• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الحمدللہ وطنِ عزیز پاکستان کو قدرت نے بے پناہ قدرتی وسائل سے ہی مالا مال نہیں کیا ہے بلکہ آئیڈیل جغرافیائی محلِ و قوع بھی بخشا ہے ہم ایک طرف جہاں جنوبی ایشیااور ایسٹ ایشیاسے جڑے ہوئے ہیں وہیں سینٹرل ایشیا کے دہانے پر ہیں سمندری طور پر بحر ہند اور بحر عرب کے عین وسط میں جبکہ زمینی طور پر چین اور روس جیسی سپر پاورز کی ہمسائیگی میں ہیں۔ سرد جنگ کے دوران اور مابعد یہ خطہ اپنی خاص اہمیت کا حامل چلا آ رہا ہے ایران و افغانستان کے حالات نے عالمی سطح پر جو اثرات ڈالے اس میں پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان اگر اتنی اہمیت کا حامل ملک ہے تو دنیا ہمارے ساتھ اعلیٰ و دیرپا تعلقات کے لئے دوڑی کیوں نہیں چلی آرہی؟۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں سوائے ترکی کے ہم پاکستانیوں کو اس عزت و احترام کے ساتھ نہیں دیکھا جاتا اپنے تئیںجس عزت و وقار کی ہم توقع رکھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر تو ہین آمیز سلوک کیا ہو سکتا ہے کہ خود ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اپنے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کے متعلق یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ امریکہ ہمیں اپنا مستقل اتحادی یا دوست نہیں سمجھتا مطلبی دوست سمجھتا ہے یا ہم اسے مطلبی دوست سمجھتے ہیں ، جب مطلب نکل جا تا ہے تو ہمیں چھوڑ جاتا ہے۔ ہماری نظر میں مشیر خارجہ کو اس نوع کی شکایت نہیں کرنی چاہئے تھی انٹر نیشنل ریلیشن میں دوستیاں یا دشمنیاں روایتی عاشق معشوق جیسی ہوتی ہیں نہ روایتی رقیبوں جیسی یہ تو قوموں کے باہمی مفادات کی مطابقت میں چلتی ہیں۔
جذبہ خود احتسابی صرف سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے نہیں اپنی قومی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کا جا ئزہ لینے کے لئے بھی ہو نا چاہئے ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہماری سوچ کہیں کنویں کے مینڈک جیسی تو نہیں ہے۔ عالمی تعلقات یا سفارت کاری کا عمل ہمارے روایتی گلی محلے کے کلچر جیسا ہرگز نہیں ہے یہاں ہلکی دشمنیاں ہوتی ہیں نہ ابدی دوستیاں۔ سرد جنگ کے دوران اگر ہم سیٹو، سینٹو یا بغداد پیکٹ کے تحت امریکی اتحادی بنے تھے تو یہ امریکہ پر ہمارا کوئی احسان نہیں تھا ہماری اپنی ضروریا ت تھیں ہمارے اپنے مفادات تھے پیہم مفادات سے لطف اندوز ہوتے بھی رہے سوویت یونین کے خلاف اگر امریکہ نے ہمیں استعمال کیا تو ہم بھی اپنے مخصوص مفادات کی خاطراستعمال ہوئے۔ آج چین سے ہماری دوستی کن اعلیٰ آدرشوں یا اصولوں پر استوار ہے؟ہماری خارجہ پالیسی کا محور اگر ہمارا نظریہ حیات اسلام ہے تو پھر ہمیں چینی مسلمانوں کے خلاف نماز روزے کے حوالے سے لگائی گئی سرکاری پابندیوں کے خلاف بولنا چاہئے تھا۔ اسی طرح اگر مسلم حق نیا بت یا حق خود ارادیت کو ہماری خارجہ پالیسی میں کلیدی حیثیت حاصل ہے تو چینی مسلم اکثر یتی خطے سنکیانگ کی زبوں حالی کو بھی وہی حیثیت ملنی چاہئے تھی جو ہم انڈیا کے خلاف کشمیر کو دیتے ہیں۔ تاریخی پسِ منظر جو بھی ہے اصولی نقطہ نظر کیا ہونا چاہئے؟ ۔ اگر خدا نخوستہ ایسی کوئی صورتحال امریکہ میں درپیش ہوتی تو ہمارا دفتر خارجہ کیا ، ہماری اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہونا تھا لیکن یہاں کسی سینے میں امہ کا درد جا گتا ہے نہ نظریہ حیات بے قابو ہوتا ہے امہ کا درد تو شاید اب ہمیں عرب دنیاکے حوالے سے بھی خاصا کم ہو چکا ہے۔آج اگریہ خلیجی ریاستیںہمارے ازلی دشمن بھارت کی آئو بھگت کر رہی ہیں تو ہمیں دکھ کا ہے کو ہے؟ انڈیا خلیجی تیل کا خریدار ہے دیگر معاملات میں بھی باہمی تجارتی معاہدے ہو رہے ہیں ہند عرب دوستی بڑھ رہی ہے تو اس میں جلنے والی کونسی بات ہے؟ کچھ عرصہ قبل جب متحدہ عرب امارات میں بھی بھارتی وزیر اعظم مودی کا ایسا ہی استقبال کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں ایک بڑے مندر کی رونمائی کروائی گئی تھی تو ہمارے پاکستانی میڈیا نے جلے دل کے بہت سے پھپھولے پھوڑے تھے۔حال ہی میں حکومت ایران نے بھارتی وزیراعظم کا جس طرح سواگت کیا ہے وہ بھی ہم سب کو نہ جانے کیوں بری طرح کھٹک رہا ہے۔ چابہار جیسی بھی بندر گاہ ہے اگر وہ انڈیا کی بدولت ترقی کرنے جارہی ہے اور اس طرح انڈین مال براستہ افغانستان سینٹرل ایشیا تک پہنچ سکتا ہے تو اس سے انڈیا کو ہی نہیں ایران کو بھی فائدہ پہنچے گاہمیں آخر اس کی پریشانی کیوں محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایران اگر انڈیا کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہوئے 12 معاہدے کرے یا22 ۔یہ ان ہر دو ممالک کا باہمی معاملہ ہے۔ ہم پوری ذمہ داری سے یہاں یہ تحریر کئے دیتے ہیں کہ ہم انڈیا سے کبھی کشمیر حاصل کر سکتے ہیں اور نہ انڈیا دشمنی کے ساتھ خطے میں کبھی خوشحالی لا سکتے ہیں اقوام عالم میں مقام بلند حاصل کرنا تو بعد کی باتیں ہیں ہمارا سوال یہ ہے کہ آج ہماری افغانستان سے کیا دشمنی ہے؟ افغان تو ہمارے مسلمان بھائی ہیں؟ابھی پرسوں کی بات ہے ہم کہتے تھے کہ ہم افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت بنوائیں گے یہ ہمارا حق ہے لیکن کل ہم عالمی سطح پر فرما رہے تھے کہ بشمول حقانی گروپ کسی پر ہمارا کوئی اثر نہیں ہے جو انہیں مذاکرات کی میز پر لا سکیں اس پر عالمی طاقت نے طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو فارغ کر دیا تو ہمیں اتنی زیادہ تکلیف کیوں ہوئی؟ دنیا ہم سے یہ پوچھتی ہے کہ نامی گرامی دہشت گرد آپ کے سلامتی خیز خطے میں کیا کر رہا تھا؟ آپ نے اسے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کس برتے پر دے رکھا تھا؟
اے میری عظیم پاکستانی قوم ماضی میں جینا چھوڑ دو آج کیلئے جینا سیکھو دنیا تیزی سے بدل رہی ہے وہ امریکہ جس نے سات دہائیاںقبل ہیروشیما اور ناگا ساکی پرایٹم بم پھینکتے ہوئے بربادی مسلط کی تھی جاپانی قوم نے اسے ناک کا مسئلہ نہیں بنایا اسے اس وقت کی ضد اور تلخ حالات کاشا خسانہ قرار دیتے ہوئے اسی امریکہ سے تعاون لیا اور یوں پوری لگن سے اپنی اکانومی کو بلندیوں تک پہنچایا آج اسی امریکہ کا صدر اسی مقام پر کھڑے ہو کر عظیم جاپانی قوم سے مخاطب تھا جس میں ماضی کی تلخیاں نہیں سہانے مستقبل کیلئے ایک تڑپ ایک امنگ تھی۔ آج ابدی دشمنیوں کا دور ختم ہو چکا یہاں کوئی ہمارا دشمن نہیں ہے ہمارے دشمن ہم خود ہیں اپنے اندر کی دشمنیوں کو ختم کیجئے سیاست میں ایک دوسرے سے حسد کرنے اور ٹانگیں کھینچنے کی بجائے جمہوریت کو مضبوط کیجئے تا کہ فیصلے کہیںاور نہیں دفتر خارجہ میں ہو سکیں۔ جبری آوازوں میں مشاورت ہو سکتی ہے نہ پائیدار پالیسیاں بن سکتی ہیں صرف ون سائیڈ ڈکٹیشن جاری رہ سکتی ہے اور نتیجتاً خارجہ پالیسی کی بربادی کا صرف مرثیہ لکھا جا سکتا ہے جس کے کرنے کا جو کام ہے آئینی حدود میں رہ کر وہ وہیں تک رہے آج اگر ہم اس حد تک نہ گرے ہوتے تو سارک اتحاد اس خطے کی قسمت بدل سکتا تھا عالمی تجارت چاہ بہار کے راستے نہیں واہگہ گوادر اور طورخم کے ذریعے ہو رہی ہونی تھی دنیابھر کے اموال پاکستان سے گزرتے تو اس کے مختلف النوع فوائد بھی پاکستانی قوم نے سمیٹنے تھے اب بھی بڑی کامیابیاں ہمارے قدموں کو چوم سکتی ہیں اصل ضرورت حقائق کا درست ادراک کرنے کی ہے ہمارا قومی مفاد کیا ہے؟ اس پر کھلا مباحثہ کروائیے اور پھر اس کی مطابقت میں اپنی خارجہ پالیسیاں تشکیل دیجئے۔
تازہ ترین