السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ہیروں کا تاج پہنانا چاہیے
کیسی ہو، اللہ صحت و تن درستی کے ساتھ سلامت رکھے۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ ناشتے کے دسترخوان پر، پُرجوش احساسات کے ساتھ کھولا۔ جس جس کی تحریریں، خطوط شائع ہوئے، سب کو مبارک باد کہ قلم کے رشتے سے سب اپنے ہی تو ہے ہیں۔ مگر یہ کیا، پراٹھے کا ٹکڑا ہاتھ سے چُھوٹتےچُھوٹتے رہ گیا۔ ہم کیا، ہماری بساط کیا۔اللہ اللہ ہماراخط اور’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ دل دھڑک دھڑک گیا، ویسےعُمرکا تقاضا بھی ہے۔ پھر یوں لگا، جیسے تم نےگھبرائی رگ پرہاتھ رکھ دیا، دل کوکچھ چین ملا اورکیوں نہ ملتا، تم آخر کو نبّاضِ سنڈے میگزین ہو۔ خیر، بہت سی مبارک بادوں کی کالز کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچےکہ ؎ حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے… بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں۔
اب آتی ہوں میگزین کی طرف، ’’مَیں کیوں اچھی ماں نہیں؟‘‘شفق رفیع نے تحریر میں گویا دل نکال کےرکھ دیا۔ واقعی، ملازمت پیشہ مائوں کی ممتا کم نہیں ہوتی، مسائل، پریشانیاں زیادہ ہیں۔بخداپوری تحریر پڑھ کے دل خون کے آنسو رو دیا۔ معصوم کلیاں کیسے اپنی امّی جی کی گود سے اُتر کرتعلیم یافتہ ہوتی ہیں، پھر اپنے شوہرِ نام دار کارائٹ ہینڈ بن کرشانہ بہ شانہ بڑی خُوش دلی سے اپنی تعلیم کا فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ ملازمت سےتھکی ہاری آکر گھر، بچّے سنبھالتی ہیں۔ ایسی بیٹیوں کے سرپرتو ہیروں کا تاج پہنانا چاہیے، کُجا کہ بعض لوگ اُنہیں طعنوں تشنوں سے چھلنی کرتے ہیں۔
پیاری بیٹی، بینش صدیقہ! ’’یہ بچّی اِس کے گناہوں کی سزاہے‘‘ جیسی جاہلانہ باتیں کرنے والے سنگ دل، سفّاک خُود کتنے گناہ گار ہیں، اِس کا فیصلہ تو روزِحشر ہی ہوگا، کیوں کہ ہماری تعلیم یافتہ بیٹیاں جو قربانی دے رہی ہیں، اِن کا اجر سوائے اللہ کے کوئی نہیں دےسکتا۔ یہ معاشرہ تو ایسے بےشمار اَن پڑھ، جاہل مَردوں، عورتوں کا ہے، جو صرف کھانے اور سونے کے لیے زندہ ہیں۔ محمود میاں نجمی کے زیرک قلم سے مدینہ منورہ سلسلے کی آخری قسط پڑھ کر دل بیٹھ سا گیا۔نرجس بیٹی، ایسےاَن مول سلسلے جاری رکھنا۔
منور مرزا کے تجزیے کا کیا کہنا۔ ’’مائوں کا عالمی یوم، خاص اہتمام‘‘ دردانہ رحمٰن کی درد بَھری آپ بیتی اور تمہاری دل کش تحریرنے بہت رلایا۔ دردانہ! بخدا سلمان رحمٰن کی جدائی مَیں نے اپنے دل میں محسوس کی۔ ڈاکٹر علائوالدین کاکڑ موٹاپے کابتارہے تھے کہ وبائی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ویسے اگر تمام مسلمان پابندی سے نماز پڑھیں اور سادہ غذائیں استعمال کریں تو فربہی سے نجات ممکن ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں جمعے والی میڈم بہترین کاوش تھی۔ ناقابلِ فراموش کے واقعات سبق آموز لگے۔ اختر سعیدی، کتابوں سے ملاقات کرواتے ہیں اوربہت ہی خُوب کرواتے ہیں۔ ہاں، ایک بات تورہ ہی گئی، کچھ پیچیدہ مسائل کے سبب، بہت دیر سے لکھا یہ خط اب پوسٹ کررہی ہوں۔ (شبینہ گُل انصاری، کراچی)
