نقوی اور تایا، شجر حسین نقوی نے یہ کاروبار سنبھالا اور ہمارے دادا کے فن پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔میرے والد 1995ء میں انتقال کرگئے۔ ہمارے یہاں کئی نسلوں سے لوگ خریداری کے لیے آ رہے ہیں۔ رِچ پلم کیک، پیسٹریز، لیڈیز ہری سن فنگرز وغیرہ یہاں کی مخصوص سوغاتیں ہیں کہ مکھن، دودھ اور سوجی سے بنائی گئی یہ مصنوعات اپنے ذائقے میں بے حد منفرد ہیں۔ بیکری کا اسپیشل ویڈنگ کیک، رچمنڈ کیک ہے، جو لوگ عموماً شادی بیاہ یا برتھ ڈیز وغیرہ پر بنواتے ہیں۔
یاد رہے، ہماری اکثر مصنوعات کی تراکیب وہی ہیں، جو دادا جان دے کر گئے تھے اور اُنہوں نے یہ کام برطانیہ جاکر سیکھا تھا، لیکن اس میں اُن کی اپنی محنت اور شوق کا عمل دخل زیادہ تھا۔میرے والد صاحب نے بھی یہ فن بہت محنت سے سیکھا۔ وہ اِس بات کا خصوصی اہتمام کرتے کہ اشیا کے تمام اجزا خالص اور مقدار میں پورے ہوں۔ اُنہوں نے لاہور میں شاہِ ایران اور ملکہ کی آمد کے موقعے پر شالیمار گارڈن میں ایک ایسا کیک اسمبل کیا، جو کافی بڑا تھا اور کاٹنے پر اُس میں سے زندہ فاختائیں، کبوتر اور لالیاں اُڑی تھیں، یہ اُن کے کمالِ فن کا نمونہ تھا۔
اُن کی زندگی میں ایک مرتبہ بھٹّو صاحب نے، جب وہ وزیرِ خارجہ تھے، اپنی بیٹی، بے نظیر بھٹّو کی سال گرہ پر ایک کیک لیا، جس کی اُنہوں نے باقاعدہ قیمت یعنی ساڑھے تین روپے ادا کیے اور اس کی رسید بھی لی۔‘‘محکم دین نے کہا کہ’’ موجودہ منہگائی میں بیکری آئٹمز کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے اور ایک کیک کی قیمت تین ہزار سے لے کر پانچ ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔مگر ہم اپنے گاہکوں کو گاہک نہیں، فیملی ممبرز سمجھتے ہیں۔ہماری شہر میں کوئی برانچ نہیں، کیوں کہ جیسے شاہی قلعہ ایک ہے، اسی طرح ہماری بیکری بھی ایک ہی ہے۔‘‘
بیکریوں کا جال
قیامِ پاکستان کے بعد عوام کی بدلتی غذائی عادات کے پس منظر میں مُلک کے طول و عرض میں بیکریاں قائم ہونے لگیں۔ اگر ہم صرف لاہور کی بات کریں، تو یہاں گزشتہ چھے، سات دہائیوں میں جو بیکریاں قائم ہوئیں، اُن میں راحت بیکری، جلال سنز، فائن بیکری، گورمے، کچن کوزین، بریڈ اینڈ بیانڈ، بیکری خلیفہ نان خطائی، بندو خان، کیکس اینڈ بیکس، بٹ سویٹس، حافظ، دوسے، مالمو، ب بیکری اور دیگر بے شمار بیکریاں شامل ہیں۔ جہاں ایک طرف شہر کے گلی محلّوں میں دھوتی، کُرتوں میں ملبوس دُکان دار بیکری آئٹمز فروخت کرتے نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف، پوش اور جدید رہائشی سوسائیٹز کے کئی منزلہ پلازوں میں قائم وسیع وعریض بیکریوں کے ڈیجیٹل کائونٹرز پر مخصوص پینٹ کوٹ میں ملبوس سیلزمین نہایت خوش اخلاقی سے اپنے صارفین سے’’ڈیل‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔
ان بیکریوں میں کیا کچھ ملتا ہے، فہرست تو بہت طویل ہے، تاہم کچھ فوڈ آئٹمز یہ ہیں۔ بریڈ (پلین اور برائون) فروٹ کیک، سادہ کیک، پیسٹری، بسکٹس، پیٹیز، سینڈوچز، سموسے، کوکیز، برائونیز، مفنز، ڈونٹس، پیزا، بنز، کریکرز، کولا مشروبات، جوسز، آئس کریم، مٹھائیاں، ڈبّا پیک دودھ، انڈے، رَس (RUSK) ، منرل واٹر اور دوسری بے شمار اقسام کی اشیاء۔جب کہ پنجاب کے دیہات اور چھوٹے شہروں میں چلے جائیں، تو حلوہ جات، بسکٹس اور کیک رَس وغیرہ کی شکل میں وہاں کی مخصوص سوغاتوں نے لوگوں کا ان بیکریوں سے رشتہ استوار کر رکھا ہے۔
زیرو سے ہیرو
لاہور میں شیزان، راحت بیکری، خلیفہ نان خطائی، کیکس اینڈ بیکس، گورمے بیکری، بندو خان وغیرہ کا شمار پرانی بیکریوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے بیکری مارکیٹ کے تقریباً60 فی صد حصّے پر تسلّط جما رکھا ہے۔گورمے کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے انتہائی مختصر عرصے میں بیکری مصنوعات کی تاریخ بدل ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سیکڑوں برانچز نے عوام میں بیکری فوڈ آئٹمز کے استعمال کو ایک نیا رُخ دے دیا۔ اس بیکری کے بانی محمّد نواز چٹھہ پہلے شیزان بیکری کے سینئر منیجر تھے، جنہوں نے 1987ء میں وہاں سے علیٰحدگی اختیار کر کے اپنے بزنس کی بنیاد رکھی۔
وہ کہتے ہیں’’سب سے پہلی برانچ مسلم ٹائون میں ایک چھوٹی سی شاپ میں کھولی،مگر وقت کے ساتھ ساتھ جب کاروبار بڑھنے لگا، تو لاہور کے علاوہ پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی برانچز کھول لیں، جن کی تعداد اب100 سے متجاوز ہے اور یہ ادارہ2000 سے زائد افراد کو روزگار فراہم کررہا ہے۔‘‘ گورمے کی فوڈ پراڈکٹس کی قیمتیں پوش علاقوں کی بیکریوں کے مقابلے میں مناسب ہیں اور سفید پوش طبقے کی اپروچ میں ہیں، لیکن منہگائی نے یہاں بھی مصنوعات کو ایک عام آدمی کی پہنچ سے دُور کر دیا ہے۔ بندو خان بیکری کا شمار بھی لاہور کی پرانی بیکریوں میں ہوتا ہے۔
اس کے بانی 1890ء میں میرٹھ میں پیدا ہونے والے الحاج بندو خان تھے، جنھوں نے 1948ء میں پاکستان میں کباب اور پراٹھے بیچ کر اپنا کاروبار شروع کیا اور اس ضمن میں دن رات ایک کردیا۔ اس کا ثمر اُنہیں 1957ء میں ایم۔ اے جناح روڈ، کراچی میں ایک ریسٹورنٹ کے قیام کی صُورت ملا۔ بعد میں یہ کاروبار بیکری میں تبدیل ہوگیا، جس کی اب لاہور میں متعدّد برانچز کام کررہی ہیں۔ 1960ء میں اُنہوں نے چکن تکّہ متعارف کروایا، جو اُن کی پہچان بن گیا۔پھر 1985ء میں بہاری کباب متعارف کروائے۔ 1987ء میں اُن کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد اُن کے پس ماندگان، پوتے وقار محمود اور دیگر نے کاروبار بڑھاتے ہوئے اسے سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں تک پھیلا دیا،جب کہ اب امریکا میں بھی اُن کی ایک برانچ کام کر رہی ہے۔
