السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
پاکستان! تُو سلامت رہے!!!
نرجس بٹیا! سدا خُوش رہو۔ چوبیس گھنٹے کے طویل تھکا دینے والے سفرکے بعد جب جہاز کراچی لینڈ کیا، تو دھرتی ماں کو نم ناک آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بے اختیار زبان سے نکلا ’’پاکستان!تُوسلامت رہے‘‘۔ جہاز سےاُترا، تو دل مچل گیا کہ اپنی پاک مٹّی کو چُوم لوں۔ سامان کی ٹرالی لے کر چلا توکسٹم افسران کی گھورتی آنکھیں بھی پیاری لگیں۔ ائیرپورٹ سے باہر نکلا، تویوں لگا، جیسے پیاری ماں دونوں ہاتھ پھیلائے بانہوں میں لینے کو بے قرار ہے۔ بے شک، دھرتی بھی تو ماں ہی کے مثل ہے، جس کی مقدّس فضائیں بے اختیار چہرے، گالوں اور گنجے سر کو چُوم رہی تھیں، حسین و کشادہ سڑک، کنارے لگے سرسبز وشاداب درخت جیسے خُوش آمدید کہہ رہے تھے۔
سگنل بند تھا، گاڑی رُکی، تو سُرخ بتّی نے شرارت بَھرے لہجے میں کہا، ’’لوٹ کے بُدھو گھر کوآئے‘‘اُف! مَیں خُوشی سےکیسا سرشار تھا۔ فضائیں، ہوائیں، پھول پودے، لوگ، سب چہرے اپنے تھے۔ یہ میرا شہر، صوبہ، میرا مُلک اور میری ماں دھرتی ہے، جہاں مَیں نےزندگی کےپچاس سال درس وتدریس میں گزار دئیے۔ آج بھی کسی اجنبی جگہ اگر کوئی شاگردقریب آکر کہتا ہے ’’آپ سرمنصور ہی ہیں ناں؟‘‘ تو یقین جانو، یہ ایک جملہ زندگی بھرکاسرمایہ معلوم ہوتاہے۔ خیر،28 مئی کا سنڈے میگزین سامنے دھرا ہے۔ منورمرزا نے ترکیہ، تھائی لینڈ سے متعلق کیا شان دار تجزیہ پیش کیا۔
بلاشبہ، طیّب اردوان کی کام یابی کا راز گراس روٹ لیول پرعوام کی خدمت ہی ہے۔ نرجس بیٹا! مَیں نے میگزین کا بھرپور تنقیدی جائزہ لیا۔ باوجودیکہ افراد کم ہوگئے، تن خواہوں کا کچھ پتا نہیں، کام کا لوڈ بڑھ گیا اور ایک دو ہٹ دَھرم، کام چور بھی ہوں گے، کوئی یونین کامنہ چڑھا، توکوئی انتظامیہ کا چہیتا، لیکن بخدادل سےکہتا ہوں کہ سارے سلسلے حالات و واقعات، سرچشمۂ ہدایت، سنڈے اسپیشل، انٹرویوز، پیارا گھر، ہیلتھ اینڈ فٹنس، ہمارا وَرثہ، اسٹائل اور آپ کا صفحہ بغور پڑھے، مجھے تو ہرجگہ پہلے سے بہت بہتری ہی نظر آئی۔ کسی نے صحیح کہاہےکہ’’اگر لیڈر خداداد صلاحیتوں کا مالک ہو تو مٹّی کوبھی سونا بناسکتا ہے‘‘ لیکن اگرکپتان ہی کی نیّت خراب ہو، تو پھر عقلوں پر بھی پردے پڑجاتے ہیں اور کسی پیرنی کے وظیفے، تعویذ، جادو ٹونا بھی کچھ کام نہیں آتا۔
یہاں تک کہ کوئی9مئی کا واقعہ تکبّر کے بت کو پاش پاش کرکے عرش سے زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ بٹیا! مجھے تو لگتا ہے کہ وقت کی نبض پر تمہارا ہاتھ ہے۔ مکّہ مکرّمہ، مدینہ منوّرہ کے فوری بعد ’’قصص القرآن‘‘ جیسے اَن مول سلسلے نے قارئین کے دل جیت لیے ہیں۔ یہ قصّے جس طرح پیش کیے جارہے ہیں، واقعی کمال ہے۔ مَیں تمہیں سچ بتائوں، کینیڈا، یورپ میں پاکستان اورانڈین مسلمانوں میں تمہارا یہ دینی سلسلہ بےحد مقبول ہے، لوگ خُود بھی پڑھتے ہیں اور اپنے گروپس میں بھی شیئر کرتے ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ تمہاری ذاتی کوششوں اورمسلسل رابطوں نے میگزین کو بڑے اچھے اچھے لکھاری دے دئیے ہیں، جو نہ صرف بلامعاوضہ اپنی خدمات پیش کررہے ہیں بلکہ معاشرے کے بنائو سنوار میں بھی اہم کردارادا کررہے ہیں۔ جیسے محمود میاں، منور مرزا، عرفان جاوید، راؤ محمّد شاہد اقبال، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، سلمٰی اعوان، ڈاکٹر احمد حسن رانجھا، اختر سعیدی، ڈاکٹرناظر محمود، ڈاکٹر قمر عباس، وحید زہیر، حامد فیاض، سلیم اللہ صدیقی، ڈاکٹر عزیزہ انجم اور ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے لیے لکھنےوالے متعدّد ڈاکٹر صاحبان وغیرہ۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، کراچی)
ج: سر! اللہ رب العزت آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ آپ جیسے اساتذہ کا سایا تادیر سلامت رہے۔ یقین کریں، ادارے میں وسائل کم، مسائل بہت بڑھ گئے ہیں، لیکن یہ جو آپ جیسے چند ایک مُشفق وخلیق بزرگ وقتاً فوقتاً اس طور حوصلہ افزائی کرتےہیں، توساری پریشانیاں، فکریں جیسے پسِ پشت چلی جاتی ہیں اورایک بار پھرنئے سِرے سے ’’جہاد بالقلم‘‘ کے رستے پرگام زن ہونے کی تحریک سی ملتی ہے۔
لوگوں کا بھلا ہوجائے
’’قصّہ یاجوج ماجوج‘‘ آج سنڈے میگزین میں پڑھنے کو ملا۔ اِس سے پہلے ایسی تحریر کبھی، کہیں نہیں پڑھی۔ ہم ادارے اور سنڈے میگزین کے ساتھ آپ کے بھی بے حد ممنونِ احسان ہیں کہ ایسا شان دار سلسلہ آغاز کیا۔ پھر بہت عرصے بعد سلمیٰ اعوان کی تحریر ’’ڈائجسٹ‘‘ میں پڑھنے کو ملی، بخدا لطف آگیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید کی داستان ’’وہ بزرگ خاتون کون تھیں؟‘‘ اثرانگیز واقعہ تھا، لیکن اگر وظفیہ بھی تحریر کردیتے تو کافی لوگوں کا بھلا ہوجاتا۔
جریدے کے صفحات خاصےکم ہوگئے ہیں۔ اللہ کرے، ادارے کے حالات جلد اچھے ہوجائیں۔ اگلے شمارے کے ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا، اردوان کی فتح کے ساتھ موجود تھے۔ ہمارے وزیرِ اعظم بھی حلف برداری کی تقریب میں آم لےکرپہنچ گئے۔ بہت عرصے بعد شفق رفیع نے یاسمین لاری سے تفصیلی گفتگو کی۔ بے شک یاسمین لاری نے تمام ہی جوابات بہت خُوب صُورت انداز میں دئیے۔ نیز، تمام تصاویر بھی عُمدہ تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس کا کلام پڑھا، اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شاہدہ تبسّم نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ لیکن آپ کا جواب بھی اپنی جگہ بہت معقول تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: واقعہ نگار سے وظیفہ پوچھ کر شایع کردیاگیا ہے۔
دل چسپ اور حیرت انگیز