ج: آپ نے تو خط تاخیر سے پوسٹ کرکے آخر میں محض ایک سطر لکھ دی، مگر یہاں لوگ ہمارے لتےّلینے لگتے ہیں کہ خطوط اس قدرتاخیر سے کیوں لگائے جاتے ہیں، ترتیب کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال خواتین، خصوصاً بیٹیوں سے آپ کی محبّت و شفقت دیدنی ہے۔ اللہ آپ کواس کا اجرِعظیم عطا فرمائے۔
ہر سلسلے کا جداگانہ اندازِ تحریر
’’سنڈے میگزین‘‘ کی ایک خاصیّت دوسرے جرائد سے نمایاں ہے کہ اس کے ہر سلسلے کا فارمیٹ جداگانہ اور اندازِ تحریر عین اُس فارمیٹ کے مطابق ہوتا ہے۔ جہاں دینی مسسائل کا تذکرہ ہوگا، تمام تر حوالہ جات کے ساتھ مکمل احترام ملحوظ رکھا جائے گا۔ جہاں طنزومزاح کی گنجائش ہوگی، وہاں مزاح اور جہاں شاعرانہ انداز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، وہاں وہی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ ’’عالمی یومِ مزدور‘‘ کے حوالے سے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں اسرار ایوبی بہت معلومات فراہم کرگئے۔
منفرد لکھاری، منور مرزا بڑی درد مندی سے سانحہ9مئی کو زیرِ قلم لائے۔ ’’آئیڈیاز کے سوداگر، ایلون مسک‘‘ سے متعلق رائو محمّد شاہد اقبال کا قلم خُوب چلا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ماڈل ثناء شاہ کے پہناوے خُوب تھے، تو نرجس ملک کے موتی سے الفاظ، سونے پہ سہاگا۔ منور راجپوت تو جب جب آتے ہیں، بس چھا جاتے ہیں۔ ’’پلاسٹک… بلاسٹک‘‘ کے عنوان سے پوری قوم کو خبردار کرگئے۔ بلوچستان کے قابلِ فخر سپوت، ڈاکٹر محمّد اعظم بنگلزئی سے محمّد ارسلان فیاض کی بات چیت زبردست رہی۔
مُسکراتے چہرے والی سلمٰی اعوان ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عورت اور ماں کے ٹائٹل سے آئیں اور یہ باور کروا گئیں کہ عورت واقعی ایک پہیلی ہے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں کیا کہنا، شائستہ اظہر صدیقی کا، واقعی کیا لکھتی ہیں، اندازِ بیاں بہت ہی عالمانہ، مدبّرانہ سا ہوتا ہے۔ نیز، اقصٰی منور ملک، مریم طلعت محمود بیگ اور سید محمّد کے خطوط بھی جریدے کی مہک میں اضافہ کر گئے۔ گرچہ جھڈو میں درجۂ حرارت37 سے بھی اوپر ہے، مگر میرے دل سے وطن کے اِک اِک فرد کے لیے بہت ٹھنڈی دُعائیں نکلتی ہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: اور یہ شاید کچھ آپ جیسے بے غرض، پُرخلوص اہلِ وطن ہی کی دعائوں کا اعجاز ہے کہ نہ جانے کتنی بار وطن کی نائو بھنور میں پھنسی اور پھر نکل آئی۔ وہ فراز نے کہا تھا ناں کہ ؎ ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اُچھالا دے دوں… مَیں نہیں، کوئی تو ساحل پر اُتر جائے گا۔ تو بس، کچھ ایسے ہی بے غرضوں، دردمندوں کے سبب یہ دنیا قائم و دائم ہے۔
جینے کا سامان
سرورق، سرچشمۂ ہدایت سے لے کر ’’آپ کاصفحہ‘‘ تک بغور پورے جریدے کا مطالعہ کرتا ہوں۔ سچ کہوں تو سنڈے میگزین ہی میرے پورے ہفتے کے جینے کا سامان ہے۔ (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
ج: اور جو کسی ہفتے ہم یہ سامان فراہم نہ کر سکے تو…!!
