• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ برکس بینک‘‘ کے حالیہ اجلاس کا سب سے اہم فیصلہ اس میں چھے نئے ممالک کی شمولیت ہے۔ یعنی سعودی عرب جیسے سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے مُلک سمیت متحدہ عرب امارات، قطر، مِصر، ایران، ایتھوپیا اور ارجنٹائن آئندہ سال جنوری میں اس کے رُکن بن جائیں گے۔ جنوبی افریقا کے شہر، جوہانس برگ میں ہونے والے اجلاس میں برکس بینک کے چار بنیادی ارکان شریک تھے، جب کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سیکیوریٹی خدشات کی وجہ سے وہاں نہ آئے اور اجلاس میں آن لائن شرکت کی۔چینی صدر، شی جن پنگ نے نئے ارکان کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس توسیع کو تاریخی قرار دیا۔

اُنہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’ برکس، عالمی امن اور اتحاد کو آگے بڑھائے گا۔‘‘برکس بینک دراصل دنیا کے عالمی مالیاتی نظام میں مغرب کا تسلّط چیلنج کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ جہاں اس کے ایجنڈے میں اہم مالیاتی امور سے نبرد آزما ہونا شامل ہے، وہیں غریب اور ترقّی پذیر معیشتوں کو کھڑا کرنا بھی اس کا ایک اہم ہدف ہے۔اِس تعاون یا امداد کا مقصد یہ بھی ہے کہ ترقّی پذیر معیشتیں موجودہ عالمی نظام کے کل پرزوں کے دباؤ سے نکل سکیں، جن میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے ادارے شامل ہیں۔

چین کا خیال ہے کہ ترقّی پذیر ممالک موجودہ معاشی دبائو سے تنگ ہیں اور اگر ان کی مناسب فورم سے مدد کی جائے، تو وہ موجودہ عالمی نظام کے متبادل کی حمایت کریں گے۔ مغربی مالیاتی اداروں پر جو سب سے بڑا الزام لگایا جاتا ہے، وہ یہی ہے کہ وہ امداد کے ذریعے سیاسی دبائو بڑھاتے ہیں، اِس ضمن میں آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی مثالیں دی جاتی ہیں، بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف تو امریکا کا عالمی مالیاتی بازو ہے، جسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اب ظاہر ہے کہ برکس بینک میں توسیع سے مغرب براہِ راست متاثر ہوگا۔ شی جن پنگ اس توسیع میں ذاتی دل چسپی لے رہے ہیں۔ امریکا نے جوہانس برگ اعلامیے پر اپنے ردّ ِعمل میں اسے پلے ڈائون کرنے کی کوشش کی۔ اُس کا کہنا تھا کہ’’ برکس ممالک میں اختلافات ہیں اور وہ اس توسیع کو امریکا یا کسی بھی مُلک کے جغرافیائی حریف کے طور پر ابھرتا ہوا نہیں دیکھتا۔‘‘اب اس میں کتنی حقیقت ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، جب یہ مُلک جنوری کے بعد برکس میں فعال کردار ادا کریں گے، تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ برکس ایک نئی مالیاتی قوّت کے طور پر اُبھر رہا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ اب امریکا نہ تو اکیلے عالمی نظام کے اصول طے کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ تمام ادارے چلا سکتا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے برکس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ برکس بنیادی طور پر ایک چینی بینک ہے اور اس کے قیام کا نظریہ معروف سرمایہ کار بینک، گولڈ مین ساشے کے ایک ماہر، اونیل نے پیش کیا تھا۔ اُس نے چار ممالک کا تصور پیش کیا تھا، جسے’’ برک‘‘ کہا گیا۔یہ وہی زمانہ تھا، جب نئی صدی کا آغاز ہوچکا تھا، چین اور دیگر ترقّی پذیر معیشتیں بڑی تیزی سے عالمی معیشت میں قدم جما رہی تھیں۔اِسی لیے یہ تصوّر سامنے آیا کہ اب سرمایہ مشرق سے مغرب کی بجائے مغرب سے مشرق کی طرف جائے گا۔2008 ء میں برکس وجود میں آیا،جس میں پانچ ارکان چین، روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقا شامل ہیں۔ اِس طرح یہ دنیا کے ہر برّاعظم کی نمائندگی کرتا ہے۔

