مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
یہ1975ء کی بات ہے، میں اُس وقت لائل پور (موجودہ فیصل آباد) محکمہ واپڈا میں ملازمت کرتا تھا۔ اس دوران ایک روز پی آئی اے آفس لاہور سے، جہاں میں نے بہتر ملازمت کے لیے درخواست دی ہوئی تھی، انٹرویو کی کال موصول ہوئی۔ چناں چہ مَیں مقررہ تاریخ پر انٹرویو دینے کے لیے لائل پور سے لاہور براستہ شیخوپورہ کی بجائے براستہ گوجرانوالہ بذریعہ بس جارہا تھا۔
مَیں بس کے پچھلے دروازے کی دو رویہ سیٹ پر بیٹھا تھا کہ راستے میں ایک مسافر خاتون بس رکواکر سوار ہوئی، تو کنڈکٹر نے مجھ سے اُس سیٹ سے اُٹھنے کی درخواست کی اور دروازے کے عین سامنے تین رویہ سیٹ میں سے ایک خالی سیٹ پر بٹھاکر اس خاتون کو میری والی سیٹ پر بٹھادیا۔ خاتون کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے دوبارہ بس چلادی۔ اس بار وہ انتہائی تیز رفتاری سے ڈرائیو کررہا تھا۔
موضع ’’کالا شاہ کاکو‘‘ کے قریب ہی ایک برساتی نالے کا پُل آیا، جس کے پیچھے اور آگے ڈھلانیں تھیں، جوں ہی بس پل عبور کرکے آگے بڑھی، اچانک ایک عورت سڑک کے عین سامنے آگئی۔ وہ سڑک پار کرنا چاہ رہی تھی۔ عورت اور بس کے درمیان فاصلہ انتہائی کم تھا، ڈرائیور کے لیے فوری بریک لگانا ممکن نہ رہا تو اس نے عورت کو بچانے کے لیے اسٹیئرنگ بائیں طرف کاٹا، تو بس کا بایاں وہیل (پہیہ) سڑک کے ساتھ کچّے پر اترگیا، بس بری طرح دائیں بائیں ڈول رہی تھی، مَیں فوراً اپنی سیٹ سے اُٹھا، دروازے کے ساتھ لگے پائپ کو مضبوطی سے پکڑا اور زور زور سے ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، یااللہ خیر، یااللہ خیر‘‘ کا ورد کرتے ہوئے چیخ چیخ کر کہنے لگا، ’’سنبھلو سنبھلو، بچو بچو، بس گئی، بس گئی۔‘‘
اسی اثناء، بس بائیں جانب قلابازی کھاکر کچّے پر الٹ گئی۔ اس دوران بس کی بائیں جانب کی کھڑکیاں زمین پر اور دائیں جانب کی اوپر ہوگئیں، کھڑکیوں کے راستے سے آنے والی مٹّی اور گرد و غبار سے بس بھرگئی اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ چوں کہ میں نے پائپ کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا، اس لیے بس الٹتے ہی مَیں نے بائیں جانب ٹیک لگالی اور پائپ سے لٹک گیا، اگر میں پائپ نہ پکڑتا، تو دائیں جانب کی سیٹوں میں بیٹھے مسافر مجھ پر ہی گرجاتے اور ان کے شدید دبائو سے میں بالکل پس کر رہ جاتا۔ یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اُس نے میری سیٹ بدلواکر مجھے مسافروں کی خدمت کے لیے مامون و محفوظ رکھا۔ بس کے الٹنے کے نتیجے میں زخمی مسافروں کی چیخ پکار سے گویا کان پھٹ رہے تھے۔
چند لمحوں بعد جوں ہی مٹّی کا گرد و غبار کچھ کم ہوا، تو دیکھا کہ کئی ننھے شیرخوار تڑپ تڑپ کر بے تحاشا رو رہے ہیں، بہت سی عورتیں سیٹوں میں پھنسی کراہ رہی ہیں۔ ایک قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا۔ کچھ مرد اور جوان لڑکے اوپر والی کھڑکی سے تیزی سے نکل نکل کر باہر چھلانگیں لگارہے تھے، ان مردوں اور نوجوانوں کو صرف اپنی ہی پڑی تھی، خواتین اور بچّوں کو بچانے کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی۔ آخر میں ایک نوجوان کو نکلتے دیکھا، تو میں نے اس کی قمیص پکڑ لی اور چیخ کر کہا، ’’بندئہ خدا، اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو بچایا ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم زخمیوں کو یوں ہی تڑپتا چھوڑ دیں، تم اوپر کھڑکی پر رُک جائو، مَیں نیچے سے تمہیں بچّوں اور عورتوں کو پکڑاتا جاتا ہوں، تم بس سے باہر کھڑے لوگوں کی مدد سے انھیں نکالنے میں میری مدد کرو۔‘‘
