مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
فوجی فرٹیلائزر کمپنی، پاکستان میں کھاد تیار کرنے کے سب سے بڑے کارخانوں میں سے ایک ہے۔ اس کارخانے میں روزانہ تقریباً 40 ہزار کھاد کے بیگ تیار ہوتے ہیں۔ یہاں انجینئرز، ٹیکنیشنز سمیت ہزاروں ملازمین کام کرتے ہیں اور ان کی رہائش کے لیے یہاں اعلیٰ قسم کی کالونیاں بھی ہیں۔ رہائش پذیر ملازمین کو نہ صرف بجلی، گیس، پانی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں مہیّا ہیں، بلکہ اسپتال، شاپنگ سینٹرز، بینکس، ڈاک خانے اور اسکولز،کالجز تک کی مفت سہولتیں بھی دی جاتی ہیں۔ اسی فیکٹری کی کالونی میں پیش آنے والا یہ ایک بالکل سچّا واقعہ ہے، جو کہ اس نیت سے قارئین کی نذر کررہا ہوں کہ زندگی کے ہر لمحے کو غنیمت جانیں گے، تو زندگی میں کبھی پچھتانا نہیں پڑے گا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک روز ہمارے ایک دوست حشمت سے ملنے اُس کے سسر فیصل آباد سے فیکٹری آگئے، وہ کوئی دوپہر کو 2 بجے کے لگ بھگ فیکٹری پہنچے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو سرپرائز دینے کے لیے پیشگی اطلاع دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ وہ بیٹی کے گھر پہنچے، تو عین اُسی وقت ان کے داماد، حشمت صاحب 2بجےشفٹ کی ڈیوٹی پر جانے کے لیے کوارٹر سے نکل رہے تھے۔ حشمت صاحب اپنے سسر کو یوں اچانک دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بڑے پُرتپاک انداز سے ان کا خیرمقدم کرتے ہوئےکہنے لگے،’’ آئیے آئیے، انکل آپ کو اس طرح اچانک دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی، آپ اندر تشریف لے چلیں، مَیں اس وقت اپنی شفٹ کی ڈیوٹی پر جارہا ہوں، رات 10بجے آئوں گا، اب اچانک چھٹّی کیا کروں ،رات کو آکر حاضرِ خدمت ہوں گا، پھر تفصیلی ملاقات ہوگی، آپ جب تک کھانا وغیرہ کھائیں اور آرام کریں۔‘‘
سسر کو اپنے داماد کا یوں نظرانداز کرکے جانا شاید اچھا نہیں لگا۔ فوراً بولے،’’ اچھا بھئی، اللہ حافظ، دس بجے ملنا نصیب ہوا، تو مل لیں گے،کیوں کہ زندگی بڑی مختصر ہے۔‘‘ حشمت صاحب چوں کہ تیار ہوکر نکل چکے تھے اور ان کی شفٹ کی گاڑی بھی آچکی تھی، لہٰذا وہ گاڑی میں بیٹھے اور ڈیوٹی پر چلے گئے۔ اُدھر سسر صاحب گھر میں اپنی بیٹی اور نواسوں سے ملے۔ بیٹی انھیں یوں اچانک دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ سسر صاحب ابھی بیٹی اور نواسوں کے ساتھ گپ شپ ہی کر رہے تھے اور بہ مشکل آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ انھیں اچانک اختلاجِ قلب کی شکایت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی طبیعت بگڑتی چلی گئی۔
بیٹی نے اس وقت جو کرسکتی تھی اپنے طور پر کیا، مگر اُن کی طبیعت سنبھل نہ سکی اور وہ آناً فاناً موت کی آغوش میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر میں آس پڑوس کے لوگ جمع ہوگئے، قریبی اسپتال کے ڈاکٹر کو بلا کر دکھایا تو ڈاکٹر نے بھی ان کی موت کی تصدیق کردی۔ حشمت صاحب کو اس سانحے کی اطلاع دی گئی، تو وہ فوراً اپنے کوارٹر پہنچے۔ گھر میں ایک کہرام بپا تھا، بیگم اور بچّے بلک بلک کر رو رہے تھے کہ اچانک یہ کیا ہوگیا؟ حشمت صاحب اس اچانک قیامت پر بہت دل گرفتہ تھے۔
