دنیا اِن دنوں ایک عجیب ہی دَور سے گزر رہی ہے کہ اُسے ایک طرف جنگ کا سامنا ہے، تو دوسری طرف امن بھی انجوائے کر رہی ہے۔یوکرین میں تین بڑی طاقتیں روس، یورپ اور امریکا ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر وار کر رہی ہیں۔ چین، روس کا ہم نوا ہے اور غیر جانب دار بھی۔ گو کہ اِس جنگ کا میدان شمالی یورپ کا مُلک ہے، مگر اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتّب ہو رہے ہیں۔یاد رہے، جب دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر نے روس پر چڑھائی کی، تو اُس نے پہلے یوکرین پر قبضہ کیا تھا۔ اب بھی یوکرین جیسی بظاہر محدود جنگ کے اقتصادی اثرات لامحدود ہوچُکے ہیں۔
اِس جنگ نے منہگائی کی ایک ایسی لہر کو جنم دیا، جس پر قابو پانا دنیا کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ کورونا اور عالمی اقتصادی بحران کی طرح اِس جنگ کے اثرات کی شدّت امیر ممالک میں اِتنی نظر نہیں آتی، جس قدر غریب ممالک اِس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اِسی لیے آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے بھی اُس طرح فعال نہیں، جیسے وہ مالیاتی بحران میں ہوتے ہیں۔یوکرین سے باہر نکلیں، تو امن ہی امن ہے۔
تجارت ہو رہی ہے، ٹیکنالوجی کی دوڑ جاری ہے، آرٹیفیشل انٹیلی جینس غیر معمولی ترقّی کر رہی ہے، خلا میں آگے بڑھنے کی جدوجہد زوروں پر ہے۔یوں کسی ترقّی یافتہ نظام کے تلپٹ ہونے کا بظاہر کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا،خواہ وہ جمہوریت ہو یا یک پارٹی سسٹم۔جنگ کے تباہ کُن اثرات اُن ممالک پر زیادہ ہیں، جن کا اِس سے کچھ لینا دینا نہیں، جیسے کہ پاکستان۔ اِسی لیے یہ ممالک سیاسی و معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں۔
اِن دنوں عالمی امن کو دو طرح کے خطرات درپیش ہیں۔ایک ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو اور دوسرا اقتصادی مقابلے میں اونچ نیچ۔اب تک تو بڑی طاقتوں کی کوشش یہی رہی ہے کہ ایٹم بم سے متعلقہ معاملات قابو میں رکھے جائیں۔اِس ضمن میں بہت سے معاہدے بھی کیے گئے۔ یوکرین جنگ میں کئی بار ایسے مواقع آئے، جب دنیا کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ایٹمی جنگ ہی نہ چِھڑ جائے، لیکن پھر ثابت ہوا کہ دوسری عالمی جنگ کی اذیّت سے گزرنے والے ممالک اپنی خوش حالی اور ترقّی کو کسی صُورت دائو پر نہیں لگنے دیں گے۔ اُن کے سیاست دان منفی سوچ رکھتے ہیں اور نہ ہی اُن کے عوام تباہی برداشت کرنے پر آمادہ۔
اِسی لیے سرد جنگ کے اختتام پر سوویت یونین نے بکھرنا منظور کرلیا، لیکن اُس نے ایٹمی آپشن پر غور نہیں کیا،حالاں کہ وہ سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والی طاقت تھی اور آج بھی ہے۔ دوسری جانب، یوکرین کی جنگ نے اقتصادی مقابلوں میں یہ سبق دیا کہ گلوبلائزیشن کے بڑے بڑے بھاشنوں کے باوجود کسی ایک طاقت کے وسائل پر بھروسا کرنا انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔روس، یورپ کو گیس کا واحد سپلائر تھا اور اُس نے یوکرین جنگ شروع ہوتے ہی گیس کی سپلائی بند کردی، جس کے سبب عین سردیوں میں یورپی عوام کو غیرمعمولی تکلیف سے دوچار ہونا پڑا۔
