• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب تاریخ کے اوراق پلٹے جاتے ہیں، تو ہمیں اُن صفحات پر کچھ ایسے نام نظر آتے ہیں، جو صرف شخصیات نہیں، روشنی کے مینار ہیں۔ جیسا کہ پاکستان کی خواتین نے مُلک کی بنیاد سے لے کر اس کی تعمیر، دفاع، فلاح اور سیاست تک، ہر محاذ پر قربانی، استقامت اور عزم کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ، صرف مَردوں کی جدوجہد کی داستان نہیں، بلکہ ان خواتین کا تابندہ سفر بھی ہے، جنہوں نے پسِ پردہ رہ کر، سامنے آ کر علم، خدمت، قیادت اور قربانی کی نئی مثال قائم کی۔ 

تاریخِ پاکستان جب بھی قربانی، شعور اور عزم کی کہانی لکھتی ہے، تو اس کے صفحات پر محترمہ فاطمہ جناحؒ کا نام سنہری حروف سے جگمگاتا ہے کہ وہ صرف قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی بہن نہ تھیں، بلکہ ایک نظریاتی و سیاسی ستون، عزم و ہمّت کا پہاڑ اور لاکھوں خواتین کے لیے مشعلِ راہ تھیں۔ 

فاطمہ جناحؒ نے نہ صرف قیامِ پاکستان کے وقت خواتین کو متحرّک کیا بلکہ بعد میں بھی ملک کی نظریاتی اور جمہوری اساس کے لیے ہر ممکن قربانی دی۔وہ حق گو، دلیر اور انتہائی باوقار مزاج کی حامل تھیں۔ فاطمہ جناحؒ نے برطانوی استعمار اور مقامی روایت پرستی، دونوں کے خلاف مزاحمت کی۔ اُنہوں نے مسلم خواتین کو پیغام دیا کہ آزادی کا مطلب صرف جغرافیائی سرحدوں کی تبدیلی نہیں بلکہ ذہنی و معاشرتی خودمختاری بھی ہے۔

جب جلسوں میں جاتیں، تو خواتین کے الگ اجتماع میں خود قیادت کرتیں اور اُن کی تقریر ہر عُمر کی خواتین کے دل میں جوش بھر دیتی۔انہی لمحوں میں، کراچی کے ایک اسکول کی کم عُمر طالبہ نے بھی، جو بعد ازاں میری والدۂ محترمہ عارفہ زیدی کے نام سے پہچانی گئیں، رضاکارانہ طور پر محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کام کیا۔ عارفہ زیدی کا تعلق لکھنؤ کی ایک نواب فیملی سے تھا۔اُن کے نانا عزاداری کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے اور ہجرت کے بعد پاکستان آگئے تھے۔ 

عارفہ زیدی کی پاکستان میں پیدائش ہوئی اور وہ بچپن ہی سے فاطمہ جناح کے ویژن سے متاثر تھیں۔ اُنہوں نے دورِ طالبِ علمی میں فاطمہ جناح کے رضا کارانہ پروگرامز میں بطور والنٹیئر شامل ہو کر نہ صرف قائد کی بہن کی قربت حاصل کی، بلکہ اُس پیغام کو بھی جذب کیا، جو آنے والی نسلوں کی فکری تربیت کا ضامن بنا۔یہ محض ایک اتفاق نہیں تھا کہ فاطمہ جناحؒ جیسے کردار نے ایسی بیٹیوں کو متاثر کیا، جو خود بعد میں قوم کے لیے مثالی مائیں بنیں۔ 

عارفہ زیدی کا ذکر اِسی پس منظر میں آتا ہے کہ وہ اُن خوش نصیب بچیوں میں سے تھیں، جنہوں نے فاطمہ جناحؒ کے وژن کو اپنے ابتدائی شعور میں اپنالیا تھا اور یہ فاطمہ جناحؒ کی قیادت ہی کا فیضان تھا کہ وہ کراچی، لاہور، راول پنڈی، ڈھاکا، چٹاگانگ، حیدرآباد اور کوئٹہ کی بچیوں میں ایسی ہمّت و جرات پیدا ہوئی کہ جس کی بنیاد پر آج ہم ایک پاکستانی عورت کو پُراعتماد، تعلیم یافتہ اور قیادت کا اہل دیکھتے ہیں۔

