مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
سمیع صاحب گورنمنٹ کالج مَری میں میرے کلاس فیلو تھے۔ ہم نے وہاں سے اکٹھے بی ایس سی کیا۔ اس کے بعد مَیں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوگیا،تو سمیع صاحب سے میرا رابطہ منقطع ہوگیا۔ پھر مدتِ ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرمنٹ کے بعد مَیں اسلام آباد سے اقبال ٹائون، راول پنڈی شفٹ ہوا، تو سمیع صاحب سے35سال بعد اتفاقیہ ملاقات ہوگئی۔ اپنے ادارے سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے بھی وہیں رہائش اختیار کرلی تھی، جس کے بعد سے تقریباً12سال سے مسلسل ایک ہی محلّے میں مقیم تھے۔
سمیع صاحب اپنی تینوں بیٹیوں کے فرائض سے سبک دوش ہوچکے تھے، جب کہ سب سے چھوٹا بیٹا، ایم بی اے کرنے کے بعد ایک نجی ادارے میں ملازمت کررہاتھا۔ ایک روز اچانک اُس کی شادی ہوجانے کی اطلاع ملی۔ یہ خبر میرے لیے بڑی حیرت کا باعث تھی، کیوں کہ نہ تو پہلے سے کوئی رشتہ طے تھا، نہ ہی سمیع صاحب نے کبھی اُس کی شادی کا کوئی ذکر کیا تھا۔ دوسرے روز مسجد میں جب اُن سے ملاقات ہوئی اور میں نے اس اچانک شادی سے متعلق پوچھا، تو کہنے لگے۔ ’’گھر چلتے ہیں، چائے بھی پئیں گے اور تفصیل سے بات بھی ہوگی۔‘‘ گھر پہنچ کر انہوں نے اس اچانک شادی کا جو احوال سنایا، اُن ہی کی زبانی سنیے۔
’’ایک شام میں کچھ رقم نکلوانے کے لیے اپنے بیٹے شاہد کے ساتھ قریبی بینک گیا۔ بینک اسی سڑک کے اختتام پر کرمی روڈ کے بالکل ساتھ ہے، اطراف میں فرنیچر کی بہت سی دکانیں ہیں۔ اے ٹی ایم بوتھ پر پہلے ہی سے کچھ لوگ اپنی باری کے منتظر تھے۔ ہم باپ، بیٹا بھی اُن کے پیچھے لائن میں کھڑے ہوگئے۔ معاً میری نظر فرنیچر کی ایک دکان پر پڑی، وہاں ایک صاحب اپنی بیوی، ایک لڑکی اور دو لڑکوں کے ساتھ فرنیچر کا معائنہ کررہے تھے۔ اس شخص کی عُمر پچاس، پچپن اور لڑکی اٹھارہ، بیس سال کے لگ بھگ ہوگی۔ دونوں لڑکے، لڑکی سے چھوٹے تھے، وہ فرنیچر دیکھنے میں مشغول تھے۔
لڑکی کے معصوم چہرے پر خوشی اور حیا کے اظہار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ فرنیچر اُسی کے جہیز کے لیے پسند کیا جارہا ہے۔ اُن کے وضع قطع اور لباس سے متوسّط طبقے سے تعلق کا اظہار ہورہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے اپنے بیٹے سے کہا۔ ’’بیٹا! مجھے لگتا ہے کہ سامنے دکان پر موجود فیملی اس بچّی کے جہیز کی خریداری کے لیے آئی ہے، شاید انھیں کوئی مسئلہ درپیش ہے، ہوسکتا ہے کہ لڑکے والوں کی لالچ اور بے حسی کی وجہ سے اس شخص کو اپنی بیٹی کی خاطر اپنی تمام جمع پونجی ان لوازمات اور فضول رسومات کی نذر کرنی پڑرہی ہو۔ اے کاش! لوگ بیٹی والوں کا کچھ احساس کرلیا کریں۔‘‘
میری بات سن کر بیٹے نے افسوس کا اظہار کیا اور دُکان کی طرف دیکھا، تو وہ اسی طرح فرنیچر کے معائنے میں مشغول تھے، چند لمحے بعد لڑکی کا باپ موبائل فون پر کسی سے گفتگو میں مصروف نظرآیا۔ اُس کے چہرے پر پریشانی کے اثرات نمایاں تھے۔ تھوڑی دیر بعد فون بند کرکے اپنی بیوی کے پاس آیا اور اُس سے کچھ کہا، تو وہ بھی پریشان نظر آئی۔ لڑکی جو ایک ڈریسنگ ٹیبل دیکھنے میں مگن تھی، اُس نے اپنی ماں اور باپ کو اس طرح پریشان کھڑے دیکھا، تو سب کچھ چھوڑ کر اُن کے قریب چلی آئی اور سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے ماں سے کچھ پوچھا، ماں نے بیٹی کو ایک طرف لے جاکر کچھ بتایا، تو وہ اپنی ماں کو حیرت اور پریشانی سے تکنے لگی۔ کچھ لمحے پہلے مَیں لڑکی کے معصوم چہرے پر جو آس و امید اور خوشی کی چمک دیکھ رہا تھا، وہ تقریباً ماند پڑ چکی تھی۔ ماں، بیٹی کی طرف پلٹی اور پیار سے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ کہا، تو بچّی نے مایوسی سے سر جھکالیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دوپٹّے سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ یہ منظر دیکھ کر مَیں تڑپ اٹھا۔ مَیں نے اُن کے پاس جاکر ان کی پریشانی کی وجہ معلوم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اتنے میں اے ٹی ایم بوتھ پر ہماری باری آگئی، تو مَیں نے جلدی سے اے ٹی ایم کارڈ بیٹے کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم پیسے نکلوائو، میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں فوراً اُن کے پاس پہنچ گیا اور لڑکی کے والد سے مخاطب ہوکر کہا، ’’بھائی! ویسے تو میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں اور نہ ہی مَیں آپ سے کچھ پوچھنے کا حق رکھتا ہوں، صرف انسانیت کے ناتے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دس، پندرہ منٹ سے آپ لوگ اس دکان میں موجود ہیں، پہلے آپ لوگوں کے چہرے اور انداز سے خوشی جھلک رہی تھی، لیکن پھر یکایک اُداسی دیکھ کر آپ کے پاس آنے پر مجبور ہوگیا۔
میرا خیال ہے کہ آپ اس بچّی کے لیے فرنیچر دیکھ رہے تھے۔ مَیں بھی تین بیٹیوں کا باپ ہوں اور عُمر میں آپ سے بہت بڑا ہوں۔ اپنا بڑا بھائی سمجھتے ہوئے خدا کے لیے مجھے صرف اتنا بتادیں کہ اس بچّی کی آنکھوں میں آنسو کیوں آئے ہیں۔‘‘میرے اس طرح ایک ہی سانس میں پوچھے جانے والے سوالات پر اُس نے حیرت و استعجاب سے میری طرف دیکھا اور بے یقینی کے انداز میں بولا۔ ’’نہیں، کوئی بات نہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’کوئی بات ضرور ہے، اگر میں آپ سے پوچھے بغیر یہاں سے چلا گیا، تو میرے دل میں ایک خلش رہے گی اور ضمیر پر بھی بوجھ ہوگا کہ میں اپنی بیٹی کو پریشانی کی حالت میں چھوڑ کر آگیا۔‘‘
میرے ہم دردی کے دو بول اُس کے دل پر اثر کرگئے اور اس نے حقیقتِ حال سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا، ’’ہماری بیٹی کا رشتہ پچھلے ماہ ہی طے ہوا ہے، رشتہ طے ہوتے ہی لڑکے والے شادی کی جلدی کرنے لگے، تو ہم نے بھی ہامی بھرلی اور اس سلسلے میں آج ہم یہاں فرنیچر پسند کر ہی رہے تھے کہ اسی دوران لڑکے کی ماں کا فون آگیا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ جہیز کے غیر ضروری سامان میں کچھ ردّوبدل کرکے اس کی جگہ موٹر سائیکل دے دیا جائے، تو زیادہ مناسب رہے گا۔‘‘ لیکن اس منہگائی میں موٹر سائیکل دینا ہمارے لیے ممکن نہیں، اگر گنجائش ہوتی، تو اپنی بیٹی کی خاطر ضرور دے دیتے۔‘‘ اس پر مَیں نے کہا کہ ’’انسان کے طرزِ عمل سے اُس کی فطرت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ آپ اللہ کا شکر ادا کریں کہ وقت سے پہلے ہی اُن لوگوں کے باطن کا خبث ظاہر ہوگیا۔ وہ لوگ ٹھیک نہیں ہیں۔
شادی کے بعد آپ کی بیٹی کو پریشان کریں گے اور اُس وقت آپ کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ ابھی وقت ہے، اللہ پر بھروسا اور توکّل کرتے ہوئے کوئی بہتر فیصلہ کریں اور اپنی بیٹی اور خود کو عُمر بھر کے روگ سے بچائیں۔‘‘ پھر میں نے اُن کی بیٹی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! یہ لوگ آپ کے قابل نہیں، آپ بالکل پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں بہتر کرے گا۔‘‘ میرے تسلّی دینے پر وہ قدرے مطمئن نظر آئے۔ پھر اُن کا نام اور پتا پوچھا، تو انہوں نے اپنا نام اسلم اور رہائش بالکل قریب کرمی روڈ پر بتائی۔ چلتے وقت میں نے کہا کہ ’’کل شام کو میں اپنی اس بیٹی کی دل جوئی کے لیے آپ کے گھر آئوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر گھر آگیا اور بیگم کو تمام واقعہ سنایا، تو اسے بھی بہت دکھ اور افسوس ہوا۔ میں نے کہا، ’’دیکھو! ہمیں اپنے بیٹے کی شادی کے لیے لڑکی ڈھونڈنی ہے۔ معلوم نہیں، کیسی ملے۔ وہ لڑکی مجھے بہت اچھی لگی۔ ماں، باپ بہت سادہ اور شریف ہیں، رشتے کے لیے یہی چیزیں دیکھی جاتی ہیں، ہمیں جہیز کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ نعمت مل رہی ہے، تو ہمیں ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ اگر تم چاہو، تو ہم اس لڑکی کا رشتہ مانگ لیتے ہیں۔ اس نیکی سے یقیناً اللہ بھی راضی ہوگا۔‘‘ میرا بیٹا شاہد چوں کہ لڑکی کو دیکھ چکا تھا۔ اس لیے وہ بھی بخوشی راضی ہوگیا۔ میری بیوی بھی رضامند ہوگئی۔
اگلے روز عصر کے بعد میں اپنی اہلیہ کے ساتھ اُن کے گھر پہنچ گیا۔ اسلم صاحب اور اُن کی بیگم ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور عزت سے بٹھایا۔ کچھ دیر بعد اُن کی بیٹی نے بھی آکر ہمیں سلام کیا، تو میری بیگم نے شفقت سے اسے پیار کیا اور دعائیں دیں۔ بات چیت شروع ہوئی اور ایک دوسرے کا تعارف ہوا، تو معلوم ہوا کہ اسلم صاحب ایک سرکاری ادارے میں گریڈ11کے ملازم ہیں۔ بیٹی بی اے کا امتحان دے چکی ہے اور اب رزلٹ کا انتظار ہے۔ پھر اسلم صاحب نے بتایا کہ ’’کل آپ کی باتیں ہمارے دل کو لگیں اور ہمیں یقین ہوگیا، جن لوگوں سے ہم اپنی بیٹی کا رشتہ طے کربیٹھے تھے، وہ لوگ ٹھیک نہیں ہیں، لہٰذا ہم نے خود فون کرکے اس رشتے سے انکار کردیا۔‘‘
اسلم صاحب سے حقیقتِ حال جاننے کے بعد مَیں نے اُن سے اور اُن کی اہلیہ سے مخاطب ہوکر کہا، ’’بھائی! اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے، ہماری بھلائی کے لیے کرتا ہے، ہم بہت محبّت اور چاہت سے اپنے بیٹے کے لیے آپ کی ہیرے جیسی بیٹی مانگتے ہیں۔ اگر آپ اس رشتے پر راضی ہوجائیں، تو اسے ہم اپنی خوش نصیبی سمجھیں گے۔‘‘ یہ سن کر دونوں میاں، بیوی حیرت اور بے یقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ میری بیگم اپنی جگہ سے اٹھیں اور لڑکی کے پاس جاکر اُسے گلے لگالیا اور اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تو ہماری شہزادی ہے، خدا کے لیے انکار کرکے ہمیں مایوس مت کیجیے گا۔‘‘
ہماری پرخلوص پیش کش پر اسلم صاحب اپنی جگہ سے اٹھے اور مجھ سے بغل گیر ہوتے ہوئے کہا، ’’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس پریشانی کے بعد اللہ تعالیٰ ہمیں اتنی جلد اتنی بڑی خوشی دے گا۔ یہ اللہ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ ہماری بیٹی کو آپ جیسے محبت والے لوگ ملے۔‘‘ پھر آپس کی گفت و شنید کے بعد جلد ہی تمام معاملات بھی طے پاگئے۔ دوسرے دن عصر کے بعد مسجد میں سادگی سے نکاح ہوا اور اُسی روز رخصتی بھی ہوگئی۔ اگلے دن ولیمے کی تقریب میں صرف ہم دونوں گھرانوں کے چند قریبی رشتے داروں نے شرکت کی۔ اس طرح اچانک ہی میرے بیٹے کی شادی ہوگئی اور جہاں تک میری بہو کی بات ہے، تو وہ انتہائی نیک، پاکیزہ اور خوب سیرت ہے۔ اُس نے اپنی محبّت اور خدمت سے سب کے دل جیت لیے ہیں۔ شاہد بھی بہت خوش ہے۔ میری بیگم اور بیٹیاں اس پر جان چھڑکتی ہیں۔ وہ گھر کی رونق اور ہماری آنکھوں کا تارا ہے۔ گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ ہمارے رشتے دار اور ملنے والے سب ہی اُس کی بے پناہ تعریف کرتے ہیں۔‘‘