چناں چہ مَیں نے پہلے شیرخوار بچّوں کو اُٹھا اُٹھاکر اسے پکڑایا، پھر خواتین کو سیٹوں سے نکال نکال کر اوپر پہنچنے میں مدد کی اور پھر مسافروں کا سامان، حتیٰ کہ اُن کے جوتے، چپل تک اُٹھا اُٹھاکر اس لڑکے کی مدد سے باہر پہنچائے۔ چیخ وپکار کی آوازیں اب بھی مسلسل آرہی تھیں، مسافر مجھ سےکہہ رہے تھے، ’’بھائی صاحب، میرا بیٹا، میری بچّی، میری بہن، میرا بھائی، میری ماں، میرا سامان نکال دیں، آپ کا بھلا ہو۔‘‘ لیکن بس میں اب کوئی مسافر یا ان کا سامان باقی نہیں بچا تھا، مَیں نے اندر سے بہ آوازِ بلند کہا، ’’بس میں اب کوئی بچّہ، عورت اور سامان نہیں، سب کچھ باہر پہنچادیا ہے۔ اب بس خالی ہے، ایمان داری سے اپنی اپنی چیزیں اٹھالو، اللہ تعالیٰ نے موت کے جبڑوں سےہم سب کو نکالا ہے۔‘‘
حادثے میں صرف چند ایک مسافروں کو معمولی خراشیں آئیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سب محفوظ رہے۔ بے شک، اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ ’’مجھے پکارو، میں تمہاری پکار قبول کروں گا۔،، (سورۃ المومن 40)۔ جب کہ سورۃ البقرہ، آیت186میں فرمایا، ’’مَیں دُعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں، جب وہ مجھ سے مانگیں۔‘‘یقیناً حادثے کے وقت مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے بھی خیر کی دعائیں کی ہوں گی، جنھیں میرے رب نے قبول فرمایا۔ بس سے باہر اب بھی چیخ وپکار جاری تھی، افراتفری کی اس فضا میں کسی مسافر کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی، ’’بھائی صاحب! آپ اس کارِخیر اور مدد میں لگے ہوئے ہیں، کچھ اپنے سامان کی بھی خبر ہے؟‘‘ بدقسمتی سے ایسے مواقع پر لٹیروں کو قیمتی سامان اور دیگر اشیاء لُوٹنے کا موقع مل جاتا ہے۔
چناں چہ یہ سنتے ہی میں نے اپنے سر پر ہاتھ مارا، تو وہاں میری جناح کیپ نہ تھی، میرا بریف کیس بھی بس میں نہیں تھا۔ مَیں فوراً باہر آیا، دیکھا، تو ایک آدمی جناح کیپ پہنے بھاگنے ہی والا تھا، مَیں لپک کر اُس سے اپنی کیپ لے کر مڑا، تو دیکھا، ایک عورت میرا بریف کیس اٹھائے تیز تیز قدموں سے بھاگی جارہی تھی، مَیں دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور کہا، ’’میری بہن! یہ میرا ہے، اس میں میری کتابیں، کپڑے اور کاغذات ہیں، یہ مقفّل ہے اور اس کی چابی میرے پاس ہے۔‘‘ یہ کہہ کر مَیں نے اپنی جیب سے چابی نکال کر اُسے دکھائی، تو عورت نے فوراً بریک کیس میرے حوالے کردیا اور کہا ’’بھائی صاحب! آپ کا ہے تو یہ لیں۔‘‘ اس کے ہاتھ سے بریف کیس لیتے ہوئے مَیں نے کہا، ’’کچھ شرم کرو، مَیں نے اپنی پروا نہ کی، تمہیں بہ حفاظت نکالا، حتیٰ المقدور مدد کی اور تم میرا ہی بریف کیس اُٹھائے بھاگ رہی ہو۔‘‘