حالاں کہ دیکھا جائے، تو دونوں نسلاً ایک ہیں اور عالمی جنگ میں شانہ بہ شانہ کھڑے رہے ہیں۔ آج چین، بھارت، عرب ممالک اور امریکا اِسی قسم کی اقتصادی برتری کی پوزیشن میں ہیں کہ وہ کبھی بھی دنیا کو جنگ نُما اقتصادی بحران سے دوچار کر سکتے ہیں۔ایسا وہ خود بھی کرسکتے ہیں یا پھر اُن کی معاشی کم زوری سے بھی دنیا بحران کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ رواں ماہ ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں190 سے زاید چھوٹے، بڑے ممالک کی قیادت شریک ہو گی، تو اُن کے سامنے یہی مسائل ہوں گے، جب کہ کلائمیٹ چینج بھی اُن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ جتنی منہگی ہے، اِتنی ہی خوف ناک اور دہشت ناک بھی ہے۔ ایٹمی جنگ کا تصوّر ہی انسانیت پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔ اِسی لیے بڑی طاقتیں ہر وقت نظر رکھتی ہیں کہ کہیں کسی طور عدم توازن پیدا نہ ہونے پائے۔ امریکا اور سوویت یونین جب دو سُپر پاور تھے، تو اُنہوں نے تمام تر دشمنی کے باوجود کئی معاہدوں کے ذریعے ایٹمی دوڑ کو کنٹرول کیے رکھا۔ پہلے اسٹارٹ نامی معاہدے کے ذریعے اس پر کڑی نظر رکھی، پھر ایٹمی خطرے سے نمٹنے کے لیے2011 ء میں ایک اور معاہدے کے تحت ہاٹ لائن قائم کی گئی، جس کے مراکز امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور روس کی وزارتِ دفاع میں قائم ہیں۔ وہاں تعیّنات ماہرین چوبیس گھنٹے الرٹ رہتے ہیں۔
یہ ایک دوسرے کو ایٹمی میزائل اور بم بار طیاروں کی نقل و حرکت سے آگاہ کرتے ہیں۔یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طاقت کے پاس کتنے وار ہیڈ ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود دنیا اب بھی نیوکلیئر دوڑ میں مصروف ہے۔اس میں دو نئے عُنصر شامل ہوئے ہیں۔ایک تو چین کا تیسری بڑی طاقت کے طور پر اُبھرنا ۔ظاہر ہے کہ کسی بھی عالمی طاقت کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر خود کو منوانا ممکن نہیں، اِس لیے چین نے اِس شعبے میں بہت کام کیا۔ پھر وہ چھوٹے ممالک ہیں، جنھوں نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی اور اُن کی وجہ سے ایٹمی کلب کے ارکان کی تعداد بڑھ کر9 ہوگئی۔
ان ممالک کے درمیان رابطے تو ہیں، لیکن سیاسی عدم استحکام اور معاشی مجبوریوں کے سبب دنیا کو اِن ممالک کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ کچھ غلط نہ کر بیٹھیں۔ تاہم، ایک اچھی بات یہ ہے کہ ان ممالک کے پاس روایتی نوعیت ہی کے ایٹم بم ہیں اور ان کی زیادہ توجّہ ڈیلیوری نظام، یعنی اُنھیں ہدف تک لے جانے والے میزائلوں کی تیاری پر ہے۔ گویا، ایٹم بم تو موجود ہیں، لیکن اُنھیں زیادہ خطرناک بنانے کی صلاحیت اُن کی اقتصادی قوّت سے وابستہ ہے، اِس لیے یہ ممالک نمائشی طور ہی پر ایٹم بم رکھتے ہیں۔ ان ممالک کے درمیان کوئی معاہدے نہیں، البتہ بین الاقوامی ایٹمی ایجینسی ان پر نظر رکھتی ہے اور اُن کی تنصیبات کا معاینہ بھی کرتی رہتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران یا شمالی کوریا اپنے ایٹمی پروگرامز ایک حد سے آگے نہیں لے جاسکے۔ایران کے ساتھ ہونے والی نیوکلیئر ڈیل کی پہلی شرط یورینیم افزودگی محدود کرنا تھا۔ایک اندازے کے مطابق 1986ء میں ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد70,400تھی، جو اب کم ہوکر12,500پر آگئی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی پر کنٹرول اور معاہدوں پر عمل درآمد میں نرمی آتی جارہی ہے، جس کے سبب ایٹمی ہتھیاروں میں پھر سے اضافہ ہونے لگا ہے۔ماہرین کے مطابق، اس کی چار بنیادی وجوہ ہیں۔ امریکا کا معاہدوں سے نکلنا، یوکرین جنگ، چین کی ایٹمی میدان میں تیزی اور نئی خوف ناک ٹیکنالوجی کی ایجاد، جس کی شدّت پرانے ہتھیاروں کی نسبت کئی سو گُنا زاید ہے۔