’’فادرز ڈے ایڈیشن‘‘ لگ رہا تھا
اس ہفتے کا میگزین تو ’’فادرز ڈے ایڈیشن‘‘ لگ رہا تھا، کیوں کہ زیادہ تر مضامین والد ہی سےمتعلق تھے۔ راؤ محمّد شاہد اقبال کے مضمون میں شہنشاہ بابر اور ہمایوں کی جو تصویر لگائی گئی، بہت پسند آئی۔ شفق رفیع بھی والد سے متعلق اپنے ایک اعلیٰ پائے کے مضمون کے ساتھ موجود تھیں، شاباش۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کے سارے ہی پیغامات بہت عُمدہ و اعلیٰ لگے، مگر آخری پیغام، جوکہ منیر یوسف نے صفورا گوٹھ، کراچی سے بھیجا تھا، وہ تو بہت ہی پسند آیا۔ (رونق افروز برقی،دستگیرکالونی، کراچی)
ج: ’’لگ رہا تھا‘‘ سے کیا مطلب، ’’فادرز ڈے ایڈیشن‘‘ ہی تھا بھئی۔ اور آپ تو ’’سنڈے میگزین‘‘ کے مستقل قاری و لکھاری ہیں،آپ سے ایسی بات کی اُمید نہیں تھی۔
انگریزوں کے چونچلے
براہِ مہربانی یہ مدرزڈے اور فادرزڈے نہ منایا کریں۔ ہم پاکستانی ہیں، ہمیں اپنی تہذیب و روایات پر فخر کرنا چاہیے۔ یہ دِن وِن منانا تو انگریزوں کے چونچلے ہیں، پلیز، آپ یوں انگریزوں کی نقّالی نہ کیا کریں کہ یہ سب تو انگریزوں کے مال کمانے کے ذرائع ہیں۔ اور دوسری بات سنڈے میگزین کو کچھ بہتر بنائیں، ممکن ہو تو نیٹ بیتیاں، زمین جنبد نہ جنبد گل محمّد جیسے سلسلے دوبارہ شروع کریں کہ اُن صفحات سے ہماری دیرینہ یادیں وابستہ ہیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: اگریہ انگریزوں کے کمائی کے ذرائع ہیں تو آپ بھی اِن ہی ذرائع سے کچھ کما لیں، ایک مدت سے بےروزگاری کے رونے رو رہے ہیں۔
وظیفہ کیوں نہیں لکھا؟
عرض یہ ہے کہ4جون2023 ء کے جنگ، سنڈےمیگزین کے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے میں ڈاکٹرایم شمیم نوید کا تحریر کردہ ایک واقعہ بعنوان ’’وہ بزرگ خاتون کون تھیں؟‘‘ پڑھا۔ اُن بزرگ خاتون نے ڈاکٹر صاحب کو بیٹی کی شادی کے سلسلے میں ایک وظیفہ بتایا، مگر ڈاکٹر صاحب نے غالباً باوجوہ وہ وظیفہ تحریر نہیں کیا، ہم بھی ضرورت مند ہیں۔ آپ سے درخواست ہےکہ ڈاکٹر صاحب کا کانٹیٹک نمبر یا ایڈریس بتادیں تاکہ ان سے وظیفہ حاصل کرکے ہم بھی فیض یاب ہوسکیں۔ اللہ آپ کو اور ڈاکٹر صاحب کو جزائے خیرعطا فرمائے۔ (جمیل احمد، حیدرآباد)
ج: ہم اُن سے وظیفہ معلوم کرکے اپنی 23 جولائی کی اشاعت میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں شایع کرچُکے ہیں۔
بہاول نگر کا تعارف بھیجوں؟