’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا نے ترکیہ، تھائی لینڈ کے انتخابات کے تناظر میں پاکستانی حُکم رانوں، سیاست دانوں کو پھرآئینہ دکھایا۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے ’’اصحابِ کہف‘‘ سلسلے کی دوسری اور آخری قسط میں جو واقعات بیان کیے، واقعی کافی دل چسپ اورحیرت انگیز تھے۔’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے عالمی رہنمائوں کی توّہم پرستی، ضیعف الاعتقادی پر دل چسپ مضمون تحریر کیا۔ نعت خواں نورمحمّد جرال سے بہت مفید بات چیت کی گئی۔ بلوچستان کے تاریخی شہرسبّی میں سوا سو سالہ قدیم عمارات موجود ہیں، پڑھ کرخاصی حیرت ہوئی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں خون کے سرطان سےمتعلق مضمون بے حد معلوماتی تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ ہمیشہ کی طرح پیارا لگا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل کرنے کا بہت شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)
ج: ایسے تو پھر آپ کی عُمر ’’شکریہ، شکریہ‘‘ کہتے ہی گزر جائے گی کہ بھلا ہمارے کس جریدے میں آپ کا خط شامل نہیں ہوتا۔
موبائل کی دنیا سے تو نکلے
سنڈے میگزین پڑھنے کو ملا، جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔ بہت ہی خُوب صُورت شمارہ ہے۔ اوّل نمبر پر محمود میاں نجمی کی تحریر ہوتی ہے، جو بہت ہی معلوماتی، سبق آموز، رُوح پرور ہوتی ہے۔ نادراکےچیئرمین، طارق ملک سے ’’گفتگو‘‘ بہترین تھی۔ مائوں کے عالمی دن کی مناسبت سے جو بھی تحریریں شایع کی گئیں، سب لاجواب تھیں۔ ایک درخواست ہے، نوجوان طلبہ کے لیے، مختلف سائنس دانوں سے متعلق معلومات ضرور شائع کیا کریں، تاکہ یہ آج کل کی نوجوان نسل اپنی موبائل کی دنیا سے تو کسی طرح نکلے۔ اور ایک تجویز ہے کہ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلے کے لیے ایک دن شوبز اسٹارز، اور ایک دن اسپورٹس مین کے لیے بھی وقف کریں، تاکہ لوگ اپنے مَن پسند سلیبریٹیز کے نام بھی پیغامات ارسال کر سکیں۔ میری نظر میں تو آج کے دَور میں، نوجوانوں کے لیے’’سنڈے میگزین‘‘ کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں۔ اورآپ ہی کے پلیٹ فارم سے ایک اور درخواست بھی کرنا چاہوں گی کہ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ فخرِپاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بعد از مرگ، مُلک کے سب سے بڑے سویلین اعزاز سے نوازے کہ یہ اُن کا اِس مُلک و قوم پرقرض اور ہمارا فرض ہے۔ (ہاشم خان نیازی، فضٰی عارف، راول پنڈی)