ایک برانچ کے منتظم نے بتایا کہ’’ بندو خان نے کباب بنانے کا فن دہلی میں اپنے چچا کی دُکان سے سیکھا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ خاندان سمیت ہجرت کر کے کراچی آگئے اور گزر اوقات کے لیے کباب، پراٹھے بیچنے شروع کردیئے۔ بعد میں انھوں نے دن رات ایک کر کے ایک فوڈ چین کی بنیاد رکھی۔بہرکیف، اپنی اشیاء کے معیار کی وجہ سے فوڈ انڈسٹری میں بار بی کیو کا نام اب بندو خان کی پہچان بن گیا ہے۔‘‘ لاہور میں جلال سنز کی زیادہ تر برانچز پوش علاقوں میں اپر کلاس کے لیے ہیں اور ان کا شمار منہگی بیکریوں میں ہوتا ہے۔جلال سنز کی بنیاد محمّد الطاف خان نے رکھی تھی، جو کہ جلال اے خان اور سہیل اے خان کے والد تھے۔
اس کی سب سے پہلی برانچ گمٹی مارکیٹ میں قائم کی گئی، جو 1958ء میں مین مارکیٹ میں منتقل ہوگئی۔ ابتدا میں جلال سنز نے یہ کام ایک چھوٹے سے گروسری اسٹور سے شروع کیا، جو بعد ازاں 1990ء اور 2000ء کے شروع میں بیکری سیکٹر میں شامل ہوگیا۔ جلال سنز پہلی بیکری تھی، جس نے بیکری کے اندر تازہ اور گرما گرم اشیاء بیک کرکے فروخت کرنے کا آغاز کیا۔ بیکری کے سیکٹر میں یہ ایک انقلابی آئیڈیا تھا، جو بہت جلد مقبول ہوگیا۔ پیٹیز، فرینچ ہرٹس اور کوکیز گاہکوں کے سامنے بیک کی جاتیں۔ بعدازاں پیزا، برگرز اور سینڈوچز بھی اِسی طرح فروخت کیے جانے لگے۔
یہ بیکری اپنی معیاری اشیاء کے سبب اپرکلاس میں مقبول ہے۔ شیزان بیکری بھی کافی پرانی ہے اور اس کی حدود بین الاقوامی ہیں۔ اس کمپنی کی بیکری اس کے وسیع و عریض کاروبار کا ایک حصّہ ہے، جب کہ یہ اچار، مشروبات ، جوسز، چٹنیاں، جام وغیرہ میں بھی بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے۔ اس کی بنیاد شاہ نواز گروپ نے 1964ء میں ایک جوائنٹ وینچر کے طور پر رکھی تھی، جس کی برانچز بعد میں امریکا، کینیڈا اور یورپ تک پھیل گئیں۔ اس کا شمار پاکستان کے سب سے بڑے فوڈ پراسیسنگ یونٹس میں ہوتا ہے، جس میں مُلکی اور غیر مُلکی ضروریات پوری کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ 1980-81ء میں کراچی میں ایک یونٹ لگایا گیا، جو سندھ کی برآمدات کی ڈیمانڈ پوری کرتا ہے۔ کمپنی کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے، جب کہ لاہور میں شیران بیکری کی برانچز محدود اور مخصوص جگہوں پر واقع ہیں۔
کچن کوزین بھی فوڈ سروس بزنس میں 30 سال کے تجربے کی حامل ہے۔ اگرچہ اس کا زیادہ زور فوڈ کیٹرنگ کی طرف ہے، تاہم لاہور میں مخصوص مقامات پر قائم بیکریاں بھی مٹھائی، کیک، بریڈ، کوکیز وغیرہ کے لیے صارفین کی توجّہ اپنی طرف کھینچتی ہیں۔کچن کوزین نے 1990ء کے وسط میں اسلام آباد کی مارکیٹ میں قدم رکھا اور اب لاہور، اسلام آباد میں اس کی20 سے زائد برانچز کام کررہی ہیں۔ اس کی بانی، نادیہ راجا گھر پر اپنے ملنے جُلنے والوں اور عزیز و اقارب کے لیے ڈیزرٹس اور کھانے تیار کرتی تھیں، جو اتنے پسند کیے گئے کہ گھر کا کچن ایک مارکیٹ کچن میں تبدیل ہو کر صفِ اول کی بیکریوں میں شمار ہونے لگا۔