اِس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ کے صفحات شامل تھے۔ محنت کشوں، ملازمت پیشہ افراد کا سماجی تحفّظ، واقعی اہم مسئلہ ہے، اِس پر ضرورغور ہونا چاہیے۔ ’’سانحہ 9 مئی: اپنے ہی دل پر وار‘‘ فکرانگیز تجزیہ تھا۔ بےشک، سانحے میں ملوّث تمام افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔ ہاں، آپ سے ایک بات پوچھنی تھی، اگرمَیں آپ کواپنےشہر بہاول نگر کا تعارف بھیجوں، تو کیا آپ شائع فرمائیں گی۔ ایلون مسک، واقعی آئیڈیاز کی سوداگر شخصیت ہے۔
’’پلاسٹک، بلاسٹک‘‘ بہت ہی عُمدہ، شان دار رپورٹ تھی، واقعی جہاں جہاں پلاسٹک اورخصوصاً شاپرزکااستعمال ہو رہا ہے، لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہے۔ سیوریج کا نظام تباہ ہورہا ہے، گلیوں میں جگہ جگہ گندا پانی کھڑا ہے۔ مضمون کی سُرخی ’’پلاسٹک، بلاسٹک‘‘ بھی بہت ہی شان دار تھی۔ بلوچستان کے قابلِ فخر سپوت، ڈاکٹرمحمّد اعظم بنگلزئی، فخرِ پاکستان، مُلک کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ، یاسمین لاری اور مصوّر، موسیقار آصف غیاض کے انٹرویوز بہترین، بہت ہی معلوماتی تھے۔ اور ایک بات اور، کافی روز سے اعتراض ملک اورمحمّد سلیم راجا کے خطوط پڑھنے کو نہیں مِل رہے۔ اللہ پاک دونوں کی حفاظت فرمائے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج:بہاول نگرسےمتعلق مضمون آپ ضرور بھیج دیں، مگر اشاعت کا فیصلہ تحریر دیکھ کرہی کیا جائے گا۔ جن خطوط نگاروں سے متعلق آپ کوپریشانی لاحق ہے، اُن میں سے ایک کچھ نجی مصروفیات کے سبب خط نہیں لکھ پا رہے، جب کہ دوسرے صاحب تو آج کی بزم میں بھی پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہیں۔
میری پسندیدہ شخصیت
مَیں روزنامہ جنگ بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ جنگ اخبار کے بانی میر خلیل الرحمٰن میری پسندیدہ شخصیت ہیں، مَیں نے اُن کے لیے کچھ لکھا ہے، اُن کی تعریف میں اور خدمات پر۔ براہِ مہربانی ضرورشائع کیجیے گا اورمَیں نے اپنے داماد کے لیے بھی ایک تحریر بھیجی ہے، وہ بھی جلد شائع کردیں، بڑی مہربانی ہوگی۔ (قاریہ کوثر بنتِ اقبال)
ج:آپ کی جوبھی تحریر قابلِ اشاعت ہوگی، بغیرکہے شائع ہوجائے گی۔
اس ہفتے کی چٹھی
اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی ٹیم کو بمع اہل و عیال خوش و خرّم رکھے، زندگی میں آسانیاں فرمائے۔ اعزازی چوکھٹے میں میرے خطوط کی مسلسل تیسری مرتبہ اشاعت میرے لیے حیرت و استعجاب کا باعث اس لیے بھی ہے کہ زمانۂ طالب علمی میں اُردو مضمون میں فیل ہونا معمول رہا ہے۔ اساتذہ کو کہیں سے معلوم ہوا کہ اس ’’گربۂ مسکین‘‘ کی بچپن میں ماں فوت ہوچُکی ہے، لہٰذا کچھ نمبر دے کر پاس کردیا کرتے تھے اور ہم دردی کے یہی اضافی نمبرز میری قابلیت کا بھرم رکھے ہوئے تھے۔ چوں کہ سائنس اور ادب ایک کھوپڑی میں نہیں سما سکتے، اِس لیے جلد ہی اردو مجھے داغ مفارقت دے گئی۔ ادب کا سایہ سر سے اُٹھتے ہی مَیں بے ادب رہ گیا، پھر اِسی بے چارگی میں اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ اور اخبارِجہاں جیسے رسائل نے گود لے لیا اور اِن ہی کے سایۂ عاطفت میں پَل کر اُردو سے’’رشتۂ الفت‘‘ میں بندھا۔