یعنی ہتھیار اگر کم بھی ہوں، تب بھی اُن کی تباہی پھیلانے کی قوّت کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین نیو اسٹارٹ معاہدے پر یہی تنقید کرتے ہیں کہ وہ نان اسٹریٹیجک یا ٹیکٹیکل ہتھیاروں پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ روس کے پاس ایسے 1800 ہتھیار ہیں اور امریکا کے پاس200، جب کہ روس کا کہنا ہے کہ ایسے ہتھیار برطانیہ اور فرانس کے پاس بھی ہیں۔ ویسے نیو اسٹارٹ معاہدہ بھی2026ء میں ختم ہوجائے گا۔ یہ ٹیکٹیکل ہتھیار کم رینج کے ہیں اور انھیں روایتی جنگ میں استعمال کے لیے بنایا گیا ہے، کیوں کہ ان کی تباہی کا علاقہ محدود ہے۔ امریکا اپنی تینوں افواج کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنے میں لگا ہوا ہے۔
فی الحال اس کا پے لوڈ روس سے کم ہے، لیکن اس کی اپ لوڈ کرنے کی صلاحیت 1687بتائی جاتی ہے، جسے وہ ضرورت پڑنے پر بہت کم عرصے میں3500سے زیادہ کر سکتا ہے۔چین بھی بہت تیزی سے اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے اور اس نے ابھی تک ایٹمی عدم پھیلاؤ کے کسی معاہدے پر بھی دست خط نہیں کیے۔ امریکی ذرائع کے مطابق، اس کے وار ہیڈ دس سال میں 1500تک جاسکتے ہیں۔ اِن دنوں یہ سوال بھی مسلسل سامنے آ رہا ہے کہ اب ایٹمی جنگ کمپیوٹر لڑیں گے، جو کہ جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ تاہم، دنیا ابھی تک تو اِسی نکتے پر متفّق ہے کہ ایٹمی پروگرامز کا کنٹرول کسی انسان ہی کے پاس ہونا چاہیے۔
بھارت اور چین کے تنازعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے، لہٰذا اگر چین ایٹمی ہتھیاروں میں اضافہ کرتا ہے، تو بھارت بھی ایسا ہی کر سکتا ہے۔ دوسری طرف، پاکستان اور بھارت کی دشمنی کئی مرتبہ جنگوں میں تبدیل ہوچُکی ہے، تو اِس پس منظر میں پاکستان بھی اِس دوڑ میں شامل ہونے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ اُدھر ایران ہتھیار بنانے کے بہت قریب پہنچ چُکا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جاپان اور جرمنی نے ایٹمی آپشن پر غور تو نہیں کیا، لیکن اُنھیں ایٹمی ٹیکنالوجی پر اِس قدر عبور حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت ایٹم بم بناسکتے ہیں۔ یہ دونوں ماضی کی سُپر پاورز اور آج کی زبردست اقتصادی قوّت ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عالمی سطح پر کوئی وسیع تر معاہدہ ہو، جس پر سختی سے عمل درآمد بھی کیا جائے۔
دوسری جنگ کا میدان اب اقتصادی ہے۔بظاہر تو یہ پُرامن ہے اور یوں لگتا ہے کہ اِس مقابلے سے دنیا کو فائدہ ہوا، ترقّی کی رفتار میں تیزی آئی، جو معیارِ زندگی اور خوش حالی اِس صدی میں دیکھی گئی، اُس کی مثال نہیں ملتی، لیکن اب اِس اقتصادی مقابلے سے بھی طرح طرح کے اندیشے جنم لے رہے ہیں۔یوکرین جنگ نے روس کے کردار کو اجاگر کیا، جسے گندم، گیس اور کھانے کے تیل میں برتری حاصل ہے اور اُس نے اِن اشیاء پر پابندی لگا کر دنیا کو منہگائی کے انتہائی تکلیف دہ دَور میں جھونک دیا، یہ پروا کیے بغیر کہ غریب ممالک کے عوام اِس مصیبت کا کیسے سامنا کریں گے۔صدر پیوٹن کے یوکرین پر حملے کے جواز سر آنکھوں پر، لیکن پاکستان جیسے ممالک نے کیا قصور کیا تھا، جس کی وہ سزا بھگت رہے ہیں۔
