امریکہ کے قومی دن کے حوالے سے امریکی سفیر نے ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف، جسٹس قاضی فائز عیسی، ڈاکٹر توقیر شاہ سمیت مختلف شخصیات اور ان سطور کا راقم بھی اس تقریب میں موجود تھا۔ وہاں جو گفتگو رہی اس سے ایک نتیجہ بآسانی کشید کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنے مشکل دور سے گزرنے کے باوجود مقتدر شخصیات اس حوالے سےپر یقین ہیں کہ وطن عزیز ان حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور وہ اپنی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے ان حالات سے جلد گلو خلاصی بھی حاصل کر لے گا اور جو منفی اثرات گزشتہ چند سال میں مرتب ہوئے ہیں ان سے جلدی چھٹکارا بھی پالے گا ۔ اس تقریب کا اہتمام پاکستان کے آئی ایم ایف سے معاہدے اور بائڈن مودی ملاقات کے اعلامیہ کے بعد ہو رہا تھا اور لامحالہ شرکائے محفل کی گفتگو میں ان دونوں امور کو مرکزیت حاصل تھی ۔ آئی ایم ایف کے کڑے رویے اور مشترکہ اعلامیے میں کیا کڑیاں مشترک ہیں اس پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا جا رہا تھا ۔ایک بہت مضبوط تاثر موجود ہے کہ اس تمام صورتحال کو سمجھنے کی غرض سے پاک چین تعلقات ،جو سی پیک کے بعد فوجی ، معاشی اور اسٹرٹیجک تینوں بندھنوں میں مضبوطی کے ساتھ بندھ گئے ہیں ،پر مغربی دنیا کےزاویہ فکر کو پرکھنا بہت ضروری ہے ۔پاکستان کے اعلیٰ ترین حلقوں میں اس ضرورت کا شدت سے احساس کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کو یہ باور کروایا جائے کہ چین کے پاکستان سے تعلقات ان کے خلاف نہیں اور نہ ہی پاکستان اس پر یقین رکھتا ہے کہ اس کو کسی کے خلاف بھی صف آرا ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے دو ہی مسائل ہیں ۔ اول تو آزادی کے وقت سے بھارت نے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے سنگین خطرات پیدا کر دیے اور وہ خطرات فوجی حوالے سے یا پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی صورت میں بار بار سامنے آتے رہتے ہیں۔ جب کہ دوسرا مسئلہ ملک میں غیر انسانی زندگی سے انسانی زندگی تک کا سفر اور غربت کو خیر باد کہنے کا ہے ۔ ان دونوں امور کے حوالے سے پاکستان کیلئے چین کا تعاون حاصل کرنا ناگزیر ہے اور مغرب کو اس بات کا ادراک کرنا چاہئے۔ پاکستان میں امریکہ اور چین سے تعلقات میں ایک توازن برقرار رکھنے کی خواہش اس حد تک ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف گزشتہ ایک سال میں دو بار امریکی سفارت خانے کی تقاریب میں بطورِ مہمان خصوصی تشریف لائے ۔ ان دونوں مواقع پر وزیراعظم نے چین پاکستان تعلقات پر اپنے خیالات کے حوالے سے گفتگو کو مرکزی حیثیت دی اور انہوں نے چین کے حوالے سے باور کروایا کہ چین نے پاکستان کی حالیہ توانائی بحران میں بھی کس طرح اور کس حد تک مدد کی ہے اور پاکستان چین تعلقات کی جہات کیا کیا ہیں ۔ امریکی سفارت خانے میں کھڑے ہو کر چین کے حوالے سے گفتگو کرنا اس قومی پالیسی کا مظہر ہے کہ پاکستان چین سے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک امر لازم گردانتا ہے اور اس حوالے سے اس کی ایک طے شدہ پالیسی ہے ۔ پاکستان بین الاقوامی سیاست اور حالات سے مکمل طور پر باخبرہے اور اسی لئے وہ چین اور امریکہ سے اپنے تعلقات میں توازن کو برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔ پاکستان کا امریکہ سے مسئلہ صرف یہ ہو گیا ہے کہ پاکستان میں یہ خیال بہت قوی ہے کہ جب سوویت یونین افغانستان سے رخصت ہوا تو اس کے فوری بعد امریکہ نے اس جنگ کے نتائج بھگتنے کیلئے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا حالانکہ میدان جنگ میں دونوں مشترکہ طور پر موجود تھے بلکہ پریسلر ترمیم جیسے اقدامات ہمارے تعلقات کا منہ چڑانے لگے ۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا 9/11 کا سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ پاکستان نے دوبارہ امریکہ کا ساتھ دیا مگر کچھ عرصے کے بعد ہی ڈو مور ،ڈو مور کی گردان سنائی دینے لگی۔ ایسا انداز اختیار کر لیا گیا کہ جیسے افغانستان میں جو ہو رہا ہے اس کا سبب پاکستان ہے حالانکہ بدترین نتائج آج بھی پاکستان ہی سب سے زیادہ بھگت رہا ہے ۔ پھر امریکہ اور مغرب کی جانب سے دہشت گردی کی شناخت اور اقدامات بھی کئے جانے لگے بھارت کشمیر سمیت اپنی مختلف ریاستوں میں فوجی طاقت کا بے دریغ استعمال کر کے شہریوں پر بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، دوسرے ممالک میں دہشت گردی کروا رہا ہےکیا کسی کو کلبھوشن سے زیادہ بھی کوئی ثبوت چاہئے ؟ آج کل یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ بھارت لداخ میں عسکری کیمپس چلا رہا ہے تاکہ ان کو چین کے خلاف استعمال کر سکے اور جب چین ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے تو دنیا بھر اور بالخصوص پاکستان میں یہ واویلا مچایا جائے کہ چین میں مسلمانوںپر بہت ظلم ہو رہا ہے اور پاک چین تعلقات بالخصوص سی پیک کی راہ میں مزید روڑے اٹکائے جائیں۔ مگر کلبھوشن سے لداخ میں عسکری کیمپس چلانے تک مغرب، مغربی میڈیا چپ سادھے بیٹھا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنی ضروریات اور ان دونوں ممالک کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں سے تعلقات کو علیحدہ علیحدہ ڈیزائن کرے اور پھر ان کے تحت ہی تعلقات کی بنیادوں کو استوارکرے کیونکہ توازن صرف ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ ان دونوں ممالک کے بھی مفاد میںہے، توازن برقرار رکھنے کی منزل مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