’’یہ تم کیا لکھ کر لائی ہو؟‘‘ غزل بیگم نے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے سے خشمگیں نگاہوں سے اُسےدیکھتے ہوئے استہزائیہ انداز میں سوال کیا ۔’’کہانی اور کیا ؟ آپ کے پرچے میں کہانیاں ہی تو…‘‘’’جتنا پوچھا جائے، اُتنا ہی جواب دیا کرو،فالتوباتیں کر کے میرا فشارِ خون نہ بڑھایا کرو۔‘‘ غزل بیگم نے مسوّدہ میز پر پٹختے ہوئے کہا۔’’ جی اچّھا …اچّھا یہ تو بتائیں کہ کہانی کا آئیڈیا تو اچّھا ہے ناں؟ ’’ایک ہی فقرے میں تین مرتبہ ایک ہی لفظ کی گردان جملے کو نہ صرف کم زور کرتی ہے بلکہ اپنا اثر بھی کھودیتی ہے اور پھر قاری کو بھی نا گوار گزرتا ہے۔‘‘ غزل بیگم کا یہ تیکنیکی نکتہ رملہ کے سَر سے گزر گیا،لیکن اُس کے منہ سے ایک مرتبہ پھر بے اختیار’’ جی اچّھا‘‘ نکل گیا۔ ’’ تم اب تک چار مرتبہ’’ اچّھا‘‘ کہہ چُکی ہو اور یہی کم زوری تمہاری تحریروں میں بھی ہے۔
آخر تم مضبوط پلاٹ کیوں نہیں بناتیں ؟‘‘ ’’پلاٹ؟…پلاٹ کب سے مضبوط ہو گئے ؟یہ تو تعمیر کے بعد ہی پتاچلتا ہے کہ بنیاد مضبوط تھی یا نہیں ؟‘‘ وہ ہونّقوں کی طرح بولی۔’’ یہی تو مَیں تم سے کہنا چاہتی ہوں کہ خدارا! اپنی کہانی کے پلاٹ پر بھی توجّہ دو۔‘‘ ’’ آپ خود ہی تو انوکھی کہانیاں لکھنے کو کہتی ہیں۔‘‘ اب کی بار وہ بگڑ کر بولی۔ ’’ہاں تو انوکھی سے مُراد اتنی ہی انوکھی کہ جتنااس زمین پر انوکھا پن ممکن ہے ۔ اب اس کہانی میں جتنے معجزے تم نے دکھائے ہیں، وہ شاید مریخ پر تو ہوں، کم از کم زمین پر ممکن نہیں ۔ تم خود ہی بتاؤ کہ بھلا دو سال کی نوکری میں کوئی پلاٹ خرید سکتا ہے؟‘‘
’’ ہاں تو دونوں میاں بیوی کما رہے تھے ‘‘، وہ تیزی سے بولی بولی۔’’ایک پچاس ہزار اور دوسرا دس ہزار …‘‘ انہوں نے بھی اُسی انداز میں جواب دیا ۔ ’’مگر بیوی کی آمدنی تو مَیں نے کہیں نہیں لکھی۔‘‘ وہ حیرت سے بولی۔’’ ایک اسکول میں ملازمت کرنے والے کو اس سے زیادہ کہاں ملتا ہے ۔‘‘رملہ نے دل ہی دل میں اُن کی تائید کی۔’’ اور غضب خدا کا وہ بھی پوش علاقے میں … یہاں زندگیاں بِیت جاتی ہیں ،ایسے سودے ہونے میں۔ مَیں تو خود پچھلے آٹھ سال سے… ‘‘وہ کچھ کہتے کہتے رُک گئیں۔’’ اور تم نے دو سال میں اُن کو پلاٹ الاٹ کر وادیا ۔ ‘‘غزل بیگم نےناگواری سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ آپ کے ماہ نامے کا نام’’ انوکھے فسانے‘‘ ہے، تو پھر کہانیاں بھی ایسی ہی لکھی جائیں گی ۔ ‘‘ رملہ نےاحتجاجاً جواب دیا۔’’تو اس دُنیا سے ماورا تو نہ لکھو ناں…‘‘ ’’ اب ایسا بھی کیا لکھ دیا مَیں نے ؟‘‘اس نےکسی فریادی کے انداز میں پوچھا۔
