• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چنبل: جسم کے کسی بھی حصے میں ظاہر ہوسکتا ہے

ڈاکٹر یاسمین شیخ، کراچی

سورائسز(Psoriasis)، جسے اردو میں چنبل کہتے ہیں، ایک جِلدی مرض ہے اور یہ کم و بیش پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ البتہ مختلف ممالک میں اِس کی شرح الگ الگ ہے۔ہمارے یہاں اِس کی شرح پانچ فی صد کے لگ بھگ ہے، جب کہ دیگر ممالک میں دو سے تین فی صد افراد اِس سے متاثر ہوتے ہیں۔ چوں کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، لہٰذا طبّی تحقیقی ادارے اِس کی وجوہ اور علاج کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے میں سرگرم ہیں۔ نیز، ماہِ اگست کو اِس مرض سے متعلق عوامی آگاہی کے ماہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

چنبل کی شروعات سُرخ داغ یا باریک، ننّھے دانوں سے ہوتی ہے، جن پر چاندی کی مانند چمکتے چِھلکے چِپکے ہوتے ہیں۔کوئی متاثرہ فرد خارش ہونے پر جب اِن دانوں کو کُھجاتا ہے، تو یہ چِھلکے جِلد سے جَھڑ جاتے ہیں اور نیچے کی جِلد میں باریک نقطوں کی شکل میں خون نظر آنے لگتا ہے۔ جِلد پر چوڑے سُرخ چکتے بن جاتے ہیں، جن پر چھلکے تہہ بہ تہہ چِپکے ہوتے ہیں۔ یہ پوری جِلد پر اکٹھے نہیں ہوتے، ہاں، اگر بروقت علاج نہ کیا جائے، تو پھر یہ پھیل سکتے ہیں۔یہ چِھلکے سر میں بھی ہوسکتے ہیں، جو کنگھا کرنے یا کُھجانے پر گرتے ہیں، جنھیں عام طور پر خشکی تصوّر کر لیا جاتا ہے۔

بہت سے لوگوں میں یہ مرض کئی سال تک صرف سر ہی تک محدود رہتا ہے۔چوں کہ سر کی جِلد لا تعداد بالوں سے ڈھکی ہوتی ہے، اِس لیے اُس پر موجود سُرخی کا پتا نہیں چلتا، پھر یہ کہ کوئی فرد خود اپنے سر کی کھال بآسانی دیکھ بھی نہیں سکتا۔ ہاں، حجامت کے دَوران حجام کی نظر پڑ جائے، تو الگ بات ہے یا عورتیں دوسری عورتوں کو کنگھا کرتے یا اُن کے سر میں تیل لگاتے وقت جِلد کی سُرخی دیکھ سکتی ہیں۔

بہرحال، جب یہ مرض بڑھتا ہے، تو پیشانی کی جانب سُرخی، خشکی اور خارش شروع ہو جاتی ہے، جس پر مریض کو تشویش لاحق ہوتی ہے کہ اُس کی جِلد خراب ہورہی ہے۔ یہ چکتے جسم کے کسی بھی حصّے میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔یعنی چہرہ، گردن، سینہ، پیٹھ، پیٹ، ٹانگ، کُہنی یا گھٹنے وغیرہ اِس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ مرض میں شدّت کی صُورت میں پورا بدن( سر اور چہرے سمیت) چِھلکوں سے ڈھک جاتا ہے، جن میں بے انتہا خارش ہوتی ہے۔ جِلد کی خرابی سے جسم کا درجۂ حرارت کبھی گرم تو کبھی سرد محسوس ہوتا ہے۔