ج: سائنس دانوں سے متعلق معلومات کی اشاعت سے اگر نوجوان نسل موبائل کی دنیا سےنکل سکتی، تو بخدا ہم تو پورے جریدے کو’’سائنس میگزین‘‘ بنادیتے۔ لیکن یہ سراسر آپ کی خوش فہمی ہی ہے، یہ نسل تو موبائل فونز کے سامنے اپنے والدین، خُون کے رشتے بُھلائے بیٹھی ہے، توسائنس دان بھلا کیا بیچتے ہیں۔ اور رہی بات، ڈاکٹر عبدالقدیر کے لیے کسی سویلین اعزاز کی، تواُنھیں اُن کی زندگی ہی میں دوبار نشانِ امتیاز اور ایک بار ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا تھا اور پھراس مُلک کے عوام کے دِلوں میں جس طرح وہ زندہ ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہیں گے، اُس سے بڑھ کر کوئی اعزاز بھلا کیا ہو سکتا ہے۔
یہ ہے آپ کا سنڈے میگزین…؟
صفحات کم، اشتہارات زیادہ، صرف حکومت کے وزراء، مشیران کے مضامین، یہ ہے آپ کا ’’سنڈے میگزین‘‘…؟؟ آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا، جواب جلدی دیں اور میرے مضامین کب شائع ہوں گے۔ کیا خواتین کو مضامین کی اشاعت کے لیے رقم دینا پڑتی ہے۔ ذرا وضاحت فرما دیں۔ (شہناز سلطانہ، گلزار ہجری، کراچی شرقی)
ج: محترمہ! جریدے سے اشتہارات ہی تو کم ہوئے ہیں، تب ہی تو مجبوراً صفحات بھی کم کرنا پڑ گئے کہ یہ جو آپ اتوار کے اخبار کے روزانہ اخبار سے 5روپے زائد عنایت فرماتے ہیں، اِس میں تو ایک ٹافی بھی نہیں آتی، 16صفحات کے جریدے کی تیاری کیسے ممکن ہے۔ اشتہارات مِل رہے تھے تو 24، 26 اور32 صفحات کا میگزین بھی باآسانی تیار ہورہا تھا، اب تو 16صفحات بھی ادارے کے لیے بھاری پتّھر کے مترادف ہیں اور حکومت کے وزراء، مشیران کے مضامین آپ نے کہاں دیکھ لیے؟ یہ وزراء، مشیران مضامین لکھنے کے اہل ہوتے تو آج مُلک کا یہ حال ہوتا۔ جب کہ خواتین کے مضامین سے متعلق تو آپ نے بہت ہی نامناسب بات کی کہ ہم پر تو ہمیشہ سے بحیثیت خاتون، خواتین کے ساتھ ترجیحی سلوک کا ٹھپّا ہی لگا ہے۔
اچھا خاصا مواد
بندہ عرصۂ دراز سے نہ صرف تعلیم کے شعبے بلکہ صحافت سے بھی منسلک ہے۔ آرٹیکلزوغیرہ لکھنےکے لیے اچھا خاصا مواد میسّرآجاتا ہے، اس لیے ہفتے، دو ہفتے میں ایک آدھ تحریرآپ کی خدمت میں ارسال کر دیتا ہوں۔ محمود میاں نجمی کی نگارش ’’قصّۂ یاجوج ماجوج‘‘ اوررائو محمّد شاہد اقبال کی تحریر کافی معلوماتی تھیں۔ علاوہ ازیں، سلمٰی اعوان کی ’’عورت اور ماں‘‘ بھی بہت متاثرکُن لگی۔ ’’ذی الحج کی فضلیت‘‘ اور ’’خطبۂ حجتہ الوداع‘‘ کے موضوع پر ایک تحریر ارسال کررہا ہوں۔ اُمید ہے،معیار پر پوری اُترے گی۔ (بابر سلیم خان، لاہور)
ج: جی، آپ کی تھوک کے بھائو ملنے والی تحریروں سے اندازہ ہورہا ہے کہ آپ کو اچھا خاصاموادمیسّرآجاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ آپ وہ سارا مواد ہمیں ہی ارسال کردیں۔ براہِ مہربانی جب تک ایک تحریر شائع نہ ہوجائے، دوسری مت بھیجیں اور اتنی ڈھیرناقابلِ اشاعت تحریروں کے بجائے تھوڑی مزید محنت کرکے کسی ایک ہی تحریر کوقابلِ اشاعت بنانےکی کوشش کریں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