سمیع صاحب کے اخلاص اور بے غرضی کے اس واقعے کو سن کر مجھے یقین ہوگیا کہ اُن کے گھر کا چین، سکون اور باہمی الفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کی نیک نیتی کا وہ انعام ہے، جس سے خودغرض لوگ ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ (محمد جاوید، اقبال ٹاؤن، راول پنڈی)
سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔
ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔
٭ حق مارنے والوں کا انجام (رحما اشفاق ، لاہور)۔٭آپ ہی سے کچھ کہنا ہے (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی ، میرپورخاص)۔٭علم کا سفر (ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا، سبزہ زار ، لاہور)۔٭بھوت (بشیر احمد بھٹی، فوجی بستی غربی، بہاول پور)۔٭توبہ (زاہد عباس، فیڈرل بی ایریا، کراچی)۔٭قدرت کا قانون +تعظیم(محمد جاوید اقبال، وحد ت کالونی، لاہور)۔٭ آزادی کی قیمت(ملک محمد اسحاق راہی، صادق آباد)۔ ٭محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی (ایم آر شائق، کمال آباد، راول پنڈی)۔٭ سچّا واقعہ (جاوید محسن ملک، اسلام آباد)۔
٭یومِ اعلانِ پاکستان+عجائباتِ عالم (بابر سلیم، لاہور)۔٭ پہلے یومِ تکبیر پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو(ایم مشتاق احمد بھٹی، کراچی)۔ ٭کوئی ہے مانگنے والا (ایمن علی منصور)۔ ٭قدرتی وسائل کی حفاظت کس طرح کی جائے (رابعہ فاطمہ)۔٭ذی شعور اور عادل حکم ران غریب رعایا کی قسمت سنوارتا ہے (ڈاکٹر ظفر فارورقی، گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج، نشتر روڈ، کراچی)۔ ٭سعودی حکم رانوں سے اپیل(پروفیسر حکیم سیّد صابر علی، جلال پور جٹاں، گجرات)۔ ٭ہم کہاں اور کیوں جارہے ہیں +لیبر ڈے اور 22کروڑ غریب و مفلس عوام(محمد شاہد اعجاز، گل زار ہجری، زینت آباد، کراچی)۔ ٭سوئی گیس (مرلی چند گھوکلیہ، اولڈ صدر بازار، نئی بلڈنگ، شکارپور)۔ ٭9مئی.....یومِ سیاہ (محمد عارف قریشی، فرنیچر مارکیٹ، بھکر)۔٭ شعبان کی فضیلت، معجزۂ معراج النبیؐ+ اعتکاف کی فضیلت، کچّے کے ڈاکوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن (رانا اعجاز حسین)۔ ٭غصّہ انسانی شخصیت کی بنیادی خامی+ شعبان المعظم+ہمہ گیر و بے نظیر مذہب اسلام میں جانوروں کے حقوق (مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی، مانسہرہ)۔٭ شبِ قدر کی فضیلت، یومِ شہادت سیّدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ (مولانا محمد عمر قاسمی)۔ ٭ افغانستان میں خواتین کے تجارتی مراکز اور دو رُخی پالیسی (عبدالصبور شاکر فاروقی)۔ ٭اعتکاف (نصرت مبین)۔ ٭ منشیات کا خوف ناک پھیلاؤ (رفیع احمد، کراچی)٭ فتحِ مکّہ (صبا احمد)۔ ٭ دارالعلوم دیوبند مدرسہ نہیں، تحریک کا نام ہے (عبدالجبار سلہری، ظفروال)۔ ٭ حضرت مولانا شیخ کبیر الدین (نازیہ آصف)۔٭والدین (رابعہ سلیم)۔٭ کام یابی کی قیمت+اولاد کے حقوق (دانیال حسن چغتائی، کہروڑ پکّا)۔٭ وہ جو ہم نے بھلا دیا (ایمن سعید)٭ منظوم خلاصہ، خطبہ حجتہ الوداع (ارسلان اللہ خان)۔ ٭ جنگلی حیات کی موثر بقا (مرزا محمد رمضان)۔ ٭نجی اورسرکاری اسپتال +نجی اور سرکاری مدارس، ایک تقابلی جائزہ (ذوالفقار علی، صدائے علی)۔ ٭حضرت مولانا شیخ کبیر الدین شاہ دولہ قدس سرا (نازیہ آصف) ٭پڑھ اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا (اسماء نور)۔ ٭یہ بچّے بھی ناں+یہ رشتہ اَن مول ہے (مبشرہ خالد)۔ ٭فرعونِ مصر (مدثر اعجاز، لاہور)۔