خیر، تھوڑی ہی دیر میں تمام مسافر خیرو عافیت سے بس سے نکل آنے کے بعد دوسری بسوں اور ویگنزمیں سوار ہوکر اپنی اپنی منزلوں کی جانب روانہ ہوگئے۔ مَیں نے قریبی مسجد میں شکرانے کے نفل ادا کیے، وہاں سے میری بہن کا گھر نزدیک ہی تھا، لہٰذا رکشے میں بیٹھ کر اُن کے گھر پہنچ گیا۔بہن اور بہنوئی یوں اچانک مجھے اس حال میں دیکھ کر حیران و پریشان ہوگئے، تو مَیں نے سفر کی داستان اور حادثے سے متعلق تفصیل بتائی۔ سب نے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔رات بہن کے گھر بسر کرکے دوسرے روز متعلقہ آفس میں انٹرویو دیا اور رات کو واپس لائل پور اگیا۔ اب بھی اکثر جب کسی بس میں سفر کرتا ہوں، تو یہ واقعہ یاد آجاتا ہے۔ (جمیل احمد اعوان، سبزہ زار اسکیم، ملتان روڈ، لاہور)
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق
٭وزیراعظم کے نام کھلا خط (امجد صدیقی)۔ ٭ہائے اسٹرٹِسز، صوبیہ ممتاز، چکلالہ، راول پنڈی۔ ٭آبِ زم زم، فضیلتِ ماہِ ذی الحج، گنبدِ صخرہ، محرم الحرام، خاتونِ جنّتؓ، سن ہجری کی ابتدا، امام حسینؓ (بابر سلیم خان، لاہور)۔ ٭سندھ مدرسۃ الاسلام (سیّدہ بتول زیدی)۔ ٭نواز شریف توجّہ دیں (علی نواز سلیمان خیل، سردار محمّد عرفان، شبیر بھائی، سری کوٹ والا)۔ ٭پانی کا قحط، کے الیکٹرک نوٹس لے، بدترین منہگائی، سانحۂ یونان، گورنمنٹ سیکنڈری اسکول، ٹیچر سوسائٹی میں پانی کا قحط ،کراچی کے گمبھیر مسائل و بے چارا میئر کراچی (شہناز سلطانہ، رمشاطاہر، گلزارِ ہجری 30، کراچی)۔ ٭عیدِ قرباں، عظیم سنّت (نیلم حمید، یوسف پلازا، کراچی)۔ ٭لیاقت شباب، شاعر و ادیب (نثار احمد خان، نوشہرہ، خیبر پختون خوا)۔ ٭قدرت اللہ شہاب (فرخ شہاب، عسکری 9، لاہور کینٹ)۔ ٭خصوصی افراد کے حقوق، کھجور کے فوائد، تاج دارِ ختم نبوّت کے نزدیک عورت کی شان، گرمیوں کا موسم اور سن اسٹروک،سعودی عرب میں پاکستانی کا فتویٰ،لاڑکانہ کی شفیق ماں، ڈاکٹر بلقیس ملک،بلّی، صحیح اسلامی الفاظ، جناب کی اصلیت، ٹیپو سلطان برطانیہ میں،دادی جنّت،استادمحترم رائو مستجاب علی ہاتف، کتّے کی خصوصیات، (ملک محمد اسحاق راہی، صادق آباد)۔ ٭شُکر ادا کیوں نہیں کرتے (شگفتہ نعیم، کراچی)۔ ٭سوئی گیس کنیکشن، تنقید (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)۔ ٭نئے گیس کنیکشن، ہم اتنے جذباتی کیوں، رینجرز چوکی کی ضرورت (صغیر علی صدیقی، کراچی)۔ ٭گزارش ہے، (آسیہ محمّد عثمان)۔ ٭پیارا وطن، پاکستان، حج، ایک اہم عبادت (عائشہ بی)۔ ٭بنگال کا جادو (محمد عمیر جمیل، منگھوپیر، کراچی)۔ ٭حقیقی برانڈ (حریم شفیق، سواں گارڈن، اسلام آباد)۔ ٭ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے (مشتاق احمد سیال)۔ ٭زخم بولتے ہیں (عصمت اسامہ)۔ ٭وہ آگ (نگہت سلطانہ، گجرات)۔ ٭سب سے محبّت کرو (رضا علی، لاہور)۔ ٭پاکستان اور نوجوان (ارسلان خان، بن قاسم ٹائون، کراچی)۔ ٭اسلام زندہ ہوتا ہے (زیبابنتِ اشرف)۔ ٭عیدِ قرباں اور ہمارے قسائی (ہاشم نیازی، راول پنڈی)۔٭ نعت گوئی میں مولانا احمد رضا بریلوی کا مقام (پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین)۔
سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔
ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘
صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