بہرکیف، 4 جون کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں ’’سانحۂ9 مئی…‘‘ پڑھا، مگر میرا خیال ہے، تبصرے سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ مبادا کسی کی ’’معصوم تمنّا‘‘ کی تکمیل میں ’’آبزرویشن‘‘ سے ہٹ کر ’’مُردہ خانے‘‘ میں پھینک دیا جائوں تاکہ نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔ ’’تے گلیاں ہون سُنجیاں، وِچ مرزا یار پِھرے۔‘‘ رائو محمّد شاہد اقبال نے ’’آئیڈیاز کا سوداگر‘‘ کے عنوان سے دنیا کے ایک ایسے امیر ترین شخص ایلون مسک سے متعارف کروایا، جسے مریخ اور چاند جیسے بے آب و گیاہ سیاروں پر انسانوں کو بسانے کا خبط سوار ہے۔ اِسے پڑھ کر مشہور پنجابی کہاوت ’’جِدے کھار دانے، اودے کملے وی سیانے‘‘(امیروں کے بےوقوف بھی عقل مند کہلاتے ہیں۔) پر یقین آگیا۔ 11 جون کے شمارے میں شفق رفیع کے ایک سوال کے جواب میں خاتون آرکیٹیکٹ، یاسمین لاری نے جنرل ضیاء کی شرافت، اعلیٰ اخلاق اور نرم مزاجی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دوران ملازمت انہوں نے میرا بہت خیال رکھا۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اُن کا دَور خواتین کے لیے اچھا نہیں تھا۔
ان کی پالیسیز اور قوانین سے خواتین کے حقوق بہت مجروح ہوئے، تو محترمہ کے مشاہدے اور رائے کا یہ تضاد ناقابلِ فہم ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے طرزِ حکومت سے یقیناً اختلاف کیا جاسکتا ہے، مگر اُن کے پاکستانی معاشرے کو مغربی تہذیب کی آلودگی سے بچانے کےلیےاخلاق باختہ، مفسد ملبوسات، ڈانس کلبز وغیرہ پر سخت پابندی جیسے قابلِ تحسین اقدامات سےکسی ُصورت اختلاف مناسب نہیں۔ یہی وہ اقدامات تھے، جن سے ایک مخصوص قبیل کی خواتین کے حقوق تو مجروح ہو سکتے ہیں لیکن اکثریت کے لیے وہ دَور اُن کی عزت و توقیر اور تحفّظ کا ضامن تھا۔ 4 جون کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر شائستہ بیٹی اثر انگیز اور منفرد اسلوب کے ساتھ زمین زاد ہونے کے باوجود ستارے کی مانند جگمگا رہی تھیں۔ جذبات واحساسات کے اظہار کے لیے انہوں نے جن خُوب صُورت تشبیہات و استعارات اور اصطلاحات کا استعمال کیا، یہ اُن ہی کا وصف ہے۔ اُمید ہے کہ بعد ازاں، اُن کی یہی چٹھی سال بھر کی اعزازی چٹھی قرار پائے گی، لیکن بیٹا! آپ نے بھی جس پیار سے اُنہیں ’’اچھی شائستہ!!‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، یہ ’’اعزازِ بلند‘‘ اِس مسندِ خاص سے بھی کہیں بڑھ کر ہے، جو آپ کی طرف سے اب تک کسی کو ملا ہے۔ (محمّد جاوید، اقبال ٹاؤن، راول پنڈی)
ج: ہمیں تو یہ پڑھ کر شدید حیرت ہوئی کہ زمانۂ طالب علمی میں آپ کی اُردو اچھی نہیں تھی۔ کیوں کہ ہمیں تو خال خال ہی اچھی اُردو لکھنے والے میسّر آتے ہیں اور بلاشبہ آپ کا شمار اُن ہی چند ایک میں ہوتا ہے۔
گوشہ برقی خطوط
* راؤ محمّد شاہد اقبال نے’’بارٹرٹریڈ‘‘ پرجو مضمون لکھا، اُس سے معلومات میں حد درجہ اضافہ ہوا۔ اِس حوالے سے میرے ذہن میں کئی مغالطے تھے، جواب بالکل کلیئر ہوچُکے ہیں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ براہِ مہربانی ہر ہفتےاسی طرح کا کوئی ایک آدھ مضمون ضرورشاملِ اشاعت رکھا کریں۔ (عدیل احمد، رام سوامی، کراچی)
ج: ہماری اپنی بھی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اُن ہی موضوعات پر زیادہ سے زیادہ کام کروایا جائے، جو عوام النّاس کے بہترین مفاد میں ہوں۔
* مَیں نے ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے ایک افسانہ بھیج رکھا ہے، کیا اُس سے متعلق بتاسکتی ہیں کہ قابلِ اشاعت ہے یا نہیں۔ (اسماء صدیقہ، کراچی)
ج : بارہا بتایا گیا ہے کہ اِس طرح انفرادی طور پر کسی تحریر سے متعلق نہیں بتایا جا سکتا۔ اور ناقابلِ اشاعت کی فہرست کا اجرا بھی خاص اِسی مقصد کے تحت کیا گیا کہ لوگ طویل انتظار کی زحمت سےبچ جائیں۔ آپ جریدے کا مطالعہ جاری رکھیں۔ آپ کو تحریرکےقابلِ اشاعت یا ناقابلِ اشاعت ہونے کا علم جلد ہوجائے گا۔
* میرے کچھ مضامین سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ وہ قابلِ اشاعت ہیں یاناقابلِ اشاعت، کیوں کہ نہ کسی فہرست میں میرا نام آیا اور نہ ہی مضامین شایع کیے گئے ہیں۔ (مدثر اعجاز، لاہور)
ج: جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے صفحات بہت محدود کردئیے گئے ہیں، جن مضامین کی باری پہلے دو، تین ماہ بعد آجاتی تھی، اب چھے چھے ماہ بعد ہی آ پارہی ہے۔ بہرحال، تسلّی رکھیں، کیوں کہ ہم ہر قابلِ اشاعت تحریر کی جلد سے جلد اشاعت اور فہرستوں کے باقاعدہ اجراء کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
* مَیں ’’جنگ،سنڈے میگزین‘‘ کے لیے کچھ تخلیقی وتحقیقی کام کرناچاہتا ہوں، ذرا یہ فرمادیں کہ تحریرکس پتے پر بھیجنی ہوگی؟ (شاہد حسین شاہ، ملتان)
ج: اِسی صفحے پر موجود پتے پر۔ یا جس ای میل آئی ڈی پر آپ نے ہمیں یہ ای میل بھیجی ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk