چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ آئین میں جب 90 روز لکھا ہے تو اس پر تکرار کیوں ہے؟ دعا ہے اربابِ اختیار تمام معاملات آئین کے مطابق طے کریں۔
سپریم کورٹ بار کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ تمام چیف جسٹسز، ججز، وکلاء کو خوش آمدید کہتا ہوں اور شکر گزار ہوں، ریٹائر ہونے جا رہا ہوں، میرا عدلیہ سے وہ تعلق نہیں رہے گا جو 20 سال سے ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کی چھتری کا حوالہ سپریم کورٹ اور عدلیہ کو بنایا گیا ہے، پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں تواتر سے نئے آئینی نکات پر لوگ حقوق مانگنے آتے تھے، ہمارا عزم یہ بھی تھا کہ 54 ہزار کیسز کم کریں گے، زیر التوا کیسز کو 2 ہزار کی تعداد میں کم کیا اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا، ان تمام ججز کا مشکور ہوں جنہوں نے میرے ساتھ شرکت کی اور فیصلے دیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی اصولوں پر ہماری عدالت میں سب کی رائے پر کوئی تضاد نہیں ہے، ججز کا آپس میں اختلاف صرف اس حد تک ہے کہ آئینی کیسز براہ راست سپریم کورٹ آنے چاہئیں یا نہیں، اگر اتنی شاندار وکالت نہ کی گئی ہوتی ہم کبھی بھی یہ فیصلے نا کر پاتے۔