اُسے امریکا کا تو اِتنا خیال ہے کہ اُس کے ساتھ ہر قسم کے ایٹمی معاہدے کیے تاکہ وہ اور اُس کے عوام محفوظ رہیں، لیکن صدر پیوٹن کو غریب ممالک کے عوام کی آہ و بکا سُنائی نہیں دیتی۔ جنگ کرنی تھی، تو شوق سے امریکا اور یورپ سے کرتے، جنہوں نے سوویت یونین کو توڑا، غریب ممالک پر منہگائی کا عفریت کیوں سوار کر دیا؟ تجارتی تعاون میں لین دین ایک بنیادی اصول ہے۔کوئی بھی مُلک دوسرے مُلک کے مال سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ جاپان کے پاس تیل نہیں تھا، اُس نے وہ عرب ممالک سے درآمد کیا اور پھر دنیا میں سب سے زیادہ تیل سے بننے والی مصنوعات سپلائی کرتا رہا۔ اِس ضمن میں دو معاملات پیشِ نظر رہنے چاہئیں۔
ایک تو یہ کہ روس نے خود پر عاید پابندیوں کے جواب میں مغرب کو اپنی برآمدات روک دیں، جس سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔اور دوسری بات یہ کہ کسی بڑے مُلک کی معیشت کا سُست پڑ جانا بھی ایک نہایت ہی اہم ایشو ہے۔چین اِس صدی کے اوائل سے دنیا میں مال بنانے کی فیکٹری بنا ہوا تھا۔صدی کے دوسرے عشرے تک وہ دنیا کو ساٹھ فی صد تیار مال سپلائی کر رہا تھا اور اُس زمانے میں اس کا گروتھ ریٹ10سے اوپر چلا گیا تھا، لیکن گزشتہ برسوں میں اس میں بتدریج کمی آئی۔ پہلے یہ 7.5پر آیا، پھر تین سال پہلے6.5 پر آگیا۔ یہ بتایا گیا کہ چین اندرونی مارکیٹ کی ضروریات پر توجّہ دے رہا ہے، لیکن اب عالمی مالیاتی ادارے اس کا گروتھ ریٹ5 سے بھی کم بتا رہے ہیں۔
یہ دنیا کے لیے ایک بُری خبر ہے، کیوں کہ وہ چینی مال پر انحصار کرنے کی عادی ہوچُکی ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے تنقیدی اندیشوں کے جواب میں یقین دِلایا ہے کہ چین کی معیشت بہت مضبوط ہے، یہ ہر قسم کے چیلنجز کا سامنا کرسکتی ہے اور پُرجوش انداز میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ناقدین چین کے لیے رئیل اسٹیٹ پر زیادہ انحصار، کم غیر مُلکی سرمایہ کاری، نوجوانوں کے لیے روزگار میں کمی، کم برآمدات اور کم زور کرنسی جیسے چیلنجز کا ذکر کرتے ہیں۔
اکثر ماہرین کو یقین ہے کہ چین کی اقتصادی طاقت کا اب تک جو ریکارڈ رہا ہے، اُس کی بنیاد پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ وہ اِن معاملات پر کنٹرول کر لے گا۔ چینی قیادت کو نہ صرف مشکلات کا ادراک ہے، بلکہ اس کا ابھی بھی تمام تر فوکس معیشت ہی پر ہے، جو اس کی موجودہ ترقّی کی بنیاد ہے۔ پھر یہ کہ چینی قوم بھی معاشی معاملات میں بہت باشعور ہے اور حکومتی پالیسیز سے قدم ملا کر چلتی ہے۔ مغربی ممالک میں کورونا کے فوراً بعد ٹورازم کا سیلاب آگیا کہ ہر کوئی باہر نکل پڑا۔ نتیجتاً فضائی کرایوں میں ہوش رُبا اضافہ دیکھا گیا۔
اس کے مقابلے میں چینی عوام کو یہ شعور تھا کہ کورونا نے اُن کی معیشت کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں، اِس لیے اُنہوں نے سیر سپاٹوں کی بجائے نقد رقم بچانے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری پر توجّہ دی، اِسی لیے چین کی معیشت کسی بڑے دھچکے سے دوچار نہیں ہوئی اور مغربی ممالک کی طرح وہاں افراطِ زر یا منہگائی نے عوام کو بے حال نہیں کیا۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اور مُلک چین کی تیز رفتار معاشی ترقّی کی جگہ لے سکتا ہے یا پھر دنیا کو اس کی معیشت کی اونچ نیچ کے ساتھ ہی چلنا پڑے گا۔ اس اونچ نیچ کا زیادہ اثر ترقّی پذیر اور غریب ممالک پر پڑے گا، کیوں کہ مغربی ممالک کا انحصار چین پر کم ہے اور وہ اس کے سُست ہونے کے باوجود گزارہ کرسکتے ہیں۔ ہاں، اُن ممالک کے لیے، جنھوں نے اپنی پیداواری صلاحیت کم کر کے خود کو کنزیومر مارکیٹ، یعنی خریدنے والی مارکیٹ میں تبدیل کر لیا ہے، اس سُست رفتاری کے اثرات پریشان کُن ہوسکتے ہیں۔