’’مدرزڈے ایڈیشن‘‘ موصول ہوا۔ سرِورق پر دردانہ رحمٰن، بیٹی ماہم کےساتھ براجمان تھیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’مدینہ منورہ: عہدِ قدیم سے دورِجدید تک‘‘ کی آخری قسط پیش کی گئی، جس میں مدینہ کے تاریخی مقامات اور سات کنووں کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا، تو جدید ترین قرآن پرنٹنگ کمپلیکس سےمتعلق بھی حیران کُن معلومات موجود تھیں۔ بلاشبہ یہ قرآن ہی کا معجزہ ہے کہ ساڑھے چودہ سوسال سے زیادہ ہوگئے، مگرایک زیر، زبر بھی تبدیل نہیں ہوئی، کیوں کہ اللہ خُوداس کا محافظ ہے اور حفاظت کا ذریعہ بھی کیا بنایا کہ نابالغ بچّوں تک کے سینوں میں محفوظ کردیا۔ حالاں کہ عموماً چند صفحات کا لٹریچر بھی بڑوں بڑوں کو لفظ بہ لفظ ازبرنہیں ہوتا۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا بھارت میں ہونے والے شنگھائی فورم اجلاس کی تفصیلات بتا رہے تھے،ہمارے خیال میں تو یہ سب تضیّعِ اوقات ہی ہے، برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایسے اجلاسوں میں ’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘کےسواکچھ نہیں ہوتا۔وزیرِ خارجہ کابھارت اجلاس میں جانااوربھارت کا ایشین چیمپئن شپ میں کرکٹ ٹیم نہ بھیجنا سُبکی والی بات نہیں ہے کیا۔ پتا نہیں ہم کیوں معذرت خواہی کی حد تک جُھکتے ہیں۔ شفق رفیع مدرزڈے کےحوالےسےممتا میں ڈوبی تحریر لائیں۔ واقعتاً ملازمت پیشہ خواتین کو دہری پریشانیوں کا سامنا ہے، مگر ممتا کے فرائض سےغفلت نہیں برتتیں۔
راؤ محمّد شاہد اقبال،اسٹیفن ہاکنگ سےمتعلق بتا رہے تھے، جوساراجسم مفلوج ہونے کے سبب، پلکوں سےبات کرتے تھے۔ یہ بھی قدرت کی کاری گری ہے کہ دماغ بالکل سلامت اور صلاحیتوں، ذہانتوں سے بھرپور تھا، مگر زبان اظہار سے قاصر۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں عندلیب زہرا، اقصٰی منورملک، نورالعین وقاص، ثروت اقبال سب ہی ماں کی عظمت کو سلام پیش کررہی تھیں۔ دردانہ رحمٰن کا جوان بیٹے کی موت پر تحمّل و برداشت کا مظاہرہ بڑا متاثرکُن تھا۔ محسوس ہوا لکھتے ہوئے آپ کا قلم بھی لرزتا رہا۔ دردانہ رحمٰن ستّر کی دہائی میں فن کے عروج پر تھیں، اِسی سے یاد آیا، اُسی دورمیں نیّرہ نور کی آواز بھی کانوں میں رس گھولتی تھی، ہو سکے تو ان کا انٹرویو بھی کروالیں۔
’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں ڈاکٹر علاؤالدین کاکڑ موٹاپے کےمضراثرات سے متعلق بتا رہے تھے، تو ڈاکٹر ایم صابر سکندری نے پیٹ درد کی وجوہ بیان کیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں انوارِ جہاں ’’جمعے والی میڈم‘‘ کے عنوان سے منفرد تحریرلائیں۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ کے دونوں واقعات الم ناک تھے۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی ماہرانہ تبصرہ کر رہے تھے، تو ہمارے صفحے پر ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز شبینہ گل انصاری کے حصّے آیا۔ کیا یہ وہی شبینہ گل ہیں جو شعرو شاعری بھی کرتی ہیں۔ ان کی ایک غزل تو بہت ہی متاثرکن تھی ؎ چند سانسوں کے سوا کچھ نہیں بیمار کے پاس… آپ کیوں آگئے گرتی ہوئی دیوار کے پاس۔ ہماری چِٹھی بھی شاملِ بزم تھی اور ہم نے آج آپ کے حُکم کے مطابق مختصر نویسی سے بھی کام لیا ہے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: ماشاء اللہ! کیا مختصر نویسی سےکام لیا ہے آپ نے؟؟ اورچلیں، باقی سب تو پھر ٹھیک ہے، بس نیّرہ نورکاانٹرویوایسا کریں، آپ خُود کرلیں کہ فی الحال عالمِ بالا سے کسی کنیکشن کی کوئی سہولت ہمیں تو دست یاب نہیں۔ اورجی بالکل، چِٹّھی والی اور شعر و شاعری والی دونوں شبینہ گل انصاری ایک ہی ہیں۔ جواب درست، ہماری طرف سے رہبر کا کولرآپ کا ہوا۔
گوشہ برقی خطوط
* ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے میں شایع ہونے والے ایک واقعے کے تناظر میں مجھے ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید کا فون نمبر درکار ہے۔ اگر عنایت کردیں، تو مہربانی ہوگی۔ (مسز مدیحہ جمیل)
ج: ہم نے آپ کو جوابی ای میل کے ذریعے نمبر بھیج دیا ہے، کیوں کہ کسی بھی قاری یا لکھاری کا ذاتی نمبر جریدے میں شایع نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے آپ کو جس مقصد کے لیے اُن کا نمبر درکار ہے، ہم وہ پہلے ہی پورا کرچُکے ہیں کہ دختران کی شادی کا وظیفہ اُن سے پوچھ کے 23 جولائی کے ایڈیشن میں شایع کر دیا گیا ہے۔
* ’’قصص القرآن‘‘ کے بعد قیامت کی نشانیوں پرایک سلسلے وار تفصیلی مضمون شروع کردیں۔ اورمیگزین کو آن لائن کرنے کا خیال بھی دل سے نکال دیں۔ بے شک میگزین کی قیمت 60روپے کردیں، مگراِسے آن لائن ہرگزمت کیجیےگا۔ ویسے اگرآپ اچھی ماڈلز سے شُوٹس کروانا شروع کردیں گی، تو لوگوں کو جریدہ 60 روپے میں خریدنا بھی منہگا نہیں لگے گا۔ (آمنہ اسلم، لاہور)
ج: اتنے شان دار مشورے کا بے حد شکریہ۔ اچھی ماڈلز کی پیمنٹ کا انتظام بھی اگر تمہاری طرف سے ہوجائے، تو بس پھر تو سارے مسئلے ہی ختم۔
* ’’سنڈے میگزین‘‘ کے اگر کچھ پرانے ایڈیشنز درکار ہوں، تو اُن کو منگوانے کا کیا طریقۂ کار ہے۔ اور پلیز، یہ بھی بتا دیں کہ کتنے پرانے جرائد منگوائے جاسکتے ہیں۔ (مصطفیٰ احمد، کراچی)
ج: کسی دَور میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کی کاپیز قیمتاً منگوائی جاسکتی تھیں، لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہوچُکا ہے۔ بس، جریدے کی چند ایک کاپیزادارے کے اپنے ریکارڈ ہی کے لیےرکھی جاتی ہیں۔ہاں البتہ، ہمارے ریسرچ اینڈ ریفرنس سیکشن میں فائلز اور مائکرو فلمز کی صُورت آج تک کے تمام اخبارات و جرائد محفوظ ہیں، جب کہ ہمارے انٹرنیٹ ایڈیشن سے بھی آپ کم ازکم دوسال کا ریکارڈ توباآسانی سرچ کرسکتے ہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk