• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: شائستہ اظہر صدیقی، سیال کوٹ 

ماڈل: شاہینہ سحر

ملبوسات: منوش برائیڈلز

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

کوارڈی نیٹر: محمّد کامران

عکاسی: ایم کاشف

لےآؤٹ: نوید رشید

زندگی میں بعض مقامات ایسے بھی آتے ہیں، جب روزمرّہ الجھنوں، تھکاوٹوں اور جھنجھٹوں سے اُکتاکر ؎ جی ڈھونڈتا ہے، پھر وہی فرصت کے رات دن۔ مگر ہائے! یہ زندگی کا اسٹیم انجن، جو مسلسل ایندھنِ جاں مانگتا ہے، تو ایسے میں فرصت بَھرے رات دن، محض عیاشی کا تصوّر ہی بن کر رہ جاتے ہیں، لیکن چوں کہ زندگی پر کچھ نہ کچھ حق تو ہم بھی رکھتے ہی ہیں، تو کیوں نہ جہدِ مسلسل کے کیلنڈر سے دن کا محض اک پہر، کوئی شام ادھار لے لی جائے اور یہ شام گزارنے کے لیے فیض کے ’’دشتِ تنہائی‘‘ سے استفاضہ کیا جائے۔

یوں تو ’’دشت‘‘ اور ’’تنہائی‘‘ کچھ زیادہ اچھے استعارے نہیں، مگر جب بات ہو، اپنے ساتھ وقت گزارنے کی، تو فیض کے دشتِ تنہائی سے زیادہ رومان پرور جگہ ڈھونڈے سے نہ ملے گی اور… کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ کسی کی دادِ تحسین ہی کی طلب میں سجا سنورا جائے۔ مغلیہ جواہرات کو بھی ماند کردینے کی خواہش ہی میں سولہ سنگھار ہو۔ 

آج اگر ایک پہری شام ادھار لے ہی لی ہے، تو اِسے مکمل طور پر اپنے نام کریں۔ جگ بھاتا چھوڑ کر مَن بھاتا زیبِ تن ہونا چاہیے۔ وہ ایک رنگ، جو کافی عرصہ پہلے پہننا ترک کردیا تھا، اُسے ایک بار پھرخُود پرزندہ کریں۔ وہ اسٹائل، جیولری، نازو انداز، جو کبھی شخصیت کا خاصّہ تھے، جو ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘کی گرد تلے دب کر دھندلا گئے، جھاڑ پونچھ کر پھر سے اُجالیں کہ آج بزم میں آپ اپنی مہمان ہونے چلی ہیں۔

اپنے مَن پسند رنگ و انداز کے ساتھ خُوب بن سنور کے، ڈھلتی شام میں باغ کے نسبتاً الگ تھلگ گوشے میں اگر اپنی روح اور وجدان کو آزاد چھوڑ دیں گی تو ایک آواز چہار سُو گونجتی محسوس ہوگی ؎ ’’دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں… تیری آواز کے سائے، تِرے ہونٹوں کے سراب… دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے… کِھل رہے ہیں، تِرے پہلو کے سمن اور گلاب‘‘ کچھ یاد بھی ہے، آخری بار خُود سے کب مخاطب ہوئی تھیں۔ ذرا سوچیے، آپ کو تو یاد بھی نہیں، مگر اُس آخری تخاطب کا آوارہ سا سایا آج بھی دشت میں بھٹک رہا ہے۔ 

کبھی آپ کے خُوب صورت ہونٹوں سے ادا ہوتے الفاظ، آپ کی محض عام سی گفتگو ہی رہی ہو، مگر آپ کو کیا معلوم، وہ آج تک کسی کی سوچوں کے صحرا میں سراب کی مانند چمک جاتے ہوں۔ آج اِس دشت میں اپنی صنم آپ خُود ہیں۔ ہر سُو آپ ہی کا حُسن و دل کشی محوِ رقص ہے ؎ ’’اُٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تِری سانس کی آنچ … اپنی خُوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم … دُور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ … گِر رہی ہے تِری دل دار نظر کی شبنم‘‘ آپ کی اپنی سانس کی آواز… یہ رِدھم بَھری سانس آپ نے آخری بار کب محسوس کی تھی، آپ کو یاد تک نہیں۔ 

خُود کو پیار سے نظر بَھر کر پچھلی بارکب دیکھا تھا، نہیں پتا ہوگا۔ اور یوں لگاتار اپنا وجود نظرانداز کرتے ہوئے کبھی خُود پر ترس بھی نہیں کھایا …؟ آپ قدرت کی ایک احسنِ تقویم تخلیق ہیں، بے حد حسین، جمال میں یکتا، تو پھر اس ہرجائی، دو رُخی دنیا کے پیچھے رُوح و بدن کو ملیامیٹ کیوں کر ڈالا۔ چرمر پتّوں پر ایک لمبی واک کرتے،اِردگرد درختوں کی جُھکی شاخوں کو ہولے سے چھیڑتے، جو ایک دھیمی سی مسکان لبوں پر سجی ہے، وہ پتا دیتی ہے کہ خُود میں گم شدہ کوئی پیاری سی ہستی یادوں کا دَر کھٹکھٹا رہی ہے۔ محبّت سے چور لہجے میں اِک آواز کا سایا کان میں جُھک کر سحر انگیز سرگوشی سی کرتا محسوس ہورہا ہے ؎ ’’اِس قدر پیار سے اے جانِ جہاں رکھا ہے… دِل کے رخسار پہ اِس وقت تری یاد نے ہات… یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہےابھی صبحِ فراق …ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات۔‘‘ وہ جو دن کا ایک پہر، اِک شام ادھار لی تھی، وہ بالآخر شب میں ڈھل گئی، مگر ’’وصلِ ذات‘‘ کی لذت سے آشنا تو کر گئی۔

(نوٹ: ہم نے قارئین کو دعوت دی تھی کہ اگر کوئی ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ لکھنے میں دل چسپی رکھتا ہے، توضرور لکھ بھیجے۔ سو، اِس ضمن میں آج ایک قاریہ کی یہ پہلی کاوش آپ کی نذر ہے۔)