• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد سلمان عثمانی

چھے ستمبر 1965ء صرف پاکستان ہی نہیں، مسلم اُمّہ کی فتح کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے، جب طاقت کے نشے میں چُور دشمن رات کے اندھیرے میں سر زمینِ مقدّس پہ حملہ آور ہوکے مسلم قوم کے شیر دل جوانوں سے نبرد آزما ہوا۔یہ وہ دن ہے، جب بھارتی سرماؤں نے پاک فوج کو للکارا۔کون جانتا تھا کہ صبح کا سورج اس مُلک کے لیے ایک آزمائش لے کر آئے گا۔دشمن اچانک تمام تر جنگی قوانین و اخلاقیات پامال کرتا حملہ آور ہوگا۔ لیکن مملکتِ خدادا کے عوام اور پاک فوج نے کچھ ایسی یک جہتی کا مظاہرہ کیا کہ دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے۔

6ستمبر 1965ء عسکری اعتبار سے بھی تاریخِ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا دن ہے کہ جب رقبے میں کئی گُنا بڑے مُلک نے افرادی قوّت اور دفاعی وسائل میں برتری کے زعم میں اپنے سے بہت چھوٹے پڑوسی مُلک پر کسی اعلان کے بغیر فوجی حملہ کیا، لیکن اِس چھوٹے، مگر غیّور و متحد مُلک نے اس پامردی اور جان نثاری سے مقابلہ کیا کہ تاریخ میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔

سو، دشمن کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی و ہزیمت اٹھانا پڑی۔کون نہیں جانتا، جارحیت کرنے والا وہ بڑا مُلک بھارت اور غیور و متحد مُلک، پاکستان تھا۔اس جنگ سے یہ ثابت ہوا کہ جنگیں عوام اور فوج متحد ہو کر ہی لڑتی اور جیت سکتی ہیں۔ پاکستانی قوم کی اپنے مُلک سے مثالی محبّت اور مسلّح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت و جان نثاری نے مل کر ناممکن کو ممکن کر دِکھایا، حالاں کہ بھارت کی طرف سے تھوپی گئی یہ جنگ دوقومی نظریے اور پاکستان کے قومی اتحاد کے لیے بہت بڑا چیلنج تھی، مگر جرّی قوم نے کمال وقار اور بے مثال جذبۂ حریّت سے اسے قبول کیا اور لازوال قربانیاں پیش کر کے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ 

ہر پاکستانی کا دورانِ جنگ ایک ہی عزم تھا کہ اُسے دشمن کا سامنا کرنا اور کام یابی حاصل کرنی ہے۔جنگ کے دَوران جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکری طاقت پر نہیں تھیں بلکہ ہر ایک عزم صرف مُلک کے چپّے چپّے کی حفاظت تھا۔ تب ہی ہر طبقۂ فکر نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔اساتذہ، طلبہ، شعراء، ادباء، فن کاروں، گلوکاروں، ڈاکٹرز، سول ڈیفینس کے رضا کاروں، مزدوروں، کسانوں اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دُھن اور آواز تھی کہ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا۔‘‘

سوال یہ ہے کہ اِتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط بھارت کے مقابلے میں نسبتاً کم زور مُلک پاکستان کے عوام میں ایسا کون سا جذبہ تھا، جس نے پوری قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔ تو یقیناً وہ صرف ایک ہی جذبہ تھا، جذبۂ حب الوطنی۔بھارت نے ’’رن آف کَچھ‘‘ کی سرحد پر طے شدہ قضیے کو بلا جواز زندہ کیا اور فوجی تصادم کے نتیجے میں ہزیمت اٹھائی، تو یہ اعلان کردیا کہ وہ آئندہ پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا، اس کے باوجود پاکستان نے بھارت سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ قدم نہ اُٹھایا۔ 

صرف اپنی مسلّح افواج کومعمول سے زیادہ الرٹ کیے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے حملہ کیا، تو آناً فاناً ساری قوم، فوجی جوان اور افسران، حتیٰ کہ سرکاری ملازمین بھی جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائی میں مصروف ہوگئے۔صدرِ مملکت، محمّد ایّوب خان کے قوم سے ایمان فروز اور جذبۂ جہاد سے لب ریز خطاب کی وجہ سے مُلک’’ اللہ اکبر‘‘ اور’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ اِس جملے نے تو، کہ’’پاکستانیو! اٹھو، لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اور دشمن کو بتا دو کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘گویا قوم کے اندر ایک نئی رُوح پھونک دی۔ 

پاکستان آرمی نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو صرف روکا ہی نہیں، بلکہ پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔حملے سے قبل بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ آج شام لاہور کے جم خانہ میں شراب کی محفل سجائیں گے،لیکن پاک افواج نے کمانڈر انچیف کے منہ پر وہ طمانچے جڑے کہ پھر وہ مرتے دَم تک منہ چُھپاتا پھرا۔ لاہور سیکٹر کو میجر عزیز بھٹّی جیسے سپوتوں نے سنبھالا، جان دے دی، مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا۔

چونڈہ سیکٹر کو(جو بھارت کا پسندیدہ اور اہم محاذ تھا) پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ و بارود سے نہیں، اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر بھارتی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنادیا۔ بھارت کی یہ تباہی دیکھ کر بیرونِ ممالک سے آئے صحافی بھی حیران ہوئے اور پاک افواج کو دلیری و شجاعت پر خُوب داد دی۔ علاوہ ازیں، جسٹر سیکٹر قصور، کھیم کرن اور موناباؤ سیکٹرز پر بھی دشمن کو ایسی عبرت ناک شکست ہوئی کہ اُسے پکا ہوا کھانا، فوجی ساز و سامان، جیپیں اور جوانوں کی وردیاں چھوڑ کر میدان سے بھاگنا پڑا۔

اس جنگ میں پاک بحریہ نے بھی قابلِ فخر کردار ادا کیا۔ اعلانِ جنگ کے ساتھ ہی بحری یونٹس کو متحرّک کر کے مقرّرہ اہداف کی طرف روانہ کردیا گیا۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساحلی پٹّی پر پیٹرولنگ شروع کر دی گئی۔پاکستان کے بحری، تجارتی رُوٹس کی حفاظت بھی پاکستان بحریہ کی ذمّے داریوں میں شامل ہے، اِس لیے سمندری تجارت بحال رکھنے کے لیے بھی یونٹس بھجوائے گئے،نتیجتاً پوری جنگ کے دَوران پاکستان کا سامانِ تجارت لانے، لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک سفر کرتے رہے۔جب کہ بھارتی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا۔

پاک بحریہ کی کام یابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ بھارت کے تجارتی جہاز ’’سرسوتی‘‘اور دیگر ایک عرصے تک پاکستان کے قبضے میں رہے۔ 7ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کام یابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آب دوز پی این ایس غازی بھی شامل تھی، بھارت کے ساحلی مستقر’’دوارکا‘‘پر حملے کے لیے روانہ ہوا، اِس قلعے پر نصب ریڈارز پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک بڑی رکاوٹ تھے۔ 

مذکورہ فلیٹ صرف 20منٹ تک’’ دوارکا‘‘ پر حملہ آور رہا، توپوں کے دھانے کُھلے اور چند منٹ میں اُسے تباہ کردیا۔ پی این ایس غازی کا خوف دشمن کی بحریہ پر کچھ ایسا غالب تھا کہ بھارتی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرأت ہی نہ کرسکا۔ اس کے جہاز’’تلوار‘‘کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا، مگر وہ بھی’’غازی‘‘ کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔

ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نور خان جیسے قابلِ فخر کمانڈرز کے تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے دشمن کے خلاف’’ہوا باز گھوڑے تیار کر رکھے تھے‘‘جیسا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف تیار رہنے کا حکم ہے۔ ہمارے ہوا باز7ستمبر کو اپنے اہداف پر جھپٹ پڑے۔ اسکوارڈرن لیڈر، ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہاز مار گرائے، تو دوسری طرف، اسکوارڈرن لیڈر سرفراز رفیقی، اسکوارڈرن لیڈر منیر الدّین اور علاؤالدّین جیسے شہدا نے بھی ثابت کردیا کہ حرمتِ وطن کی خاطر جانوں کا نذرانہ کوئی منہگا سودا نہیں۔ 

ہوا بازوں نے بھارتی جنگی ہوائی اڈّوں کو اِس طرح نقصان پہنچایا کہ ’’ہلواڑا‘‘ بنا دیا۔ اس جنگ کا غیر جانب داری سے جائزہ لیں، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے، خون خوار اور سرکش شکار کو پاکستان جیسے چھوٹے مُلک نے بآسانی جال میں قید کرلیا اور یہ سب کچھ قائدِ اعظم کے بتائے اصولوں (ایمان، اتحاد، تنظیم) پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہوا۔کسی بھی زاویۂ نگاہ سے دیکھیں، یہی اصول1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کام یابی کا مرکز و محور تھے، قوم نے ہر طرح کا فرق مِٹا کر اور متحد ہو کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا بے مثال مظاہرہ کیا۔

سنڈے میگزین سے مزید