برکس ممالک کی مجموعی آبادی3.24 ارب ہے، یعنی دنیا کی تقریباً چالیس فی صد آبادی اس کا حصّہ ہے۔اس میں شامل ممالک کی مشترکہ آمدنی 26ٹریلین ڈالرز ہے، جو عالمی معیشت کا26 فی صد بنتا ہے۔لیکن اس کے سیاسی اثرات کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف میں اس کی ووٹنگ پاور صرف15 فی صد ہے، یعنی ایک تہائی سے بھی کم۔اب نئے ممالک کی موجودگی، خاص طور پر سعودی عرب کی شمولیت سے برکس کے آگے بڑھنے کے راستے کُھل جائیں گے اور غالباً چین نے اِسی مقصد کے لیے سعودی عرب کو اس میں شامل کرنے کے لیے محنت کی ہے۔

چین نے جب برکس کا خیال پیش کیا، تو اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عالمی مالیاتی اداوں کے نظام میں اصلاحات لانے کا عمل تیز کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ ممالک کو اس میں نمائندگی دی جاسکے۔ غریب ممالک سے یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ آئی ایم ایف اپنے اصول لاگو کرنے میں قرض لینے والے ممالک کے معروضی حالات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس نے بس کچھ اصول بنالیے ہیں،جن پر ہر حال میں عمل کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس مُلک کی آبادی، کم زور معیشت، قدرتی آفات کی تباہ کاریاں اور دیگر معاملات کیا ہیں، آئی ایم ایف کو اُن سے کوئی سروکار نہیں۔

یہ نہیں کہ ضرورت مند ممالک کو اپنی معیشت کی بہتری کے لیے مالیاتی ڈسپلن پیدا نہیں کرنا چاہیے،لیکن یہ عمل مرحلہ وار ہونا چاہیے،یہ نہیں کہ ادھر آئی ایم ایف کی شرائط لاگو کیں اور اُدھر پوری کی پوری آبادی منہگائی، بے روزگاری اور غربت تلے پِس گئی۔اس سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے، کیوں کہ ان پالیسیز کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام جنم لیتا ہے اور عدم استحکام کے بعد مالیاتی ڈسپلن تو کیا، حکومت چلانا بھی ممکن نہیں رہتا۔اِن دنوں پاکستان اس کی ایک کلاسک مثال بنا ہوا ہے۔چادر اوپر کرتے ہیں، تو پائوں ننگے ہوجاتے ہیں اور پائوں ڈھانپتے ہیں، تو سَر کُھل جاتا ہے۔

اب برکس جیسے متبادل مالیاتی ادارے امید کی کرن بن سکتے ہیں، جن میں چھوٹے اور ترقّی پذیر ممالک کی نمائندگی بھی ہے۔اگر وہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کو اصلاحات اور انسانی عوامل کو مدّنظر رکھنے پر مجبور کرسکے اور یہ برکس کا بنیادی نظریہ بھی ہے، اِسی لحاظ سے اس میں توسیع کو خوش آمدید کہنا چاہیے، چاہے امریکا اور مغرب کی سوچ کچھ بھی ہو۔آئی ایم ایف کو فوری سختیاں کرنے سے پہلے یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا ابھی تک کورونا کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یوکرین جنگ اس پر مسلّط کردی گئی۔پاکستان جیسے ممالک کا کورونا میں کوئی کردار تھا اور نہ ہی یوکرین کی جنگ سے کچھ لینا دینا، لیکن وہ ان دونوں کی معاشی تباہ کاریوں میں پس کر رہ گیا۔یہ بات عام آدمی کو سمجھانا بہت مشکل ہے، خاص طور پر جہاں تعلیم کی شرح بہت کم ہو۔

برکس نے2014ء میں نیو ڈیویلپمنٹ بینک کے نام سے250 بلین ڈالر کا فنڈ قائم کیا تھا، جس کا مقصد آزمائش سے گزرنے والی کم زور معیشتوں کی مدد کرنا اور انہیں آسان شرائط پر قرض فراہم کرنا ہے۔ یہ فنڈ کس طرح دیا گیا، اس سے متعلق معلومات کم ہی دست یاب ہیں۔ پاکستان اور چین سی پیک میں شامل ہیں، لیکن اسے زیادہ تر قرضے کمرشل چینی بینکس سے ملے ہیں، جن سے متعلق کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پر سُود بہت زیادہ عاید کیا گیا ہے۔ برکس سے متعلق جو اہم بات کہی گئی، وہ مغرب مخالف نہیں، تو کم از کم مغرب کے متبادل مالیاتی نظام ضرور لانا ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی سمجھا گیا کہ جو مُلک برکس میں شامل ہو رہے ہیں یا موجود ہیں، وہ امریکا مخالف ہیں، کیوں کہ موجودہ مالیاتی نظام میں اس کا اور ڈالر کا بنیادی کردار ہے۔اِسی لیے جب بھی ایسا متبادل نظام آتا ہے، تو ڈالر کی متبادل کرنسی کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔روس اور چین سے متعلق تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ امریکا کے شدید مخالفین میں شامل ہیں۔ چین کا ٹریڈ اور دوسرے شعبوں میں ایک عالمی طاقت کے طور پر اس سے سخت مقابلہ ہے۔ 

پھر چین کی مال تیار کرنے کی برتری مسلّم ہے، جب کہ وہ مستحکم اکانومی کے ساتھ تیزی سے بڑھنے والی اقتصادی قوّت ہے، تاہم حال ہی میں اس نے تجارتی تعاون کے لیے امریکا سے مفاہمت کی کوششیں کی ہیں۔ روس کی تو امریکا اور مغرب سے یوکرین میں باقاعدہ جنگ چل رہی ہے اور وہ عرصۂ دراز سے امریکی اور مغربی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، تاہم اب اس کی حالت قدرے بہتر ہے، جب کہ2016ء میں اس کی معیشت منفی تھی۔

صدر پیوٹن جنوبی افریقا کے اجلاس میں اِس لیے شریک نہ ہوسکے کہ ان پر جنگی جرائم کا الزام ہے اور جنوبی افریقا اس ٹریبیونل کا رُکن ہے، اس لیے اُنہیں خطرہ تھا کہ کہیں جوہانس برگ آتے ہی گرفتا نہ ہو جائیں۔ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، برازیل اور ارجنٹائن کو کسی طور امریکا مخالف نہیں کہا جاسکتا۔ بھارت کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔وزیرِ اعظم مودی امریکا کا کام یاب دورہ کرچُکے ہیں، جب کہ امریکی صدر بھارت کا چار روزہ دورہ کر رہے ہیں۔

کواڈ فورم اور آسیان میں چین کو محدود کرنے میں بھارت، امریکا کے ساتھ ہے۔ ہمالائی سرحد پر چین سے کشیدگی کے بعد وہ امریکا کے بہت قریب ہے۔ امریکا سے سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی لے رہا ہے، چاند کے حالیہ مشن میں ناسا نے اس کا ساتھ دیا۔ تو یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ برکس کوئی اینٹی ویسٹ فورم ہے۔آج کل ویسے بھی ٹرینڈ یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے مؤثر اقتصادی گروپ بنا کر ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے۔

بھارت، پاکستان کی برکس میں داخلے کی مخالفت کرتا ہے، لیکن اس سے زیادہ خود پاکستان کی معاشی کم زوری اور سیاسی گورنینس کے مسائل اسے برکس جیسے کسی بھی اقتصادی گروپ کا رُکن نہیں بننے دے رہے۔حیرت ہوتی ہے، جب مُلک کے معاشی ماہرین اقتصادی معاملات پر جذباتی دلائل دیتے ہیں۔ اُن کی طرف سے برکس میں داخلے کے لیے سب سے بڑا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحرِہند سے گہری ہے، اِس لیے ہمیں چین کے کسی بھی منصوبے میں شرکت کا سرٹیفیکٹ حاصل ہے۔چین نے اس دوستی کو نبھایا بھی ہے۔

شنگھائی فورم کے ہم اور بھارت ایک ہی دن ممبر بنے، اس کے باوجود کہ پاک، بھارت دشمنی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔لیکن ہمیں خود سے یہ سوال کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم ایک ایسے مالیاتی فورم میں شرکت کر کے کیا کریں گے، جس مقصد فنڈ حاصل کرنا ہے اور وہ بھی ڈالرز میں۔ہم بتاچکے ہیں کہ برکس کا موجودہ امدادی فنڈ250بلین ڈالر ہے، تو کیا ہم اس میں ایک بھی ڈالر کا حصّہ ڈال سکتے ہیں، جب کہ ہم تو دنیا سے ڈالرز مانگتے پِھر رہے ہیں۔آئی ایم ایف کے پروگرام کی کڑی اور تکلیف دہ شرائط صرف اِس لیے تسلیم کرنی پڑیں کہ ہمیں بیرونی قرضوں اور سرمایہ کاری کی راہیں کھولنی تھیں۔ اور ہمارے قریب ترین دوستوں کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام لو، تب ہی قرض ملے گا۔ 

یہ بات کسی اور نے نہیں، بلکہ سابق وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے بتائی، جنہوں نے اس ڈیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔اُس وقت سب اسے خوش خبری کہہ رہے تھے اور آج جب اس کی شرائط کے تحت توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، تو انہیں گالیاں پڑ رہی ہیں۔ برکس بینک میں داخلے کے لیے کسی بھی غیر معمولی شرط کو پورا کرنا ضروری نہیں، خود بھارت بھی اسے نہیں روک سکے گا، بلکہ خوش آمدید کہے گا۔ہمیں بس اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہوگا، اِتنا مضبوط کہ قرض لینے کے جھنجھٹ سے نکل سکیں۔اس کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ وہی کچھ، جو دوسرے ترقّی پذیر ممالک نے ایسے حالات میں کیا۔

مالیاتی امور بہت ٹھوس معاملات ہیں اور اسی عالمی نظام میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ آسمان سے ڈالر ٹپکتے ہیں، نہ زمین سونا اُگلتی ہے۔ حالات کی درستی کے لیے درست معاشی پالیسی بنانی ہوگی، لیکن صرف اِتنا ہی کافی نہیں، اس پالیسی پر تسلسل کے ساتھ عمل بھی کرنا ہوگا اور یہ کام صرف حکومت ہی کو نہیں، پوری قوم کو مل کر کرنا پڑے گا۔ ترقّی کی جتنی بھی مثالیں سامنے رکھ لیں، اُن میں یہی نظر آئے گا کہ پوری قوم دہائیوں محنت مزدوری میں جُتی رہی، تب کہیں جاکے ترقّی نصیب ہوئی۔

ہمیں اپنا طرزِ زندگی بھی بدلنا ہوگا۔ رات رات بَھر مارکیٹس کا کُھلے رہنا، شادی بیاہ پر لاکھوں روپے اُڑا دینا اور بڑی بڑی گاڑیاں رکھنے کا شوق ہمیں زیب نہیں دیتا۔ قوم پہلے کمائے، پھر خرچ کرے۔ قرضے اور مؤخر قیمتوں کے پیٹرول پر مزے اُڑانا اور بڑی بڑی باتیں کرنا کسی مذاق سے کم نہیں۔اوپر سے نیچے تک ایک جیسا طرزِ زندگی اپنائیں، جو سادگی پر مبنی ہو۔ تبدیلی اور ترقّی سالوں میں نہیں، دنوں میں آجائے گی۔ برکس تو کیا آئی ایم ایف تک ہم سے رُکنیت کی درخواست کرے گا۔