سب سے پہلی بیکری ان کے گھر کا کچن تھا، جہاں سے ان کے عزیز و اقارب، دوست اور ملنے جُلنے والے فوڈ آئٹمز لے جاتے۔ اُس وقت سوشل میڈیا تو تھا نہیں، لہٰذا لوگ آئٹمز کی تعریفیں سُن کر آتے تھے۔پھر 1988ء میں اسلام آباد کے گھر میں باقاعدہ ایک بیکری قائم کی گئی اور جب کاروبار چل نکلا، تو نادیہ کے شوہر نے بھی اپنی آئی ٹی کی اچھی جاب چھوڑ کر خود کو کنفیکشنری بزنس کے لیے وقف کردیا۔ 1993ء میں اس کی لاہور میں پہلی برانچ کھولی گئی، جس پر اُس زمانے میں40 ہزار روپے کی لاگت آئی تھی۔
بیکری نے مقابلے و مسابقت میں شدید مشکلات کے باوجود بالآخر اپنا آپ منوا لیا۔راحت بیکری کا شمار بھی لاہور کی قدیم بیکریوں میں ہوتا ہے۔ 1950ء میں قائم ہونے والی اس بیکری کی30 سے زائد برانچز پنجاب اور کے پی کے میں فرنچائزز اور پارٹنر شپ آئوٹ لیٹس کے طور پر کام کر رہی ہیں اور منتظمین کا دعویٰ ہے کہ وہ روزانہ30 ہزار سے زائد صارفین کو ڈیل کر رہے ہیں۔ اس کی بنیاد دو بھائیوں، رحمت اللہ چوہدری اور غلام نبی چوہدری نے رکھی، جو قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے لاہور منتقل ہوئے تھے۔
گم نام بیکریاں
یہ تقریباً پونے دو کروڑ کی آبادی والے شہر، لاہور کی چند معروف بیکریوں کا احوال ہے۔ ان بیکریوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اکثریت نے چھوٹے پیمانے پر کام شروع کر کے اسے عروج پر پہنچایا۔ شہر میں بیکریوں کی مجموعی تعداد کتنی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کیوں کہ ہر طرف پھیلے شہر میں سیکڑوں بیکریاں صارفین کی روزمرّہ کی ضروریات پوری کر رہی ہیں۔ان بیکریوں سے لاکھوں افراد کو روزگار بھی مل رہا ہے۔کئی چھوٹی بیکریوں کے مالکان نے بیکنگ کے لیے مخصوص تندور اور بڑے بڑے اوون رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی خواتینِ خانہ اور بچّے بھی اُن کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
نان خطائیاں، کیک رس، مٹھائیاں اور باقر خانیاں بھی ان درمیانے درجے کی بیکریوں کے مقبول آئٹمز ہیں۔تاہم، نان خطائیوں کے حوالے سے’’ خلیفہ خطائی‘‘ سب سے پرانی (30 سال) ہے، جن کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ لوگ اُن کی تیار کردہ نان خطائی بیرونِ مُلک بھی لے جاتے ہیں۔ ان کی لاہور میں اندرونِ شہر صرف ایک ہی برانچ ہے۔لاہور میں بیکریوں کے بڑھتے رجحان کا ایک ثبوت گزشتہ20,15 برس میں بسکٹ انڈسٹری کا فروغ ہے، جس کا حجم اب ایک اندازے کے مطابق90 ارب روپے سالانہ تک ہے۔ یہ پورے پاکستان کا تخمینہ ہے اور اس کاروبار میں لاہور، کراچی کے بعد سب سے بڑا حصّے دار ہے۔70 فی صد لاہوری دوسرے شہروں کی طرح ڈبّوں میں پیک بسکٹس استعمال کرتے ہیں۔ غیر مُلکی برانڈز کے بسکٹس بھی درآمد کیے جاتے ہیں، جو زیادہ تر اپر کلاس بیکریوں میں ملتے ہیں۔
