پاکستان کے لئے بالآخر IMFنے اپنی کڑی شرائط اور امریکہ کی کچھ علانیہ اور کچھ غیرعلانیہ رضا مندی کے پس منظر میں 3ارب ڈالر کے 9ماہ کی قلیل مدت کے قرضے کی منظوری دیدی ہے، اِسی پر اسلام آباد کی حکومت اور PDMکی قیادت خوشی سے پھولے نہیں سما رہی جبکہ پاکستانی قوم کو حقیقت میں اندازہ نہیں بلکہ ہماری قوم کو پتہ ہی نہیں کتنے معاشی مسائل اور مشکلات کے پہاڑ عبور کرنے ہوں گے ، اِس قرضہ کے لئے سعودی عرب ، یو اے ای کی برادرانہ سپورٹ کے بعد ہی IMFنے اس قرضے کی منظوری دی ہے ، جو ایسے لگتا ہے کہ اِس قرضہ کی مدت کے دوران پاکستان میں 3حکومتوں کا دور شامل ہو گا ، مثال کے طور پر اگر موجودہ حکومت واقعی بقول وزیراعظم شہباز شریف کے 14اگست کو ختم ہو جاتی ہے تو پھر آئینی طور پر 3ماہ کی نگران حکومت اور پھر اس قرضہ کی واپسی کی مدت کے وقت تیسری منتخب حکومت ہو گی، بشرطیکہ سب چیزیں اپنے شیڈول کے مطابق ہوں، لیکن اگر الیکشن کمیشن حالات کی بنیاد پر الیکشن کے لئے ساز گار حالات کا سگنل نہیں دیتا تو پھر موجودہ حکومت ہی کو قرضے کی واپسی کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا، IMF قرضہ کے لئے موجودہ حکومت اور خاص کر ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی کوششوں کو بڑا دخل حاصل ہے ، یہ بات اب سب کو تسلیم کرنا پڑے گی کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہمارے اور خاص کر برادر اسلامی ممالک سعودی عرب، دبئی ، قطر ، بحرین سمیت سب جی ایچ کیو کے ساتھ معاملات کرتے وقت زیادہ مطمئن ہوتے ہیں ، بہر حال حکومت کو مبارک ہو کہ IMFکے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں ، اب قومی سطح پر ہم سب کو سوچنا یہ ہے کہ آخر قرضوں کی واپسی کے لئے بھی قرضہ لینے پر ہم کب تک چلتے رہیں گے، کیا ہم اپنی اقتصادی پالیسیوں میں ایسی اصلاحات نہیں لا سکتے جن پر خود انحصاری کے ساتھ عمل کرتے ہوئے غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار کم ہو سکے ،ایسے حالات کے لئے نگران سیٹ اپ کے وقت کم از کم ایسی قیادت کو لانےکی ضرورت ہونی چاہیے کہ جو عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بہتر طریقے سے معاملات اعتماد اور خود داری سے چلا سکے، اِسی لئے IMFکے منظور شدہ نوٹ میں ریاست اور حکومت سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ طے شدہ پالیسیوں پر عمل درآمد کرے گی ، اس سلسلے میں قومی سطح پر اداروں کو مضبوط بنانے اور کفایت شعاری کے جذبے کے فروغ کے لئے پارلیمنٹ سے آغاز کرنے کی ضرورت ہے ، اِس کے لئے صرف ٹیکس اصلاحات سے ہمارے ملک میں اربوں روپے کی آمدنی میں اضافہ کر کے سوشل سیکٹر خاص کر تعلیم ، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے ، IMFکے نئے قرضہ کی منظوری سے حکومت اس کارڈ کو یقینی طور پر آئندہ الیکشن میں استعمال کرے گی، لیکن حکومت کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ عوام کو اب کسی تکلیف میں ڈالنے کی بجائے اخراجات میں کمی اور رشوت یا کرپشن کے خاتمہ کے لئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی سوچ ترک کر کے عوام کو قابل قبول ریلیف دینے کی حکمت عملی تیار کرنا ہو گی ، ورنہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ پا کستان میں عوام ہر طرح کے سیاسی قائدین اور جماعتوں کی کارکردگی سے مایوس ہو جائیں ، اور عالمی ادارے اپنی مرضی سے ریاستی نظام کا خاکہ بھی دینا شروع کر دیں ، اِسی لئے ہمیں اندرونی نظام اور حالات کو ٹھیک کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی اور سوچنا ہو گا، اب غیر ملکی قرضوں پر نہیں ، اپنی قومی ترقی پر فخر کریں، اور قوم کو بھکاری بنانے کی بجائے خوددار اور خوشحال قوم بنائیں ، جس کا خواب بانی پاکستان قائد اعظم نے دیکھا تھا، اور علامہ اقبال نے اس کا تصور پیش کیا تھا، جبکہ اس کے بعد تقریباََ ہر دور میں یہ سلوگن صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ، ہمیں پاکستان اور نئی نسل کو خوددار بنانے کے لئے اپنی خواہشات اور ضروریات کی قربانی دینا ہو گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)