بیگم رعنا لیاقت علی کا ویژن

پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان کی بیگم، رعنا لیاقت علی خان تحریکِ پاکستان کی ایک اہم رُکن تھیں۔ وہ سندھ کی پہلی خاتون گورنر رہیں، جب کہ ہالینڈ اور اٹلی میں بطور سفیر مُلک کی نمایندگی بھی کی۔ وہ نہ صرف اپنے شوہر کے قدم بقدم ساتھ رہیں، بلکہ تحریکِ آزادی میں خواتین کی بھی بھرپور رہنمائی کی۔ 

اُنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد خواتین کی تعلیم و تربیت اور ترقّی کے کئی منصوبوں کا آغاز کیا۔ اِس ضمن میں’’آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن‘‘(اپوا) کی بنیاد رکھی، جس کے تحت آج بھی کئی ادارے خواتین کو تعلیم یافتہ، ہنرمند اور خودمختار بنانے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آمریتوں کے تسلسل میں جمہور کی جدوجہد

بدقسمتی سے جنرل ایّوب خان نے 1958 ء میں مارشل لا لگا کر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی۔ اُن کا ’’ترقّی کا ماڈل‘‘ دراصل عوامی اختیار ختم کر کے اقتدار کو اشرافیہ، بیوروکریسی اور سرمایہ داروں تک محدود کرنے کا عمل تھا۔ فاطمہ جناح نے جس جمہوریت، سماجی مساوات اور خواتین کے فعال کردار کا خواب دیکھا تھا، وہ ایوب خان کی آمریت کی دھند میں تحلیل ہونے لگا۔ تاہم، عوام خاموش نہیں رہے۔1965 ء میں محترمہ فاطمہ جناح نے ایّوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب میں حصّہ لے کر نہ صرف آمریت کو للکارا، بلکہ پاکستانی خواتین کے لیے سیاسی قیادت کی ایک عظیم مثال بھی قائم کی۔ 

اگرچہ یہ انتخابات بدترین دھاندلی کی نذر ہوئے، مگر محترمہ فاطمہ جناح کے جرأت مندانہ کردار نے نوجوانوں میں سیاسی شعور بے دار کیا۔ یہی شعور بعد میں ایک عوامی انقلابی لہر کی صُورت اختیار کر گیا، جب1967 ء میں ذوالفقار علی بھٹّو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اُن کا نعرہ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ دراصل ایّوب خان کی مصنوعی ترقّی کے خلاف غریب عوام کی آواز بن گیا۔ 

ذوالفقار علی بھٹّو نہ صرف یہ کہ سیاست کو ایوانوں سے نکال کر گلیوں میں لے آئے بلکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار غریب، مزدور، کسان، خواتین اور نوجوان کو بااختیار بنانے کی سنجیدہ کوشش بھی کی۔ وزیرِ اعظم بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ 1973 ء کا متفّقہ آئین ہے۔جو نہ صرف تمام اکائیوں کے درمیان اتفاقِ رائے کا مظہر تھا، بلکہ اُس میں بنیادی انسانی حقوق، خواتین کے لیے مساوی مواقع، اقلیتوں کے تحفّظ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تصوّر کو عملی شکل دی گئی۔ 

یہ آئین محترمہ فاطمہ جناح کے جمہوری خواب کی عملی تعبیر بھی تھا۔عارفہ زیدی جیسی بے شمار کارکنوں اور رضاکار خواتین نے اِن تمام ادوار میں خاموشی سے عوامی بے داری، ووٹ کی اہمیت اور خواتین کی سماجی شرکت جیسے بنیادی نکات پر کام جاری رکھا، جن کی خدمات کسی ٹی وی چینل یا اخبار کی شہ سُرخی تو نہ بنیں، لیکن یہی وہ ستون تھے، جن پر پاکستان کی جمہوری دیوار کھڑی کی گئی۔