اس امر میں شک نہیں کہ طبّی ماہرین بیکری مصنوعات کو انسانی صحت کے لیے مفید قرار نہیں دیتے، لیکن اس کے باوجود، عوام کی اکثریت نے جس طرح انھیں اپنایا ہے، وہ ہماری بدلتی غذائی عادات کا ایک اہم موڑ ہے۔ اکثر ماہرین اس کا سبب جدید طرزِ زندگی، مصروف ترین شب و روز، وقت کی کمی، بچّوں اور بڑوں کے لیے فوڈ آئٹمز کی فوری دست یابی کو قرار دیتے ہیں۔ کچھ بھی ہو، ایک دانش وَر کا قول ہے’’بیکنگ کو اِتنا بھی معمولی نہ سمجھیں۔ یہ وقت، درجۂ حرارت اور اجزا (INGREDIENTS) کا ایک ایسا محبّت بَھرا حَسین امتزاج ہے، جو منہ کے راستے دل میں اُتر جاتا ہے‘‘۔ اِسی لیے گمان یہی ہے کہ یہ فن بیکریوں کی صورت ابھی مزید لوگوں کے دِلوں میں گھر کرے گا اور آئے روز نئی نئی بیکریاں کُھلتی رہیں گی اور جہاں بچّوں سے لے کر بوڑھوں تک، ہر شخص اپنی مَن پسند ڈیمانڈ کرتا نظر آئے گا۔
روم :بیکری کا پہلا گھر
ماہرین کے مطابق جس روز انسان نے کرّۂ ارض پر گندم کاشت کرنا شروع کی، اُسی روز سے بیکری وجود میں آگئی، کیوں کہ پتھروں سے پِسے آٹے کی روٹی کے علاوہ دیگر کئی اجناس خوراک کا حصّہ بن گئیں۔ تاریخ میں مصدّقہ طور پر دنیا کی سب سے پہلی باقاعدہ بیکری کا وجود300ق-م میں روم میں ملتا ہے، جس کے بعد یہ فن یورپ اور ایشیا کے مشرقی حصّوں میں پھیل گیا۔ اس زمانے میں بیکنگ کا فن روم میں بہت محترم سمجھا جاتا تھا۔ یہاں بنی اشیاء دعوتوں، میلوں ٹھیلوں اور تہواروں میں پیش کی جاتیں۔ یورپ میں پہلی اوپن ایئر بیکری فرانس میں قائم ہوئی اور امریکا میں 1928ء میں پہلی بار بریڈ کے سلائس بنانے والی مشینز ایجاد کی گئیں۔
مغلئی کھانوں کو چیلنج
برّصغیر میں انگریزوں نے اپنی ثقافت اور غذائی عادات متعارف کروائیں، تو ان میں بریڈ کے علاوہ دیگر اشیاء بھی شامل تھیں، لیکن جلد ہی ڈبل روٹی، کیک پیسٹری اور بسکٹس وغیرہ کے ساتھ برٹش اور انڈین ڈشز کے ملاپ سے اینگلو انڈین کوزین وجود میں آگیا، جب کہ دونوں اقوام کی مخصوص ڈشز کے ملاپ سے کئی کھانے وجود میں آئے، تاہم مغلئی کھانوں کو پسندیدگی حاصل رہی۔ انگریز بھی جلد ہی انڈین کھانوں کے رسیا ہوگئے، جس کے نتیجے میں لندن میں پہلا ریسٹورنٹ 1809ء میں’’ہندوستانی کافی ہائوس‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا۔ یہاں پیش کیے جانے والے کھانوں میں چاول، مرچ مسالوں اور چٹنیوں سے مزیّن دوسری ڈشز شامل تھیں۔
تاریخی ریکارڈ کے مطابق رائل بسکٹ فیکٹری، انڈیا کی پہلی بیکری تھی، جو صرف انگریزوں کے لیے فوڈ آئٹمز تیار کرتی۔ دوسری کولکتہ میں قائم کی گئی، جہاں بریڈ کیک اور بسکٹس فروخت ہوتے، جو ہندوستانیوں کے لیے ایک اجنبی چیز تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ پورے برّصغیر اور پھر تقسیم کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی بیکریوں کا جال بچھ گیا۔بعدازاں، برّصغیر کے ساتھ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی یہ بزنس تیزی سے ترقّی کرنے لگا۔ 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں بیکری بزنس کا مجموعی حجم497ارب ڈالرز کے قریب ہے اور اِس وقت اسکاٹ لینڈ کو دنیا میں’’Land of Cakes ‘‘ کا اعزاز حاصل ہے۔