• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے دل کی صحت کیلئے ضروری عوامل اور اشاروں پر نظر رکھیں

ڈاکٹر احمد سلمان غوری

دل کے مختلف عوارض میں مبتلا ہونے والوں میں ہر جنس اور عُمر کے افراد شامل ہیں۔اِن بیماریوں کو طبّی اصطلاح میں’’ کارڈیو ویسکیولر ڈیزیزز‘‘ (CVD) کہا جاتا ہے۔ ورلڈ ہارٹ فیڈریشن کے مطابق، دنیا بَھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ دل کے امراض ہیں، جب کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً 17.9ملین افراد اِن بیماریوں کے باعث اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر اموات کم اور درمیانی آمدن والے ممالک میں ہوتی ہیں۔ 

پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے، جہاں امراضِ قلب کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں یہ اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ورلڈ ہارٹ فیڈریشن ہی کا کہنا ہے کہ دل کی بیماریوں سے ہونے والی 80فی صد اموات محض اپنے طرزِ زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لا کر روکی جا سکتی ہیں، کیوں کہ ان کا تعلق ہمارے کھانے پینے، جسمانی سرگرمیوں اور تناؤ کے کنٹرول سے ہے۔ یاد رہے کہ، دنیا بَھر میں ہر سال 29 ستمبر کو’’عالمی یومِ قلب‘‘ منایا جاتا ہے اور اِس سال کا خُوب صُورت تھیم ہے’’ Use heart for every heart‘‘ یعنی ہر دل کے لیے دل استعمال کریں۔

دل کی صحت برقرار رکھنے والے عوامل: انسدادِ تمباکو نوشی: تمباکو نوشی دل اور خون کی شریانوں کے نظام کی تباہی کا باعث ہے اور اس سے شریانوں میں اکڑن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، جب کہ یہی عوامل ہارٹ اٹیک کے خطرات میں اضافہ کرتے ہیں۔ اگر تمباکو نوشی تَرک کردی جائے، تو یہ صرف دل ہی کے لیے مفید ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اس سے بہت سی دیگر بیماریوں سے بھی بچاؤ ممکن ہے۔ متوازن غذا کا استعمال: دل کو امراض سے محفوظ رکھنے میں فائبر سے بھرپور اور کم چکنائی والی غذائیں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہیں، جن میں تازہ پھل اور سبزیاں شامل ہیں۔

علاوہ ازیں، نمک کے استعمال میں کمی بھی انتہائی ضروری ہے کہ اس کا استعمال بلڈ پریشر میں اضافہ کر سکتا ہے۔ شکر سے بھرپور غذاؤں میں کمی بھی لانا ضروری ہے، کیوں کہ ان کے استعمال سے ذیابطیس کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے، جو ہارٹ اٹیک کی وجہ بن سکتی ہے۔ باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں: جسمانی فعالیت جہاں ہمارا وزن کنڑول رکھتی ہے، وہیں دل کی بیماریوں سے بھی بچاتی ہے۔ اِس طرح بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے، خون میں روانی آتی ہے اور کولیسٹرول کا لیول بھی کم ہوتا ہے۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی سفارشات کے مطابق، ہفتے میں ڈیڑھ سو منٹ کی معتدل جسمانی سرگرمیاں، جیسے تیز چہل قدمی بھی دل کی صحت میں بہتری لاتی ہے۔اس کے علاوہ، ا لکوحل سے اجتناب اور مناسب نیند سے بھی دل کی بیماری کے خطرات کم ہوجاتے ہیں۔

صحت مند دل کے اشارے (Indicators): عالمی گائیڈ لائنز میں ایسے مستند اشارے بتائے گئے ہیں، جو صحت مند دل کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔جیسے: (1) دل کی دھڑکن کا نارمل (60-100) ہونا (2) بلڈ پریشر 120/80 یا اس سے نیچے رہنا (3) کولیسٹرول لیول 200 سے نیچے ہونا (4) انرجی لیول بہتر رکھنے کے لیے کم از کم چھے گھنٹے کی نیند لینا کہ اِس سے کم نیند لینے والوں میں دل کی بیماریوں کے امکانات25فی صد بڑھ جاتے ہیں۔(5)جسمانی سرگرمی/ ورزش کے بعد دل کی دھڑکن کا جَلد نارمل ہو جانا (6)امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق اورل ہائی جین، یعنی منہ کی صفائی کا اہتمام، دل کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ مسوڑھوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد میں ہائی بلڈ پریشر کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، جو ہارٹ اٹیک کا سبب بن سکتے ہیں۔دن میں دو مرتبہ دو منٹ سے زائد دانتوں کی صفائی، فالج، ہارٹ اٹیک اور ہارٹ فیلئر کے خطرے کو تین گُنا کم کر دیتی ہے۔