ضیاء کے اندھیروں میں خواتین کی آواز

1977 ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے ایک بار پھر جمہوریت کا گلا گھونٹا اور پاکستان کو مارشل لا کی تاریکیوں میں دھکیل دیا، تب مُلکی تاریخ میں ایک نیا موڑ آیا۔ آئین معطّل ہوا، سیاسی جماعتوں پر پابندی لگ گئی اور آزادیٔ اظہار کے دروازے بند ہو گئے۔ مگر اِس بار، آمریت کے خلاف مزاحمت صرف مرد سیاست دانوں تک محدود نہ رہی، بلکہ خواتین نے بھی تاریخ رقم کی۔ یہ وہ دَور تھا، جب محترمہ بے نظیر بھٹو، جو اپنے والد کے عدالتی قتل کے بعد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی تھیں، جمہور کی اُمید بن کر اُبھریں۔ اُن کے حوصلے اور استقامت نے ایک نئی نسل کو آمریت کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا۔

ان کا وجود پاکستانی سیاست میں صرف ایک علامت نہیں تھا، بلکہ وہ ضیاء کے جبر میں اُمید کی وہ شمع تھیں، جو ہزاروں خواتین کے دِلوں میں روشن ہوئی۔ ضیاءالحق کے دَور میں خواتین کی سب سے توانا آوازوں میں سے ایک آواز’’ویمنز ایکشن فورم‘‘(WAF) کی بھی تھی،، جو لاہور اور کراچی سے اُٹھی اور پھر پورے مُلک میں پھیل گئی۔ اِس فورم کی بانی اراکین بشریٰ اعرام، نسرین اعظم، فوزیہ سعید اور دیگر نے نہ صرف آمریت کو للکارا بلکہ ضیائی دَور کے خواتین دشمن قوانین کے خلاف سڑکوں پر احتجاج بھی کیا۔

یہ وہ دَور تھا، جب خواتین نے کوڑے کھائے، جیلیں کاٹیں اور زبانیں بند کرنے کی کوششوں کے باوجود بولتی رہیں۔ ضیاءالحق کے متعارف کردہ’’حدود آرڈینینس‘ جیسے متنازع قوانین نے، جن میں خواتین کو جنسی جرائم میں الزام ثابت نہ ہونے پر بھی سزا ملتی تھی، پاکستانی معاشرے کو جھنجھوڑ دیا، مگر خواتین نے ہار نہ مانی۔محترمہ بے نظیر بھٹّو کے لیے یہ دَور ذاتی صدمات اور قومی جدوجہد کا امتزاج تھا۔ وہ ایک بیٹی تھیں، جن کے والد کو عدالتی قتل کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بہن، جن کا بھائی قتل ہوا اور ایک رہنما، جن پر مسلسل دباؤ رہا۔

مگر اُنہوں نے اپنی تعلیم، دانش اور عالمی سیاست کے تجربے کی بنیاد پر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک منظّم رکھی۔1986 ء میں بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی، ایک تاریخی لمحہ تھا۔ لاہور ایئرپورٹ پر لاکھوں افراد کا جمِ غفیر، صرف ایک سیاسی لیڈر کے استقبال کے لیے نہیں تھا۔ یہ وہ خاموش احتجاج تھا، جو عوام برسوں سے ضیائی آمریت کے خلاف اپنے دِلوں میں پال رہے تھے اور اس احتجاج کی قیادت ایک عورت کر رہی تھی، جو دنیا کی سب سے کم عُمر اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بننے جا رہی تھی۔ 

