مصنّفہ: سعدیہ قریشی
صفحات: 168، قیمت: 1000 روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔
فون نمبر: 0515101 - 0300
نئے ہزاریے کے آغاز کے بعد اردو پرنٹ میڈیا میں سامنے آنے والی خواتین کالم نگاروں میں سعدیہ قریشی کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔اردو صحافت میں سعدیہ قریشی نے بہت قلیل عرصے میں بہت توانا اور پائے دار سفر طے کیا ہے۔ اُنھوں نے اسلامیہ یونی ورسٹی،بہاول پور سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کے بعد روزنامہ جنگ، لاہور سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا اور شعبۂ صحافت کی کم و بیش سب ہی شاخوں میں خدمات انجام دیں۔ کالم نگاری کی ابتدا بھی یہیں سے کی۔ جنگ، میگزین کے لیے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی متعدّد شخصیات کے انٹرویوز کیے۔ یعنی وہ تمام امور سرانجام دئیے، جو صحافت کا حصّہ ہیں۔
زیرِ نظر کتاب اُن کے کالمز کا مجموعہ ہے، جس میں اُن نابغۂ روزگار شخصیات کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے، جنہوں نے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے اور اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اگر اِس کتاب کو’’یادوں کا دبستان‘‘ کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ اِس میں جن شخصیات کا تذکرہ ہے، اُن میں مولانا عبدالستار ایدھی، نیلسن منڈیلا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سیّد علی گیلانی، بے نظیر بھٹّو، مشتاق احمد یوسفی، قراۃ العین حیدر، ارشاد احمد حقّانی، گارشیا مارکیز، مُنو بھائی، انتظار حسین، محمّد طفیل، یاسین وٹو، بانو قدسیہ، دلیپ کمار، احمد فراز، ضیا محی الدّین، منیر نیازی، عبداللہ حسین، مسعود اشعر، امجد اسلام امجد، عارف نظامی، بلقیس ایدھی، طارق عزیز، بشریٰ رحمان، ڈاکٹر اجمل نیازی، نیّرہ نور، روحی بانو، اسلم کولسری، نثار ناسک، اشتیاق احمد، افضل توصیف، ثمینہ راجا، جنید جمشید، دینا جناح، شفیق مرزا، آزاد کوثری اور مظفّر محمّد علی شامل ہیں۔
یوں کہیے، اِس کہکشاں نے کتاب کو ایک تاریخی دستاویز بنا دیا ہے۔سعدیہ قریشی شخصیت پرست نہیں، اقدار پرست اور انسان دوست ہیں۔ اُن کے مؤثر تخلیقی تاثرات اور دل پذیر شخصی و عمومی یادداشتوں کا موضوع بننے والی اِن رنگا رنگ شخصیات کے درمیان ایک قدرِ مشترک بھی ہے، وہ یہ کہ اِن سب کی تہذیبی اور اقداری قدر ومنزلت بے پناہ ہے۔افتخار عارف کی اِس جامع رائے سے بھی سعدیہ قریشی کی صحافیانہ حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ’’اردو صحافت میں نسیمہ بنتِ سراج، بشریٰ رحمٰن اور زاہدہ حنا کے بعد سعدیہ قریشی کی تحریریں صحیح معنوں میں کالم کی تعریف پر پوری اُترتی ہیں اور کتاب کی صُورت میں عناصرِ ترکیبی کے سبب بجا طور پر خالصتاً ادب کے زمرے میں بھی شمار ہوتے ہیں۔
سعدیہ قریشی تحریر کو اپنے مرکز کے اطراف بہت خُوب صُورتی سے پھیلاتی، موضوع کے تانے بانے بُنتی، سنوارتی، سنبھالتی اور اختتام تک لے جاتی ہیں۔‘‘سعدیہ قریشی کا اِن تحریروں کو ایک کتاب کی صُورت دینا بلاشبہ ایک اہم کام ہے،جو آنے والی نسلوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ قارئین کو اِس ایک کتاب میں کئی کتابوں کا لُطف آئے گا۔ مصنّفہ کا اصل میدان ادب اور صحافت ہے، لیکن اُنہوں نے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات پر بھی جَم کر لکھا ہے، جس سے اُن کی ذہانت و فطانت اور وسیع مطالعے کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔نیز،’’ ٹپ آف دی آئس برگ‘‘ کے عنوان سے سعدیہ قریشی کا ابتدائیہ بھی نہایت معلومات افزا ہے، جب کہ افتخار عارف، ڈاکٹر معین نظامی، ہارون الرشید اور علّامہ عبدالستار عاصم کے مضامین نے بھی کتاب کا حُسن دو آتشہ کر دیا ہے۔