متاثرہ فرد تکلیف کی شدّت کے سبب آرام کرسکتا ہے اور نہ ہی کھا پی سکتا ہے۔ بستر، کرسی سب چیزیں چِھلکوں سے بَھر جاتی ہیں، یہاں تک کہ مریض کی شکل و صُورت بھی بگڑ کر رہ جاتی ہے۔ اللہ کا شُکر ہے کہ اب عوام میں خاصا شعور آگیا ہے اور وہ معاملات زیادہ خرابی تک جانے سے پہلے ہی بچاؤ کی صُورت کرتے ہیں۔ یہ مرض جِلد کے علاوہ جوڑوں مثلاً گھٹنوں اور ہاتھ، پاؤں کی انگلیوں میں بھی سرایت کرسکتا ہے۔ اِس کے سبب جوڑوں میں سُوجن اور درد ہوتا ہے۔ کبھی کبھار انگلیاں اِتنی متاثر ہو جاتی ہیں کہ اُن کے لیے کسی چیز کو پکڑنا بھی دشوار ہو جاتا ہے اور مریض محتاجی کی جانب چلا جاتا ہے۔ البتہ خوش آیند امر یہ ہے کہ پاکستان میں بہت کم مریضوں کو اس مرض میں جوڑوں کی شکایت محسوس ہوتی ہے۔

سورائسز کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس میں ہتھیلیوں اور تلووں میں پیپ بَھرے دانے بن جاتے ہیں، جن کے علاج میں کافی وقت لگتا ہے۔علاوہ ازیں، یہ مرض دو تا آٹھ ماہ کے بچّوں میں چڈے، ران کے اوپری حصّے، کولھے کے پیچھے سُرخی، گیلے پن اور جلن کی شکل میں نمودار ہو سکتا ہے، اِسی لیے اسے’’ نیپکن سورائسز‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ البتہ اِس کی شناخت دشوار ہے کہ پیمپر الرجی بھی اِس سے مِلتی جُلتی ہوتی ہے۔ 

تاہم، دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اگر بچّوں کو پیمپر باندھنا بند کر دیں، تو الرجی ختم ہو جاتی ہے، لیکن سورائسز کی وجہ سے ہونے والی سُرخی، جلن اور جِلد کا خراب ہونا پیمپر کا استعمال بند کرنے سے نہیں جائے گا، جب تک کہ اِس کی درست دوا نہ کی جائے۔ اِس مرض میں جِلد کے ساتھ ناخن بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ بار بار کُھجانے سے یہ چمک دار ہو جاتے ہیں، ان میں باریک گڑھے پیدا ہو جاتے ہیں، یہ ٹوٹ سکتے ہیں اوران میں فنگس بھی ہو سکتا ہے۔

چنبل سے منہ بہت زیادہ متاثر تو نہیں ہوتا، البتہ ہونٹ سُرخی مائل اور خشک رہتے ہیں۔ زبان پر سفیدی مائل دھاریاں بن جاتی ہیں۔ کبھی انفیکشن بھی ہوسکتا ہے، آنکھ کے اندر سُرخی کے علاوہ پپوٹوں کی جِلد پر موجود چِھلکے کنارے پر آکر پلکوں کے بالوں کو متاثر کرتے ہیں۔ سورائسز چھوٹے بچّوں، جوانوں، ادھیڑ عُمر اور عُمر رسیدہ افراد، غرض ہر عُمر کے مرد و خواتین کو ہوسکتا ہے۔نیز، جنھیں قوّتِ مدافعت کی کمی کی وجہ سے آٹو امیون بیماریاں لاحق رہتی ہیں، وہ بھی اِس مرض سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک علاج کا تعلق ہے، تو اِس ضمن میں بہت سے طریقے رائج ہیں، جن سے مرض کنٹرول تو کیا جاسکتا ہے، مگر اِس کا مکمل خاتمہ ذرا مشکل ٹاسک ہے۔ گو کہ جدید سائنس مختلف تجربات جاری رکھے ہوئے ہے، مگر اب تک حتمی طور پر کوئی ایسی دوا نہیں بن سکی، جو اِس مرض کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے۔ یہ ضرور ہے کہ مرض کی جَلد تشخیص اور فوری علاج سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔یہ مرض بعض اوقات برسوں کے لیے غائب بھی ہو جاتا ہے۔