خیر، تکفین و تدفین کے چند روز بعد انھیں سسر کی اپنے گھر آمد کے وقت کی باتیں یاد آئیں، تو بہت افسوس ہوا اور سوچنے لگے کہ اے کاش! وہ سسر کی آمد پر ڈیوٹی پر نہ جاتے اور چھٹی کرلیتے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ زندگی کے ہر لمحے کو غنیمت جانو، نہ جانے آنے والے لمحات میں کیا سے کیا ہوجائے۔ (ملک محمد اسحاق راہی، صادق آباد)
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق
٭وزیراعظم کے نام کھلا خط (امجد صدیقی)۔ ٭ہائے اسٹرٹِسز، صوبیہ ممتاز، چکلالہ، راول پنڈی۔ ٭آبِ زم زم، فضیلتِ ماہِ ذی الحج، گنبدِ صخرہ، محرم الحرام، خاتونِ جنّتؓ، سن ہجری کی ابتدا، امام حسینؓ (بابر سلیم خان، لاہور)۔ ٭سندھ مدرسۃ الاسلام (سیّدہ بتول زیدی)۔ ٭نواز شریف توجّہ دیں (علی نواز سلیمان خیل، سردار محمّد عرفان، شبیر بھائی، سری کوٹ والا)۔ ٭پانی کا قحط، کے الیکٹرک نوٹس لے، بدترین منہگائی، سانحۂ یونان، گورنمنٹ سیکنڈری اسکول، ٹیچر سوسائٹی میں پانی کا قحط ،کراچی کے گمبھیر مسائل و بے چارا میئر کراچی (شہناز سلطانہ، رمشاطاہر، گلزارِ ہجری 30، کراچی)۔ ٭عیدِ قرباں، عظیم سنّت (نیلم حمید، یوسف پلازا، کراچی)۔ ٭لیاقت شباب، شاعر و ادیب (نثار احمد خان، نوشہرہ، خیبر پختون خوا)۔ ٭قدرت اللہ شہاب (فرخ شہاب، عسکری 9، لاہور کینٹ)۔ ٭خصوصی افراد کے حقوق، کھجور کے فوائد، تاج دارِ ختم نبوّت کے نزدیک عورت کی شان، گرمیوں کا موسم اور سن اسٹروک،سعودی عرب میں پاکستانی کا فتویٰ،لاڑکانہ کی شفیق ماں، ڈاکٹر بلقیس ملک،بلّی، صحیح اسلامی الفاظ، جناب کی اصلیت، ٹیپو سلطان برطانیہ میں،دادی جنّت،استادمحترم رائو مستجاب علی ہاتف، کتّے کی خصوصیات، (ملک محمد اسحاق راہی، صادق آباد)۔ ٭شُکر ادا کیوں نہیں کرتے (شگفتہ نعیم، کراچی)۔ ٭سوئی گیس کنیکشن، تنقید (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)۔ ٭نئے گیس کنیکشن، ہم اتنے جذباتی کیوں، رینجرز چوکی کی ضرورت (صغیر علی صدیقی، کراچی)۔ ٭گزارش ہے، (آسیہ محمّد عثمان)۔ ٭پیارا وطن، پاکستان، حج، ایک اہم عبادت (عائشہ بی)۔ ٭بنگال کا جادو (محمد عمیر جمیل، منگھوپیر، کراچی)۔ ٭حقیقی برانڈ (حریم شفیق، سواں گارڈن، اسلام آباد)۔ ٭ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے (مشتاق احمد سیال)۔ ٭زخم بولتے ہیں (عصمت اسامہ)۔ ٭وہ آگ (نگہت سلطانہ، گجرات)۔ ٭سب سے محبّت کرو (رضا علی، لاہور)۔ ٭پاکستان اور نوجوان (ارسلان خان، بن قاسم ٹائون، کراچی)۔ ٭اسلام زندہ ہوتا ہے (زیبابنتِ اشرف)۔ ٭عیدِ قرباں اور ہمارے قسائی (ہاشم نیازی، راول پنڈی)۔٭ نعت گوئی میں مولانا احمد رضا بریلوی کا مقام (پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین)۔
سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔
ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘
صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