بے نظیر بھٹو کا پہلا دورِ حکومت (1988-1990ء) اُن کے لیے آسان نہ تھا۔ وہ ایک ایسی ریاست میں وزیرِ اعظم بنیں، جہاں بیوروکریسی، عسکری ادارے اور مذہبی طبقات سب اُن کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ مگر اُنہوں نے خواتین کے لیے الگ پولیس اسٹیشنز، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع کو وسعت دی۔ پاکستان کی خواتین کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ اقتدار کے ایوانوں میں اُن کی بھی نمائندگی موجود ہے۔

ڈاکٹر رُتھ فاؤ، زندگی وقف کردینے والی مسیحا

جرمنی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ کو جب کراچی کے کوڑھ کے مریض دِکھائی دیئے، تو اُنہوں نے اس سرزمین کو اپنا وطن بنا لیا۔ کوڑھ جیسا روگ، جس سے لوگ نفرت کرتے تھے، ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے اُسے چُن لیا۔ اُنہوں نے میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر قائم کیا اور ہزاروں مریضوں کو نہ صرف طبّی سہولتیں فراہم کیں، بلکہ ان کی عزّت بھی واپس دِلوائی۔ 

وہ پاکستان کی وہ غیر مسلم اور غیر مُلکی بیٹی بن گئیں، جسے ریاستِ پاکستان نے بھی قومی اعزازات سے نوازا، مگر اصل عزّت اُنہیں اُن مریضوں کی دعاؤں کی صورت ملی، جو اُن کے ہاتھوں فایاب ہوئے۔

بلقیس ایدھی، خاموش انقلاب کی امین

اگر مولانا عبدالستار ایدھی اِس قوم کا ضمیر تھے، تو بلقیس ایدھی مرحومہ اس قوم کی درماں۔ اُنہوں نے خواتین اور بچّوں کے لیے بے مثال کام کیا۔ وہ جنہیں معاشرہ چھوڑ چُکا تھا، جنہیں کوئی اپنانے کو تیار نہ تھا، وہ سب بلقیس ایدھی کی آغوش میں پناہ لیتے۔ 

ان کے قائم کردہ جھولے، اُن بے زبان بچّوں کی زبان بن گئے، جنہیں معاشرتی ستم نے بولنے سے پہلے ہی خاموش کروانے کی کوشش کی۔ اگرچہ وہ خود کم بولتی تھیں، مگر اُن کے عمل کی گونج پوری دنیا میں سُنائی دیتی ہے۔

آصفہ بھٹو زرداری، نئی نسل کی آواز

محترمہ بے نظیر بھٹّو اور صدر آصف علی زرداری کی صاحب زادی، آصفہ بھٹو زرداری نے سیاست میں اپنے قدم بہت احتیاط اور تدبّرو بردباری سے رکھے ہیں۔ وہ صرف ایک نام وَر خانوادے کی نمائندہ نہیں، بلکہ پولیو کے خلاف جنگ میں پاکستان کی نمائندہ اور عالمی ایمبیسیڈر رہ چُکی ہیں۔ 

اُن کا نرم لب و لہجہ، مدبّرانہ انداز اور صحت و تعلیم جیسے حسّاس موضوعات میں گہری دل چسپی اُنہیں آئندہ نسلوں کی رہنما بننے کی راہ پر گام زن کر چُکی ہے۔ ان کا عورتوں سے متعلق ہر بیان، مہم اور قدم ایک مثبت تبدیلی کی جانب اشارہ دیتا ہے۔

یہ سب خواتین، مختلف میدانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔کوئی فلاحی، سیاسی تو کوئی طبّی یا تنظیمی میدان میں سرگرم رہی یا اب بھی متحرّک ہیں، مگر سب کا ہدف ایک ہی ہے۔ یعنی پاکستانی عورت کو باوقار و خود مختار بنانا۔ یہ خواتین اِس امر کی دلیل ہیں کہ اگر نیّت، علم اور عزم و حوصلہ ہو، تو بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی آپ کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ان سب کے کردار میں کوئی تصنّع ہے نہ وقتی چمک دمک، بس ایک مسلسل جدوجہد، اخلاص اور قربانی کا رنگ ہے۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں۔)