اِس سے نجات کے لیے ادویہ، مرہم اور شعاؤں وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ہمارے معاشرے میں چنبل سے متعلق طرح طرح کے بے بنیاد تصوّرات رائج ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ طاقت بخش کھانوں کو ٹھنڈا یا گرم تاثیر کہہ کر بند کروا دیا جاتا ہے۔ گوشت(ہر قسم کا)، مرغی، مچھلی، انڈا، دودھ، لسّی مہینوں بند کرکے مریض کو لوکی، توری، ٹینڈے اور چپاتی وغیرہ پر رکھ دیا جاتا ہے، نتیجتاً مرض تو اپنی جگہ برقرار رہتا ہے، مگر مریض بے حد کم زور ہو جاتا ہے۔

جسم کے اندر خون کی کمی سے جِلد کی طاقت کم ہو جاتی ہے، کیوں کہ جو چھلکے روزانہ جِلد سے نکل کر گرتے ہیں، وہ پروٹین سے بنے ہوتے ہیں اور پروٹین وہ اہم چیز ہے، جو جِلد کی اوپری اور نچلی تہہ میں موجود خلیوں کو مضبوط بناتی ہے، تو جب یہ خلیے اچھی خوراک میں موجود پروٹین کو پائیں گے، تب ہی ٹھیک سے کام کر سکیں گے۔ واضح رہے کہ گوشت، مچھلی، مرغی، انڈا، دودھ اور اس سے بنی اشیاء، جیسے لسّی، مکھن، پنیر، دیسی گھی، سب اعلیٰ پروٹین بناسکتی ہیں۔ یہ اشیاء مناسب مقدار میں مریض کو کھلائیں اور اِس معاملے میں خوف زدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں کہ اُسے گرمی چڑھ جائے گی۔ 

گرمی تو بدن میں چِھلکوں کے اُترنے سے سُرخی کی وجہ سے محسوس ہوتی ہے۔جب علاج کے ساتھ اچھی خوراک بھی بدن کو ملے گی، تو دُہرا فائدہ ہوگا، البتہ بازاری کھانوں، بریانی، سموسوں، مرچ مسالوں سے بھرپور چَٹ پٹی چیزوں، تیل میں ڈوبے فرینچ فرائز سے پرہیز ضروری ہے۔اگر کھانے کو بہت دِل کرے، تو تمام چیزیں گھر میں ہلکے مسالے میں پکوا کر کھائیں۔ کھانے میں سوجی کا حلوا، سویّاں، فیرنی، کسٹرڈ وغیرہ بھی لیں کہ مریض کے منہ کا ذائقہ ادویہ کی وجہ سے اچھا نہیں رہتا۔ تازہ، پھل اور سلاد کا استعمال بھی مریض کے لیے فائدہ مند ہے۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ گھر والوں کو صبرو تحمّل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ مرض آہستہ آہستہ ہی کنٹرول میں آئے گا۔ اگر متاثرہ فرد گھر کا واحد کفیل ہے، تو اس کی دل جوئی کریں۔ اُسے سوتی کپڑے پہنائیں اور جیسے ہی مرض میں بہتری ہو، اُسے اُس کے روزگار کی طرف متوجّہ کریں۔اچھی بات یہ ہے کہ یہ مرض دل، جگر، گُردوں یا پھپھڑوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتا، لہٰذا کسی احساسِ کم تری میں مبتلا ہوکے اپنےروزگار وغیرہ سے دُور نہ ہوں، ورنہ ڈیپریشن میں مبتلا ہوجائیں گے۔ یوں بھی گھر سے باہر نکلنے سے مزاج اچھا رہے گا اور علاج اور اچھی خوراک جاری رکھیں گے، تو مرض میں مسلسل بہتری محسوس کریں گے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ جِلد ہیں اور انکل سریا اسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں)