اقصیٰ منوّر ملک، صادق آباد
اللہ ربّ العزّت نے بنی نوعِ انسان کو ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا، کائنات اور جو کچھ اِس میں ہے، وہ سب اسی کے لیے بنایا، لیکن اِس پر کوئی احسان نہیں جتایا، مگر جب اپنے محبوب ﷺ کی بعثت سے متعلق قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو اُن کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، اُنہیں پاک صاف بنائے اور اُنہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جب کہ یہ لوگ اِس سے پہلے یقیناً کُھلی گم راہی میں مبتلا تھے۔‘‘(سورۂ آلِ عمران، 164، ترجمہ: مفتی محمّد تقی عثمانی)۔اِس بات پر تمام علماء کرام متفّق ہیں کہ رحمتِ دوعالم، محبوبِ دو جہاں، سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، خاتم النبیّین، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ تمام اولادِ آدمؑ کے سردار ہیں اور انبیاء میں سب سے افضل ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات خاندانی شرافت، سماجی عزّت و شوکت، برگزیدگی و فضیلت اور انسانی خصائل و فضائل کا منبع تھی۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’مجھے یکے بعد دیگرے ہر قرن کے بنی آدم کے بہترین طبقوں میں منتقل کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ اس موجودہ قرن میں پیدا کیا گیا۔‘‘ اور مسلم شریف میں حضرت واثلہ بن اسقع ؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا کہ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام کی اولاد میں سے کنانہ کو چُنا اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو چُنا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے چُنا‘‘۔
پس، آنحضرت ﷺ کی ذاتِ گرامی اپنے سلسلۂ نسب کی تمام تر برگزیدگیوں اور عظمتوں کا نچوڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لیے حضرت آدم علیہ السّلام سے انبیاء و رسل کی بعثت کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ حضور نبی کریم ﷺ پر آکر ختم ہوگیا۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی، رسول یا پیغمبر دنیا میں آیا اور نہ ہی آئے گا۔ آنحضرتؐ نے اِسے ایک مثال سے یوں سمجھایا کہ’’میری اور دوسرے تمام انبیاءؑ کی مثال اس محل کی سی ہے، جس کے در و دیوار نہایت شان دار اور عُمدہ ہوں، لیکن اس دیوار میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی ہو اور جب لوگ اس محل کے گرد پِھر کر عمارت دیکھیں، تو اُس کی شان و شوکت اور در و دیوار کی خوش نُمائی اُنہیں حیرت میں ڈال دے، مگر ایک اینٹ کے بقدر خالی جگہ دیکھ کر اُنہیں سخت تعجّب ہو، پس، مَیں اس اینٹ کی جگہ کو بَھرنے والا ہوں، اس عمارت کی تکمیل میری ذات سے ہے اور انبیاءؑ و رسلؑ کے سلسلے کا اختتام مجھ پر ہوگیا ہے‘‘۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ’’پس، مَیں ہی وہ اینٹ ہوں(جس کی جگہ خالی رکھی گئی تھی) اور مَیں ہی خاتم النبیّین ہوں۔‘‘(بخاری و مسلم)
انبیاء علیہم السّلام چوں کہ مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسالت و نبوّت کا دعویٰ کرتے ہیں، اِس لیے اللہ تعالیٰ اُنھیں کچھ ایسے معجزات بھی عطا فرماتا ہے، جنہیں وہ اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ آپؐ سے پہلے انبیاء کرامؑ کو جو بھی معجزات دئیے گئے، وہ اُس زمانے ہی کے لیے مخصوص تھے کہ نبیؑ کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ معجزہ بھی ختم ہوگیا، لیکن ہمارے پیارے نبی ﷺ کو قرآنِ کریم کی صُورت جو سب سے بڑا معجزہ عطا کیا گیا، اُسے دائمی حیثیت حاصل ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں فصاحت و بلاغت کا زور تھا۔
عرب فصحاء کا دعویٰ تھا کہ اُن کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا کے تمام لوگ گونگے ہیں۔ جب آنحضرت ﷺ پر قرآنِ کریم نازل کیا گیا، تو اس کے سامنے سب کی فصاحت و بلاغت ڈھیر ہوگئی۔ زبان دانی کا دعویٰ کرنے والے مغلوب ہوگئے، یہاں تک کہ عرب کے نام وَر فصحاء تمام تر کوششوں کے باوجود قرآنِ پاک کی چھوٹی سی سورت جیسا کلام بھی پیش نہ کرسکے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ ہر نبی کو معجزات میں سے صرف اِتنا دیا گیا ،جس پر انسان ایمان لا سکے اور جو معجزہ مجھے ملا ،وہ اللہ کی وحی ہے، جو اُس نے میری طرف بھیجی( اور جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے) اور اِس بنا پر مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن میرے ماننے والوں کی تعداد تمام ابنیاءؑ کے ماننے والوں سے زیادہ ہوگی۔‘‘( متفّق علیہ)۔
بخاری و مسلم کی ایک روایت کچھ یوں ہے: حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا کہ’’مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا نہیں ہوئیں۔ ایک تو مجھے اُس رُعب کے ذریعے نصرت عطا ہوئی، جو ایک مہینے کی مسافت کی دُوری پر اثر انداز ہوتا ہے۔ دوسری، ساری زمین کو میرے لیے ’’مسجد‘‘ اور ’’پاک کرنے والی‘‘ قرار دیا گیا، چناں چہ میری اُمّت کا ہر شخص جہاں نماز کا وقت پائے،(اگر پانی نہ ہو، تو تیمم کرکے) نماز پڑھ لے، تیسری، میرے لیے مالِ غنیمت حلال قرار دیا گیا، جو مجھ سے پہلے کسی اُمّت کے لیے حلال نہیں تھا۔ چوتھی، مجھے شفاعتِ عظمیٰ عامّہ کے مرتبے سے سرفراز کیا گیا اور پانچویں چیز یہ کہ مجھ سے پہلے ہر نبی کو اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، جب کہ مجھے روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا۔‘‘
مسلم شریف کی ایک روایت میں چھٹی فضیلت یہ بیان ہوئی ہے کہ’’ مجھے جوامع الکلم عطا ہوئے۔‘‘ جب کہ اِس روایت میں شفاعت کے مرتبے کی بجائے’’ مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کیا گیا‘‘ کے الفاظ ہیں۔جوامع الکلم کی خصوصیت یہ ہے کہ چند الفاظ پر مشتمل چھوٹے سے جملے میں معانی کا ایک جہاں چُھپا ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ سمندر، کُوزے میں بند ہوتا ہے، جیسے’’اِنما الاعمال بالنيّات‘‘ یا ’’الدّین النصیحہ۔‘‘
قیامت کے دن بھی تمام انسانی کمالات و صفات اور تمام تر عظمتوں کا مظہر آنحضرت ﷺ کی ذاتِ گرامی ہی ہوگی۔ اُس دن مخلوقات میں سے کسی کا درجہ آپؐ سے بلند ہوگا اور نہ ہی آپؐ کے علاوہ کوئی ذات سرداری اور سربراہی کی مستحق قرار پائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’مَیں قیامت کے دن تمام اولادِ آدمؑ کا سردار ہوں گا اور مَیں ہی سب سے پہلے قبر سے اُٹھوں گا۔ نیز، مَیں سب سے پہلے شفاعت کروں گا اور میری ہی شفاعت سب سے پہلے قبول ہوگی۔‘‘(مسلم) اُمّتِ محمّدیہؐ کی تعداد قیامت کے دن سب سے زیادہ ہوگی۔ اِس ضمن میں مسلم شریف کی ایک روایت میں حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا’’قیامت کے دن پیغمبروں میں سے جس پیغمبر کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی، وہ مَیں ہوں گا اور جنّت کا دروازہ سب سے پہلے جو شخص کھٹکھٹائے گا،(یعنی کھلوائے گا) ،وہ مَیں ہوں گا۔‘‘
جامع ترمذی میں آپؐ سے روایت ہے کہ’’قیامت کے دن حمد کا جھنڈا (لواء الحمد) میرے ہاتھ میں ہوگا اور مَیں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، اُس دن کوئی بھی نبی، خواہ وہ آدمؑ ہوں یا کوئی اور، ایسا نہیں ہوگا، جو میرے جھنڈے کے نیچے نہیں آئے گا۔‘‘واضح رہے کہ آپﷺ کی’’حمد‘‘ کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔ آپؐ کا اسمِ گرامی محمّدؐ اور احمدؐ ہے، آپؐ صاحبِ مقام محمود ہیں، آپؐ کی اُمّت ’’حمّادین‘‘ کہلاتی ہے، یعنی وہ لوگ، جو ہر حالت میں، خوشی ہو یا غم، اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کی ذاتِ بابرکات قیامت کے دن حامد بھی ہوگی اور محمود بھی اور آپﷺ، اللہ تعالیٰ کی حمد ہی کے ذریعے شفاعت کی اجازت حاصل کریں گے۔ ترمذی ہی کی ایک روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’میرے لیے اللہ تعالیٰ سے’’وسیلہ‘‘ مانگا کرو۔‘‘ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ’’ یا رسول اللہ ﷺ! یہ وسیلہ کیا ہے؟‘‘
آپؐ نے فرمایا’’جنّت کے سب سے بڑے درجے کا نام ہے، جو صرف ایک شخص کو ملے گا اور مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ وہ شخص مَیں ہوں۔‘‘ درحقیقت، آنحضرتؐ کا اُمّت سے اپنے لیے دُعا کروانا کسرِ نفسی کے طور پر ہے یا اس کا یہ مقصد ہے کہ اگر اُمّت اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے گی، تو اِس سے اُسے ہی اجر و ثواب کی صُورت فائدہ ہوگا۔واللہ اعلم۔ آنحضرت ﷺ قیامت کے دن تمام انبیاء علیہم السّلام کے سردار ہوں گے، اِس بات کی تائید اِس حدیثِ مبارکہؐ سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’جب قیامت کا دن ہوگا تو مَیں (مقامِ محمود میں کھڑا ہوں گا اور) تمام انبیاءؑ کا امام و پیشوا ہوں گا اور مَیں اُن کی ترجمانی کروں گا اور شفاعت و سفارش کروں گا اور مَیں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔‘‘(ترمذی)۔
حضور نبی کریم ﷺ کی اُمّت کے ستّر ہزار افراد بغیر حساب کتاب جنّت میں داخل ہوں گے اور یہ فضیلت آپؐ کے علاوہ کسی دوسرے نبی کے لیے ثابت نہیں۔ نیز، جنتیوں میں اُمّتِ محمدیہؐ کا تناسب بھی سب سے زیادہ ہوگا، جیسا کہ فرمایا’’جنتیوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، جن میں سے80صفیں اِس اُمّت (اُمّتِ محمّدیہؐ) کی ہوں گی اور چالیس صفیں دوسری اُمّت کے لوگوں کی ہوں گی‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف)۔
’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ جس کے پَرے کیا ہے، کسی کو علم نہیں کہ اُس سے آگے فرشتوں تک کو جانے کی اجازت نہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السّلام کی آخری رسائی یہیں تک ہے، لیکن آنحضرت ﷺ معراج کی رات اس سے بھی آگے گئے۔ یہ فضیلت بھی آپ ﷺ ہی کو حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بلاواسطہ کلام سے سرفراز ہوئے۔آپؐ نے فرمایا’’قیامت کے دن مجھے جنّت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا اور پھر مَیں عرشِ الٰہی کے دائیں جانب کھڑا ہوں گا، جہاں میرے سوا مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہوگا۔‘‘(ترمذی)۔جسم و روح کے ساتھ معراج آنحضرت ﷺ کا ایک خصوصی شرف ہے کہ یہ مرتبہ کسی اور نبی یا رسول کو حاصل نہیں ہوا۔
آنحضرت ﷺ کے اوصاف سابقہ آسمانی کتب میں بیان کیے گئے اور بہت سے مناقب و فضائل قرآنِ پاک میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے انبیاءؑ کی نسبت فرمایا’’ ہم نے ہر نبی کو اُس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ قوم کے سامنے اللہ کے احکام و قوانین بیان کرے‘‘، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ سے متعلق ارشاد فرمایا’’(اے پیغمبر ﷺ ) ! ہم نے آپؐ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا۔‘‘اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ’’کوثر ‘‘ عطا کی۔ لفظ ’’کوثر‘‘ وسیع المعنی ہے۔صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو البشرؓ نے حضرت سعید بن جبیرؓ سے اور اُنہوں نے حضرت ابنِ عبّاسؓ سے روایت کی ہے کہ ’’کوثر‘‘ سے مُراد وہ خیرِ کثیر ہے، جو اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے رسول اللہﷺ کو عطا فرمائی۔
حضرت ابو البشرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت سعید ؓ سے کہا’’ لوگوں کا گمان ہے کہ کوثر ایک نہر کا نام ہے، جو جنّت میں ہے‘‘ تو اُنھوں نے جواب دیا’’ وہ جنّت والی نہر بھی اِسی خیرِ کثیر میں سے ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں آپؐ کی زندگی کی قسم کھائی۔’’اے پیغمبر! آپؐ کی جان کی قسم! وہ لوگ اپنی بد مستی میں اندھے بنے ہوئے تھے‘‘۔ (سورۃ الحجر، 72)۔حضرت ابنِ عبّاسؓ اِس آیت سے متعلق فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمّد ﷺ سے اشرف و اکرم کسی کو پیدا نہیں کیا۔ مَیں نے نہیں سُنا کہ اللہ تعالیٰ نے سوائے حضرت محمّدﷺ کے کسی اور فرشتے یا نبی کی زندگی کی قسم کھائی ہو۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رحمتِ دو عالم، حضورِ اکرم ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔’’اے پیغمبرؐ! ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ ( سورۃ الانبیاء 107:)
آنحضرتؐ نے فرمایا’’ مَیں سراپا رحمت ہوں‘‘۔ (البیھقی) اور فرمایا ’’ انا نبی الرحمۃ‘‘ یعنی’’مَیں رحمت والا نبی ہوں۔‘‘(صحیح مسلم)۔احادیثِ مبارکہ میں سیّد المرسلین، خاتم النبیّین ﷺ پر درود پڑھنے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اِس عمل کو اپنی طرف منسوب کرکے اس کی شان و فضیلت کمال درجے تک بڑھا دی۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حق تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بہت سے احکام ارشاد فرمائے،جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ اور بہت سے انبیاء کرامؑ کی تعریف و توصیف بھی کی، لیکن یہ اعزاز صرف حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ ہی کو حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ (درود) کی نسبت اولاً اپنی طرف، اُس کے بعد ملائکہ کی طرف اور پھر مسلمانوں کو حکم دیا کہ’’ اللہ اور اُس کے فرشتے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، تو اے ایمان والو! تم بھی آپؐ پر خُوب درود و سلام بھیجا کرو۔‘‘( سورۃ الاحزاب، 56)۔
بلاشبہ محبوبِ دو جہاں، سیّد المرسلین، خاتم النبیّین ﷺ کی فضیلت تمام انبیاءؑ پر ثابت ہے، لیکن آپؐ کی اِس طرح فضیلت بیان کرنا، جس سے کسی نبیؑ کی توہین و تنقیص لازم آتی ہو، جائز نہیں کہ مقامِ رسالت بذاتِ خود اِتنا بلند اور عظیم ہے کہ دل و زبان کو اِس بارگاہ میں ہمیشہ مؤدب رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب ﷺ کی سنّتوں کا پابند اور آپؐ کی پاکیزہ تعلیمات پر اخلاص کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں اپنی رضائے کاملہ اور آپؐ کی شفاعتِ کبریٰ کی دولت عطا فرمائے۔(آمین یاربّ العالمین)
نوٹ: اِس تحریر میں شامل بعض احادیث و روایات کی تشریح ’’مظاہرِ حق، شرح مشکوٰۃ‘‘ سے اخذ شدہ ہے۔