منیبہ مختار اعوان، لاہور
’’مَیں نے انہیں انجیکشن لگا دیا ہے، کچھ دیر آرام کریں گی، تو سر درد اور طبیعت بہتر ہو جائے گی۔‘‘ رات کے دس بجے ڈاکٹر قیصر، امّاں بی کی اچانک طبیعت بگڑنے پر ان کا معائنہ کرنے آئے تھے۔ دو کمروں پر مشتمل ڈھائی مرلے کے گھر میں جمشید اپنی والدہ اور زوجہ، ثریا کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔ ڈاکٹر قیصر نے امّاںبی کے کمرے پر ایک نظر ڈالی، جہاں ایک جانب الماری پر ایک بڑا سا، موٹے حروف والا قرآنِ پاک رکھا تھا، اُسی کے ساتھ لکڑی کی کرسی پر جائے نماز، جب کہ دیوار پہ کالے رنگ کی بڑی سی تسبیح ٹنگی تھی۔ ’’آپ کی والدہ خاصی نیک خاتون ہیں۔
اگر یہ کم زوری کے باعث خود غسل نہ کر سکیں، تو کوئی ان کی مدد کرتا ہے یا…؟‘‘ ڈاکٹر قیصر نے جمشید کو تفتیشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’جی، جی ڈاکٹر صاحب! ہم امّاں بی کی ہر ضرورت، صفائی ستھرائی کاخیال بہت رکھتے ہیں۔ میری ماں ہمیشہ ہی سے عبادت گزار اور نفاست پسند ہیں۔ اور یہ خود ہی روزانہ نہالیتی ہیں۔ انہیں کوئی بیماری تھوڑی ہے، مگر جانے کیوں پچھلے چھے، سات برس سے سر درد اور کم زوری پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔‘‘ جمشید نے تفصیلاً بتایا۔ ’’کیا آپ نے ان کے دماغ کاسی ٹی اسکین اورکوئی ٹیسٹس وغیرہ کروائے؟‘‘ڈاکٹر قیصر نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ ’’جی، ابھی کچھ ہی روز پہلے سی ٹی اسکین کروایا ہے، یہ دیکھیں رپورٹ۔‘‘
جمشید نے جلدی سے دراز سے رپورٹ نکالی اور ڈاکٹر کو تھمادی۔ ’’الحمدُللہ! رپورٹ تو بالکل نارمل ہے، تو کہیں کوئی ذہنی تناؤ تو نہیں؟ مجھے لگتا ہے انہیں کسی بات کی ٹینشن ہے۔ کیا انہوں نےکبھی آپ سے کچھ شیئر کیا؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے پھر سوال کیا۔ ’’جی،ایک ٹینشن تو ہے، امّاں بی آج کل کسی قرض کا ذکر کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ’’جمشید! میرے سر پر بہت قرض ہے۔‘‘ مگر جب پوچھتا ہوں کہ کس کی مقروض ہیں، تو یہ کہہ کر ٹال دیتی ہیں کہ ’’تم اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ میرا قرض اتار سکو۔‘‘ جمشید نے وضاحت کی۔ ’’اچھا، ابھی انہیں آرام کرنے دیں، مَیں کل پھر آؤں گا۔‘‘یہ کہہ کر ڈاکٹر قیصر چلے گئے۔
اگلے روز ڈاکٹر قیصر کے سُسر کا انتقال ہو گیا اور انہیں اپنے آبائی گاؤں جانا پڑا ، تو وہ نہ آسکے۔ اِدھر امّاں بی کی طبیعت بگڑتی ہی جا رہی تھی۔ وہ بس ایک ہی بات بار بار دُہرائے جارہی تھیں کہ ’’جمشید! میرے سر پربڑا قرض ہے۔اللہ کے سامنے کیا منہ لے کر جاؤں گی، مَیں اس حالت میں اللہ کے حضور پیش نہیں ہونا چاہتی۔‘‘ جمشید کا گھر کرائے کا تھا اور وہ رکشا چلا کر گزر بسر کرتا تھا، پھر گھر میں کوئی ایسی قیمتی چیز بھی نہیں تھی، جسے بیچ کر قرض اُتارا جاسکتا۔ رکشا بھی ثریا کا زیور بیچ کر خریدا تھا۔ بہرحال،جب امّاں بی کی طبیعت زیادہ بگڑی، تو جمشید اور ثریا انہیں سرکاری اسپتال لے گئے۔ اسپتال والوں نے بھی تھوڑے بہت ٹیسٹس کیے اور پھر انہیں گھر بھیج دیا۔گھر آئے ابھی دو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی، جمشید نے دروازہ کھولا، تو سامنے ڈاکٹر قیصر کھڑے تھے۔ ’’کیسی طبیعت ہے امّاں کی؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا، تو جمشید کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ساری بات کہہ سُنائی۔
ڈاکٹر قیصر، امّاں بی کے سرہانے آبیٹھے اور انتہائی تحمّل اور پیار سے اُن سے گزارش کی کہ وہ انہیں قرض سے متعلق بتائیں۔امّاں بی کو بات کرنے میں خاصی دقّت ہو رہی تھی، مگر وہ مسلسل ڈاکٹر قیصر کو تکے جارہی تھیں۔ ڈاکٹر قیصر نے امّاں بی کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ’’آپ شاید مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہیں، مَیں آپ سے قرآنِ پاک پڑھنے آتا تھا۔ اگر آپ مجھ جیسے انتہائی شرارتی بچّے کو اس قدر محبّت وشفقت سے نہ پڑھاتیں، تو شاید مَیں کبھی قرآنِ پاک نہ پڑھ پاتا۔
آج مَیں جس مقام پر ہوں، اس میں آپ کا بھی حصّہ ہے۔ اب مجھے بتائیں کہ آپ کس کی مقروض ہیں تاکہ آپ کا یہ ادنیٰ سا شاگرد اپنی استانی جی کے لیے کچھ کر سکے۔‘‘ ثریا اور جمشید بھی قریب ہی بیٹھےتھے۔ ڈاکٹر قیصر کی بات سُننے کے بعد امّاں بی نے بمشکل اپنے ہونٹ ہلائے ’’مَیں اللہ کی مقروض ہوں۔‘‘ ڈاکٹر قیصر نے محبّت سے اُن کی پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔’’ کیسے؟‘‘ ’’جب سے بالغ ہوئی ہوں، کبھی نماز، روزہ نہیں چھوڑا، لیکن پچھلےچھے، سات برس سے کم زوری کے باعث پورے روزے نہیں رکھ پائی۔ امّاں بی نے اُکھڑتی سانسوں سے کہا، تو ڈاکٹر قیصر نے فدیے کاحساب لگایا اور اُسی وقت اتنی رقم نکال کر امّاں بی کے ہاتھ پہ رکھ دی ’’آپ جس ضرورت مند کو دینا چاہتی ہیں، دے دیں۔‘‘امّاں بی نے یتیموں ، بیواؤں کے ایک ادارے کا نام لیا اور پھر انتہائی سکون و اطمینان سے کلمۂ طیبہ پڑھ کر آنکھیں موند لیں۔