نظیر فاطمہ، گوپال نگر، گلبرگ،لاہور
دہلی کے اندرون میں قائم یہ ایک بڑی سی قدیم حویلی تھی، جس کی نچلی منزل ایک بڑا سا دروازہ کُھلنے پر شروع ہوتی، پھر ایک بڑا سا صحن اور اس کے ساتھ ہی کمرے بنے ہوئے تھے۔ دوسری منزل پر کمروں کے اطراف کشادہ صحن تھا، جس کے چاروں طرف سیاہ منڈیر تھی، جس پر کبوتر بیٹھے رہتے۔بڑا دروازہ کُھلتے ہی سارے گھر کا نقشہ سامنے آجاتا۔حویلی میں بی امّاں اپنے تین بیٹوں،ایک بیٹی(اسد، حیدر، عرفان، عالیہ) اور ساس، سُسر کے ساتھ رہتی تھیں،جب کہ بڑی بیٹی، بتول کی اسی سال شادی ہوئی تھی۔ویسے بی امّاں کا نام توشہناز بی تھا، مگر بتول نے بولنا سیکھا، تو دادی نے بی امّاں کہنا سکھادیا، بس تب ہی سے وہ جگت بی امّاں ہوگئیں۔اُن کے سُسر بے حدشفیق اور علی گڑھ سے فارغ التّحصیل تھے۔
ساس گھریلو اُمور میں طاق ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھنا لکھنا بھی جانتی تھیں۔ شہناز کے سگھڑاپے میں ساس ہی کا ہاتھ تھا کہ 13برس کی عُمر میں تو بیاہ کر آگئی تھیں۔ دو جیٹھ اور تین دیور ملازمت،کاروبار کے سلسلے میں ہندوستان کے دیگر شہروں میں مقیم تھے۔ چار نندیں تھیں، دو کراچی اور دو لکھنو بیاہی ہوئی تھیں۔ ایسے میں صرف بی امّاں ہی ساس سُسر کے ساتھ تھیں کہ ان کے شوہر دہلی میں تجارت کرتے تھے۔
صبح کا نور دھیرے دھیرے روشنی کا رُوپ دھار رہا تھا۔’’ہاں بھئی، بس کچھ دن کی بات ہے، پاکستان بس بنا ہی چاہتا ہے۔‘‘یہ آواز ہوتی ہوتی گلی محلّوں اور گھروں کی دہلیز تک آگئی۔ بی امّاں کو پاکستان بننے کی بشارت کیا ملی، ان کا تو سیروں خون بڑھ گیا۔وہ ہر نماز میں علیحدہ مملکت کے قیام کی دُعائیں مانگا کرتیں۔ ہاں، انہیں اندھیروں سے سخت وحشت تھی، تو مغرب سے تھوڑا پہلے ہی حویلی کے تمام چراغ اور مشعلیں جلا دیتیں۔
جب سے پاکستان بننے کی خبر ملی تھی، تو اب وہ ایک دیا پاکستان کے نام کا بھی جلانے لگی تھیں۔پاکستان بننے کا باقاعدہ اعلان ہوا، تو مانو ہر طرف فسادات پھوٹ پڑے۔ ’’ بھیّاجی! ہماری مانو، تو کچھ دنوں کے لیے سب کو لے کر یہاں سے چلے جائو۔‘‘پڑوسی رام لال(لالہ جی) نے شہناز بی کے سُسرکو صلاح دی۔ ’’ارے لالہ جی!ہم کون سا یہاں نئے ہیں، گزشتہ کئی نسلوں سے یہیں رہ رہے ہیں۔ بھلا ہمیں یہاں کسی سے کیا خطرہ۔ویسے بھی چند ہی دنوں کی بات ہے، پھر ہم یہاں سے ہجرت کر جائیں گے، مگر آپ لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔‘‘ شہناز بی کے سُسر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اُن دنوں شہناز بی کی بیٹی، داماد آئے ہوئے تھے۔ بیٹی کی گود میں چند ماہ کا معراج بھی کھیل رہا تھا، جو گھر بھر کا لاڈلہ تھا۔ داماد نے اگلے روز واپس جانا تھا، جب کہ حیدر،عرفان اور عالیہ گزشتہ شام سے نانا، نانی کےگھر گئے ہوئے تھے۔ وہ لوگ بھی دہلی میں، مگر قدرے فاصلے پر دوسرے محلّے میں رہتے تھے۔ بی امّاں کے ساس، سُسر،شوہر، بیٹی، داماد اور اسد صحن میں بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے اور معراج اوپر کمرے میں سویا ہوا تھا۔’’جلدی کر لے چھنّو، عصر کا وقت ہو رہا ہے۔
