تحریر: نرجس ملک
ماڈل: آرزو شاہ
ملبوسات: عرشمان بائے فیصل رضا
آرائش: Sleek by Annie
کوآرڈی نیٹر: وسیم ملک
عکّاسی: ایم کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ دیکھا، جس میں ایک محترمہ ’’لوئر مڈل کلاس‘‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ’’اگر آپ پُرانا، ختم ہونے والا صابن، نئے صابن کے ساتھ چپکا کر استعمال کرتے ہیں، اگر آپ شیمپو کی خالی ہوتی بوتل میں ذرا سا پانی ڈال کر ایک بار پھرنہا لیتے ہیں۔ اگر آپ ٹوتھ پیسٹ کو دَبا، دَبا کر آخر تک نکال کے برش کرتے ہیں، تواس کا مطلب ہے کہ آپ سو فی صد لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘، جب کہ پڑوسی مُلک بھارت کے ایک مقبولِ عام مزاحیہ شو میں مُلک کے ایک امیر کبیر گھرانے’’پٹودی فیملی‘‘ کی بیٹی اور معروف اداکارہ سارہ علی خان سے جب میزبان نے ایسے ہی کچھ سوالات کیے، تو اُس نے جواباً بڑے فخر سے کہا کہ ’’مَیں شاپنگ کے لیے جاتی ہوں، تو بہت بھائو تائو کرتی ہوں۔
شیمپو کی خالی بوتل میں پانی ڈال کر یا ٹوتھ پیسٹ دَبا، دَبا کر نکالنے میں بھلا کیا قباحت ہے اور مَیں ایسا کرتی ہوں۔‘‘ تو بات یہ ہے کہ یہ اَپر کلاس، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی تعریفیں دراصل ہمارے اپنے ذہنوں کی اختراعات ہیں۔ انسان امیر یا غریب اپنے دل اور دماغ سے ہوتا ہے، نہ کہ حلیے، بول چال اور رہن سہن سے۔ کوئی لکھ پتی بھی حد درجہ کنجوس اور طور اطوار سے انتہائی غریب ہوسکتا ہے اور کوئی فقیر بھی، دل کا ایسا امیر ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے امراء کو مات دے جائے۔
ہاں، یہ ضرور ہے کہ عمومی طور پر لباس ہی کو ظاہر و باطن، طبقے، شخصیت و کردار کا آئینہ مانا جاتا ہے، اِسی لیے ڈیل ڈول، شکل و صُورت خواہ واجبی ہی سی کیوں نہ ہو، اگر پہناوا عُمدہ زیبِ تن کر رکھا ہو، پہننے، اوڑھنے کا ڈھنگ، سلیقہ، جامہ زیبی ہو، تو پھر نگاہ پہلے لباس پہ، بعد میں مُلَبّس پرجاتی ہے۔ اور آج… ہماری بزم بھی کچھ ایسے حسین و دل نشین سے تقریباتی پہناووں سے مزیّن ہے کہ جن پر نگاہ پڑے گی تو پھر تادیر ٹھہری ہی رہے گی، اِدھر اُدھربھٹک ہی نہ پائے گی۔
ذرا دیکھیے، چاکلیٹ برائون رنگ میں جارجٹ کے پلین لباس کے ساتھ لانگ کوٹ اسٹائل کام دار ایپرن کیسا حسین و دل کش معلوم ہورہا ہے، پھر سدابہار رنگ کالے سیاہ میں ستارہ ورک سے مرصّع، نیٹ کا نفیس و دل آویز سا پہناوا ہے، تو سلور گِرے، آسمانی اور پِیچ رنگوں کے کامبی نیشن میں بھاری بِیڈز ورک اور کٹ ورک سے آراستہ میکسی کے بھی کیا ہی کہنے، جب کہ لائٹ گولڈن رنگ کے پیپلم، کیولاٹ کا جلوہ تو نرالا ہے ہی، منہدی رنگ بھاری کام دار چولی، لہنگے کا بھی جواب نہیں۔
وہ صدا انبالوی کا شعر ہے ناں ؎ کیوں سدا پہنے وہ تیرا ہی پسندیدہ لباس… کچھ تو موسم کے مطابق بھی سنورنا ہے اُسے… تو اِن دونوں موسم جیسے کبھی نرم، تو کبھی گرم ہے، کبھی تیز چلچلاتی دھوپ، شدید حبس، لُو کے تھپیڑے، تو کبھی گہرے سیاہ بادل، رِم جِھم برکھا اور موسلادھار بارش، تو اِسی طرح ہمارے آج کےرنگ و اندازبھی کچھ ہلکے، کچھ گہرے، کچھ دھیمے پھیکے، تو کچھ بہت اُجلے نکھرے سے ہیں۔ آپ کو بھی موسم و ماحول سے ہم آہنگی چاہیے، تو اِس انتخاب میں سے کچھ بھی منتخب کر لیجیے۔