• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی ٹوئنٹی کانفرنس دہلی میں اپنے اختتام کو پہنچی ۔ ویسے تو اس دوران بہت کچھ ایسا ہوا کہ جو علیحدہ علیحدہ مستقل عنوان بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی میڈیا نے اٹلی کے وزیر اعظم کا بی آر آئی کے حوالے سے ایک بیان کا ذکر کیا ، کینیڈا کے وزیر اعظم نے بھارتی راج دھانی میں کھڑے ہو کر خالصتان پر بات کی اور اس وقت کی جب کینیڈا میں سکھ خالصتان کے حق میں ریفرنڈم منعقد کر رہے ہیں ۔ مگر میں اس وقت اس تصور پر گزارشات عرض کرنا چاہونگا کہ جو صدر بائیڈن لے کر دہلی پہنچے تھے ، گلوبل ساؤتھ ، اور اس گلوبل ساؤتھ کی قیادت بھارت کے سپرد کر دی جائے۔ پاکستان کیلئے ایسی کوئی بھی صورت حال جو ہمارے خطے پر اثر انداز ہو حد درجہ اہم ہوتی ہے کیوں کہ ہم اس سے متاثر ضرور ہوتے ہیں ۔ گلوبل ساؤتھ کا نظریہ یہ ہے کہ چین کے بی آر آئی منصوبہ کا مقابلہ کرنے کی غرض سے بھارت کو تیار کیا جائے ۔ اب بھارت کا تو اتنا اقتصادی حجم نہیں ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر ایسا کر سکے تو جتنی اس کی اقتصادی ضرورت ہو جو کہ چین کے مقابلے میں اس کو درکار ہو اتنی اس کی ضرورت پوری کردی جائے ۔ اب یہ اگلا اور انتہائی اہم سوال ہے کہ کیا سات اعشاریہ چھ ٹریلین ڈالر کے قرض تلے دبی امریکا کی معیشت میں اتنی سکت ہے کہ وہ ان ضروریات کو پورا کر سکتی ہے یا نہیں ؟

گلوبل ساؤتھ کے تصور کو پروان چڑھانے کی غرض سے انڈیا میں جی ٹوئنٹی کے دوران انڈیا کا بندر گاہوں اور ریل کے ذریعے مشرق وسطیٰ ، اسرائیل اور یورپ تک اقتصادی راہداری کے منصوبہ کے ایم او یو پر دستخط کئے گئے۔ اس منصوبے کو انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے ۔ امریکہ ، انڈیا ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب اور یورپی یونین وغیرہ اس میں شامل ہیں ۔ اس منصوبے سے یہ ہدف حاصل کرنا ہے کہ انڈیا کی بندر گاہوں کو متحدہ عرب امارات سعودی عرب وغیرہ سے بڑے پیمانے پر ریل نیٹ ورک تیار کر کے جوڑ دیا جائے اور پھر وہاں سے اسرائیل اور یورپ تک رسائی حاصل ہو جائے۔ اور نہر سوئز والے روٹ کے علاوہ ایک اور روٹ تیار کیا جائے جبکہ چین کے بی آر آئی منصوبے کا بھی اس کو جواب بنا دیا جائے ۔ اس منصوبے پر گفتگو دو ہزار اکیس میں ون ٹو یو ٹو بزنس فورم میں سب سے پہلے امریکہ ، انڈیا ، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین شروع ہوئی تھی بعد میں سعودی عرب نے بھی ان مذاکرات میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔ جب امریکہ کی سرپرستی میں عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین ابراہم معاہدہ ہو رہا تھا تو اس وقت بھی راقم الحروف نے کہا تھا کہ اس کو صرف عرب ممالک اور اسرائیل کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس کے ہمارے خطے پر دور رس نتائج مرتب ہونگے اور جو ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا مگر اس معاہدے کی رو سے اس کی حیثیت تو تسلیم کر لی ہے ۔ اب امریکہ عرب ممالک کو اس میں شامل کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ؟ بات واضح ہے کہ بی آر آئی منصوبے کے ذریعے چین کے قدموں کے نشان عرب سرزمین پر صاف نظر آ رہے ہیں اور یہ صرف اقتصادی معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ سعودی عرب اور ایران کو چین نے اپنے ساتھ کھڑا کر کے یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب اس کی سیاسی حیثیت بھی اس خطے میں مسلمہ ہو چکی ہے اور امریکہ کو ایسی کوئی صورت حال قابل قبول نہیں ہے پھر ابھی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے برکس میں بھی شمولیت اختیار کر لی ہے جس میں انڈیا بھی شامل ہے مگر اس کے روح رواں چین اور روس ہیں ۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجہ میں جب سلطنت عثمانیہ بکھر گئی تو اس وقت سے لے کر دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک عرب کے اس خطے پر برطانوی سایہ موجود رہا اور پھر بعد میں امریکہ نے برطانیہ کی جگہ حاصل کرلی اور تن تنہا اپنے مقام سے لطف اندوز ہوتا رہا مگر چین کی حالیہ کامیابیوں نے اس خطے میں امریکی بالا دستی کی موجودگی اور اس کے مستقبل کے آگے بہت سے سوالیہ نشان لگا دیے ہیں اور گلوبل ساؤتھ کا تصور پیش کر کے امریکہ اپنی بالا دستی کو مستحکم رکھنے کی غرض سے اقدامات اٹھا رہا ہے ۔ اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے انڈیا کو ہلہ شیری دے رہا ہے ۔اس موجودہ منصوبے کا اصل ہدف عرب دنیا کو ایک مخمصے میں مبتلا کرنا ہے کہ امریکہ ایک نئے راستے سے آ رہا ہے اور ان کو سوچنے پر مجبور کردیا جائے کہ ان کو چین سے کس حد تک تعلقات کو آگے بڑھانا چاہئے ۔ اگر امریکہ عرب ممالک کو اس شش و پنج میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کی ایک کامیابی ہوگی ۔ کیوں کہ یہ عرب ممالک اپنی داخلی اور بین الاقوامی سلامتی کے حوالے سے فکر مند رہتے ہیں اور ان کا انحصار بہر حال امریکہ پر ہی ہے ۔ عرب دنیا بتدريج بھارت سے مرعوب ہوتی چلی جائے گی اگر پاکستان کمزور ہوتا چلا گیا ۔ پاکستان میں اگر کاسمیٹک اقدامات کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں درست اقدامات کی طرف بڑھنا ہے تو عرب دنیا سے سلامتی کے حوالے سے معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے جو کہ ممکن بھی ہے مگر یہ معاہدہ کرنے کی صلاحیت ان کو حاصل نہیں ہوگی جو 2018 کے ناکام تجربے جیسے کسی تجربے کے نتیجہ میں حکومت میں آئیں گے بلکہ یہ مقصد صرف حقیقی معنوں میں عوامی حمایت رکھنے والا لیڈر ہی حاصل کر سکتا ہے ۔

تازہ ترین