خطرے کے عوامل: گو کہ کسی کو بھی دل کا دَورہ اچانک پڑ سکتا ہے، تاہم کچھ ایسی علامات بھی ہیں، جو ہمیں اِس خطرے سے متعلق پہلے ہی خبردار کر دیتی ہیں، ان علامات میں سینے میں درد، جکڑن یا تکلیف، سانس میں تنگی، گردن، جبڑے یا گلے میں درد، پیٹ کے اوپری حصّے میں بھاری پن یا گردن میں درد، دل کی دھڑکن کا سُست یا تیز ہونا، مسلسل یا جلد تھکاوٹ محسوس کرنا، چکر آنا اور بے ہوش وغیرہ ہونا شامل ہیں۔

سی پی آر ٹریننگ: تحقیق کے مطابق، دل کے مریض کو آدھے گھنٹے یا اس سے زاید سینے میں درد رہتا ہے۔ درد بائیں ہاتھ کی طرف پھیلتا ہے اور اس کے ساتھ بہت زیادہ پسینہ آتا ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو یہ دل کے دَورے میں تبدل ہوسکتا ہے۔ایسے دل کے دوروں میں صرف تین سے آٹھ فی صد کے زندہ بچنے کی اُمید ہوتی ہے، جو اسپتال سے باہر ہوئے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً ایسے واقعات اسپتال سے باہر گھر میں، آفس، بازار یا کھیل کے میدان میں چلتے پِھرتے پیش آتے ہیں، جہاں فوری طبّی امداد دست یاب نہیں ہوتی۔ 

کئی بار مریض کے دائیں، بائیں کوئی فیملی ممبر یا دوست موجود ہوتا ہے، لیکن مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مریض کی مدد نہیں کر پاتے ۔ ایسی صُورتِ حال میں ایک ایمرجینسی پروسیجر، سی پی آر کے ذریعے مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ سی پی آر یعنی Cardiopulmonary resuscitationمریض کو اُس وقت دیا جاتا ہے، جب اُس کے دل کی دھڑکن اچانک بند ہو جائے یا سانس لینے میں رکاوٹ کا سامنا ہو۔

اگر یہ عمل اچھی طرح کیا جائے، تو مریض کے دورانِ خون اور سانس کی بحالی میں مدد ملتی ہے۔ جان بچانے کی اِس ابتدائی تربیت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (BIMA) نے 2014ء میں ستمبر کے آخری ہفتے کو’’ لائف سیورز ڈے‘‘سے منسوب کرتے ہوئے مساجد او اسلامک سینٹرز میں عام لوگوں کو سی پی آر کی ٹریننگ دینے کا آغاز کیا۔ 2015ء میں بارہ سے زائد ممالک میں سی پی آر ٹریننگ کے سیشنز منعقد ہوئے۔ ان تربیتی پروگرامز کے براہِ راست مخاطب عام لوگ ہوتے ہیں، اِسی بنا پر مساجد/ اسلامک سینٹرز کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد شریک ہو سکیں۔

پاکستان میں 2019ء سے پیما کے تحت ’’لائف سیورز ڈے‘‘ منایا جارہا ہے اور گزشتہ سال48 مساجد میں سی پی آر ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا۔اِس عمل کو انتہائی آسانی کے ساتھ، ماہر ڈاکٹر کی زیرِ نگرانی چند منٹ کی تربیت سے سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ٹریننگ پروگرام ہر مرد، عورت، بڑے اور بچّے کے لیے یک ساں اہمیت کا حامل ہے۔ 

ہم اِسے سیکھ کر اِس قابل ہو سکتے ہیں کہ کسی بھی حادثے کے دَوران یا کسی فرد کو اچانک دل کا دَورہ پڑنے کی صُورت میں محض تماشا نہ دیکھیں، بلکہ آگے بڑھ کر اُس کی مدد کریں۔ (مضمون نگار، ماہرِ امراضِ قلب کے طور پر الخدمت اسپتال اور ریمیڈیل سینٹر، کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اِس سے قبل NICVD میں بھی بطور ایسوسی ایٹ فزیشن خدمات سرانجام دیتے رہے۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کی سینٹرل ایگزیکٹو کاؤنسل کے رُکن اور پیما، سندھ کے سابق صدر ہیں)