مزید کتنے کپڑے رہ گئے ہیں؟‘‘ بی امّاں نے ملازمہ کو پکارا۔’’بس ہو گیا بی امّاں‘‘ ملازمہ کپڑے دھو چُکی، تو بی امّاں بھی اس کے ساتھ کپڑے پھیلانے چھت پر چلی گئیں اور پھر وہیں کمرے میں عصر پڑھنے کھڑی ہوگئیں۔ ابھی انہوں نے سلام بھی نہ پھیرا تھا کہ کچھ شور سا سنائی دیا، ایسا شور کہ دل لرز کر رہ گیا۔پھر ملازمہ کی دل دوز چیخ نے تو کلیجہ ہی دہلا دیا۔ سلام پھیر کر باہر بھاگیں، تو ملازمہ کو نیچے بھاگتے دیکھا۔
خود بڑھ کر منڈیر سے نیچے جھانکا، تو دہل کر رہ گئیں کہ نیچے پہنچنے تک ملازمہ سمیت اُن کا بَھرا پُرا، خوش حال خاندان، خون میں لت پت لاشوں میں بدل چُکا تھا۔بی امّاں وہیں کھڑےکھڑےجیسےخود بھی زندہ لاش بن گئیں، سکتے میں آگئیں۔ اتنے میں لالہ جی اور ان کی بیوی بھاگ کر آئے، اُنہیں دیکھا، سہارا دیا، تو کچھ حواس بحال ہوئے۔ وہ چیخ چیخ کر رونے لگیں۔ لالہ جی اور ان کی بیوی نے بی امّاں کو وہاں سے اپنے ساتھ لے جانے ہی میں عافیت جانی۔
اچانک وہ مُڑیں اور معراج کو اُٹھا کر اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔ فسادات شروع ہونے کے بعد محلّوں کے محلّے خالی کروا کر مسلمانوں کو کیمپوں میں لایا گیا۔ بی امّاں نے بھی ایک کیمپ میں پناہ لے لی، لالہ جی کی کوششوں سے حیدر، عرفان اور عالیہ بھی ماں کے پاس ہی آگئے۔ یوں، بی امّاں نے اپنے بچے کھچے کنبے کو سنبھال کر، گود میں بیٹی کی آخری نشانی لیے، اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ پاکستان کی راہ لی، مگر بدقسمتی سے راستے میں اُن کے والدین بھی بلوائیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔
پاکستان آکر یہ خاندان گوجرانوالہ میں آباد ہوگیا۔ خوش قسمتی سے شہناز بی کے بھائی جلد ہی اپنا کاروبار جمانے میں کام یاب ہو گئے۔ پھر بیٹے، حیدر نے بھی اپنا کاروبار شروع کر دیا اور اللہ نے انھیں یہاں بھی رزق، عزّت اور گھر بار دے دیا۔ یوں، زندگی نے بہت کچھ چھین کر، بہت کچھ ان کی جھولی میں ڈال بھی دیا تھا۔مگر بی امّاں نے دوبارہ کبھی دہلی کا نام تک نہ لیا کہ نہ تو وہ خود دُکھ بَھری یادیں اپنے ذہن میں تازہ کرنا چاہتی تھیں اور نہ ہی اپنے بچّوں کو یاد کروانا چاہتی تھیں۔
گوجرانوالہ میں بی امّاں ایک ایسی شخصیت بن چُکی تھیں، جن کی ہر ایک عزّت کرتا تھا۔ وہ اپنے دُکھ درد چُھپا کر، دوسروں کے لیے آسانیاں تقسیم کرتیں۔ اُنھوں نے محلّے میں ایک دست کاری اسکول کھول لیا تھا، جہاں محلّے کی غریب بچیوں کو کشیدہ کاری، سلائی اور گھریلو انتظام و انصرام سکھاتیں اور یہ ان ہی کی محنت کا نتیجہ تھا کہ محلّے کی زیادہ تر بچیاں سگّھڑ، باوقار اور ہنر مند تھیں۔ بی امّاں اپنی شاگردوں کی بنائی ہوئی اشیاء اپنے بیٹوں کے ہاتھ شہر بھیج دیتیں، جہاں سےاُن کے اچھے دام مل جاتے اور پھر وہ پوری ایمان داری سے وہ رقم ہنر مند لڑکیوں میں بانٹ دیتیں۔
بی امّاں نے اپنے علاقے میں حقوقِ نسواں کے لیے بھی بہت کام کیا، اُن ہی کے ترغیب دلانے پر دوسرے محلّے کی عورتوں نے بھی فی سبیل اللہ تعلیم اور ہنر سکھانے کا کام شروع کیا۔ اس طرح، ایک دیے سے دیگر دیے روشن ہونے لگے۔ ’’بی امّاں! اتنا کام نہ کیا کریں، آپ کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔‘‘ بچّے اور بالخصوص ان کا لاڈلا،لختِ جگر نواسا، معراج کہتا، تو وہ مُسکرا دیتیں، مگر کوئی جواب نہ دیتیں۔پھر دل میں سوچتیں ’’اگر اتنے کاموں میں اپنادل نہ لگاتی، تو ایک بَھرا پُرا گھر، والدین لُٹانے کا غم کیسے برداشت کرپاتی۔‘‘
’’بی امّاں کہتی تھیں کہ پاکستان نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ یہ ہماری سرزمین، ہماری شناخت ہے، جو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا، لیکن ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم پاکستان کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‘‘معراج نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے اپنی نم آنکھیں صاف کر کے اپنے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کو دیکھا، جو دَم سادھے قیامِ پاکستان اور بی امّاں کے کنبے کی کہانی سُن رہے تھے۔’’آج تم لوگ مجھ سے پوچھتے ہو کہ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں کیوں کر آن بسے، پاکستان نے ہمیں کیا دیا، یہاں کچھ بدلنے والا نہیں، مگر مَیں بی امّاں کا نواسا ہوں، جو اپنا گھر بار، مال و دولت سب کچھ لُٹانے کے بعد بھی یہ سوچتی تھیں کہ کیسے اس مُلک کو کام یابیوں کے اُفق پر پہنچائیں، کیسے اس کی تعمیر و ترقّی میں اپنا کردار ادا کریں۔
تم لوگوں نے تو ایک مستحکم پاکستان میں آنکھیں کھولی ہیں، لیکن وہ تو اس وقت یہاں آئیں، جب یہاں بلند جذبوں اور چند ایک فیکٹریز کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ اس لیے کہتا ہوں کہ ذرا سی مشکلات سے پریشان ہو اور نہ ہی ہمّت ہارو۔ بس اپنا کام ایمان داری سے کرتے جاؤ۔ جیسے مَیں نے اپنی بی امّاں کے مشن کو آگے بڑھایا اور آج تک بڑھا رہا ہوں۔ لڑکیوں کو مفت تعلیم و ہنر سکھانے کا، جو ’’دیا‘‘ بی امّاں نے گوجرانوالہ سے روشن کیا تھا، اُس سے اب کئی دیے پورے پاکستان میں روشن ہوتے جا رہے ہیں اور مَیں چاہتا ہوں کہ میرے بعد بھی میری نانی کا روشن کیا ہوا دیا، یوں ہی روشن رہے اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب میرے بچّے اس مُلک کے حالات سے تنگ آکر یہاں سے نکلنے کی بجائے، یہیں رہ کر اس کی ترقّی میں ہاتھ بٹائیں گے۔‘‘
معراج نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھے، تو سب جیسے یک آواز ہوگئے’’ہمیں معاف کردیں دادا جان/ناناجان! ہم یہ سرزمین چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے، ہم بی امّاں کے دیے سے پورا پاکستان روشن کریں گے۔واقعی ہمیں شکایت کرنے کی بجائے، اپنے اپنے حصّے کا کام کرنا چاہیے۔‘‘بچّوں کا جوش و ولولہ دیکھ کر بوڑھے معراج کے ہونٹوں پر آسودہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ انھیں یقین تھا، یہی چراغ جلیں گے، تو روشنی ہوگی۔