’’ جب ہیروئن اسپتال گئی ،تو ڈاکٹر نے اُس کی بگڑتی حالت کے پیشِ نظر گھر والوں سے کہا کہ ہم ماں یا بچّے میں سے کسی ایک کو بچا سکتے ہیں ، تو تم نے اس کا کیا حل پیش کیا ؟‘‘ یہ کہہ کر غزل بیگم اُسے کڑی نظروں سے دیکھنے لگیں۔’’ ایسی صورتِ حال میں تو سارا گھر ہی پریشان ہو جاتا ہے ۔ مریضہ کے میکے والے چاہتے ہیں کہ بیٹی کو بچایا جائے ، جب کہ سُسرال والے اپنا ولی عہد چاہتے ہیں۔ ‘‘ رملہ نے پُرجوش انداز سے جواب دیا۔ ’’بالکل ایسی ہی دِل چسپ صورتِ حال پچھلے برس میری خالہ کی منجھلی بیٹی کے ساتھ پیش آئی تھی۔ جب ڈاکٹر نے ماں اور بیٹی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا کہا تھا۔ میرے خالہ، خالو اپنی بیٹی کی زندگی چاہتے تھے ، جب کہ ساس اور نندیں، خالہ، خالو کی طرح خالی خولی خولہ یعنی میری خالہ زاد کو نہیں، بلکہ بچّہ بچانا چاہتے تھے ،جسے انہوں نے دیکھا تک نہ تھا ۔ ‘‘ وضاحت پیش کرتے ہوئے اس کے لہجے میں سنسنی سی تھی۔
’’ اُف میرے خدا !!‘‘ غزل بیگم نے سَر ہاتھوں میں تھا م لیا۔ اچھا، توپھرکیا ہوا ؟‘‘رملہ نے اِتراتے ہوئے جواب دیا ، ’’ خوش قسمتی سے مَیں بھی وہاں موجود تھی۔ جب دونوں خاندانوں کو بحث کرتے کافی دیر ہوگئی، تو مَیں نے اس تنازعے کا یہی حل پیش کیا۔‘‘’’ یعنی وہ حل، جو تم نے کہانی میں لکھاہے؟ ‘‘غزل بیگم نےآنکھیں پھاڑ تے ہوئے پوچھا ۔’’ ایگزیکٹلی… مَیں نے نرس سے سے کہا کہ آپ قُرعہ اندازی کر لیں، جس کا نام نکلے ،اُسے بچا لیں، سِمپل…‘‘ اُس نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔’’بہت خوب ۔‘‘ غزل بیگم نے کاری طنز کیا۔’’ نرس تو خوش ہو گئی تھی شاید، لیکن میرے خالہ خالو ناراض ہو گئے اور آج تک ناراض ہیں۔‘‘ رملہ نے ہونٹ سُکیڑتے ہوئے وضاحت پیش کی۔ ’’تو تجویز بھی تو انوکھی تھی ناں۔‘‘ غزل بیگم نے متاسف نظروں سے اُسے دیکھا ۔’’تبھی تو مَیں نے اس تجویز کو اپنی کہانی میں شامل کیا ہے۔ ‘‘ وہ چہکتےہوئے بولی۔
’’دیکھو بی بی! ایسے مشورے تم ہی لکھ اور دے سکتی ہو۔ تمہارے کردار ضرور حواس باختہ ہوں گے، لیکن مَیں نہیں۔‘‘ غزل بیگم نے میز سے اپنی فائل اُٹھاتے ہوئے کہا۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ اب جا سکتی ہے۔رملہ نے بُجھے دِل سے اُن کی طرف دیکھا ،لیکن انہوں نے اس پر نظرِالتفات نہ ڈالی۔ پھروہ بے دِلی سے اُٹھی، میز پر رکھا مسوّدہ اُٹھایا اور بوجھل قدموں کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔’’ٹھہرو!‘‘ پیچھے سے آواز آئی۔ وہ رُکی اور گھوم کر پیچھے کی جانب دیکھا۔ ’’براہِ مہربانی، آئندہ حقیقی واقعات پر مبنی کہانیاں لکھنا اور یہ قُرعہ اندازی والا آئیڈیا اپنے دماغ تک ہی تک رہنے دو، تو بہتر ہے اور آئندہ یہ غلطی مت دُہرانا۔ بی بی !یہ زندگی ہے اور جس واقعے کو تم دِل چسپ بنا کر پیش کر رہی ہو ، وہ وقت درحقیقت بے حد درد ناک ہوتا ہے۔ تم ابھی کم عُمر ہو ۔ فی الحال اپنی پڑھائی پر توجّہ دو۔ ‘‘ غز ل بیگم کے اس مشورے نے رملہ کا دِل کرچی کرچی کر دیا۔ تاہم، اس مرتبہ اُس نے کوئی جواب دینے کی بجائے صرف دھیرے سے سر ہلانے پر اکتفا کیا اورکمرے سے باہر نکل گئی اورپھرلکھنے لکھانے کو بھی ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔
**********
’’یہ کیا ہو گیا؟‘‘ اُسے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ چھے سال کی تپسّیا کا موازنہ چھ ماہ سے…؟؟ زندگی کا حاصل اتنا نا قابلِ یقین اور بھیانک ہوگا ؟سوال تو بڑا پیچیدہ تھا ، لیکن اس کا حل نہایت آسان نکالا گیا تھا ۔ بالکل اُسی طرح جیسا کہ آج سے آٹھ سال قبل اُس نے اپنی ناسمجھی کی عُمر میں نکالا تھا ۔
چھے سال قبل رسم و رواج کے مطابق اُسے ایک اجنبی کے حوالے کر دیا گیا، جو برسوں بعد بھی اُس کے لیے غیر مانوس ہی رہا،حالاں کہ اس عرصے میں اُس کے گھر والوں نے اس بندھن کا خُوب فائدہ اٹھایا۔ دن رات مشین کی طرح کام کرنے سے رملہ کا رنگ و رُوپ توماندپڑا ہی، مزاج بھی عدم توازن کا شکار ہو گیا۔ وہ اس گھر کو اپنا خون، پسینہ تو دیتی رہی، لیکن اولاد کی شکل میں’’ حقیقی خوشی‘‘ نہ دے سکی اوراس وجہ سے ہر وقت طنز و تشنیع کے تیر سہتی رہتی۔
’’ بہت ہو گیا بھئ ، برسوں گزار لیے پوتے کی آرزو میں ، اب کیا بیٹے کو بوڑھا کردوں؟ کوئی لڑکی دکھاؤ ، آخر میرا ایک ہی بیٹا ہے اورکیا وہ بھی بے اولاد رہےگا؟‘‘ ساس امّاں ہر ایک سے یہی فریاد کرتیں۔ اُنہیںانتظار کی مزید زحمت مزید نہ سہنی پڑی اور بالآخر گھر میں نئی بہو آگئی۔ اب وہی ہوا، جو ہمارے معاشرے کا خاصّہ ہے۔ نئی دُلہن، پُرانی کو برداشت کرنے پر کسی طور آمادہ نہ تھی۔ وہ میاں کی ساری توجّہ اپنی ذات ہی پر مرکوز دیکھنا چاہتی تھی۔ میاں نے بھی اپنا سارا وقت اُس کے لیے وقف کر دیا تھا، لیکن شاید اُسے چند لمحوں کی شراکت بھی گوارہ نہیں تھی۔
نئی دُلہن آئے بہ مشکل چھے ماہ ہی گزرے تھے، لیکن گھر میں لڑائی جھگڑے روز کا معمول بن چُکے تھے۔ گرچہ خوشی کی نوید تو اُس نے بھی ابھی تک نہیں سُنائی تھی، لیکن سارا گھر ہی روز روز کے جھگڑوں سے عاجز آچُکا تھا۔ امّاں تو بیٹے سے کہتی تھیں کہ وہ اُسے باپ کے گھر چھوڑ آئے، لیکن اُس کا میکہ تگڑا تھا۔ دونوں بھائی بڑے بڑے عُہدوں پر فائز تھے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ امّاں نے اپنی ناک اُونچی رکھنے کے لیے حق مہر بھی لاکھوں کا رکھوا لیا تھا، جو اب گلے کی ہڈی ثابت ہو رہا تھا۔
’’دل تو چاہتا ہے کہ اسے باپ کے گھر چھوڑ آؤں، لیکن تین لاکھ کہاں سے لاؤں ؟" میاں نے مُٹّھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔ ’’ تو پھر اُس فسادن کو چھوڑ دے، جس کی وجہ سے یہ چُھٹکی گھر میں رولا ڈالتی ہے۔‘‘ امّاں سَر پیٹتےہوئے بولیں۔‘‘ پورا گھر میاں کی جان کو آگیا تھا کہ کسی ایک کو چھوڑ دے اور وہ بھی مخمصے میں پڑ گیا تھا۔’’ پہلی والی سے اولاد کی خوشی تو نصیب نہ ہوئی، پر گھر کا سُکھ تو قائم تھا، جب کہ دوسری کو تو بڑے چاؤ سے اولاد کے لیے لایا گیا تھا ،لیکن وہ زبان کی اس قدر تیز نکلی۔‘‘میاں نے دل ہی میں دل میں سوچا۔’’ مہر کی رقم کہاں سے لائو گے؟‘‘ دماغ نے پوچھا۔’’اُدھار لے لوں گا کسی سے …‘‘ دل نے حل پیش کیا۔’’واپس کیسے کرو گے؟‘‘دماغ نے نیاسوال داغ دیا۔ ’’اُف!! ایک طرف کھائی ، دوسری طرف کنواں۔ دل چاہتا ہے بال نوچ لوں اپنے۔‘‘میاں نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔
آج پھر گھر میں خُوب اودھم مچا تھا اور وہ دونوں کی ٹھیک ٹھاک خبر لینے کے بعد سَر پکڑے بیٹھا تھا۔ ’’ارے ماموں! کیوں سوچ بچار میں اپنا وقت گنوا رہے ہو۔ کسی ایک کی چُھٹّی کرو اور اس روز کے لڑائی جھگڑے سے جان چُھڑائو۔‘‘ بالائی منزل پر رہنے والی کم عُمر بھانجی نے اُسے مشورہ دیا۔ ’’ اتنا آسان نہیں ہے یہ۔‘‘میاں نے کہا۔ ’’میرے پاس ایک طریقہ ہے، جس سے چُٹکی بجاتے ہی مسئلہ حل ہوجائے گا۔‘‘ بھانجی نے آنکھیں گُھماتے ہوئے چُٹکی بجائی۔ ’’ وہ کیسے؟‘‘میاں نے پوچھا۔ ’’ ارے قُرعہ ڈالو، جس کا نام آئے، اُسے فارغ کردو۔‘‘بھانجی نے لاپروائی سےجواب دیا۔’’یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟‘‘میاں نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ ارے ماموں! ہمارے گھر تو ہمیشہ ہر کام کے لیے قُرعہ ہی ڈالا جاتا ہے ۔‘‘ بھانجی نے کندھے اُچکاتے ہوئے اپنے ددھیال کا نقشہ کھینچا ۔’’ اچھا…‘‘میاں نے ایک طویل سانس بھری اور امّاں کے پاس مشورے کے لیے چلا گیا۔
چند منٹوں ہی میں سارے گھر میں یہ خبر پھیل گئی۔ رملہ تک بھی خبر پہنچنے میں دیر نہ لگی۔ ’’قُرعہ… یعنی اب میرے اس گھر میں مزید رہنے کا فیصلہ ایک پرچی کرے گی ؟ یہ حیثیت ہے میری۔‘‘یہ سوچ کر اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اورپھر پَل بھر میں برسوں پہلے بیتے اس لمحے تک جا پہنچی کہ جب اُس نے دو انسانوں کی موت و حیات کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اِس گھر میں رملہ کو اپنی وقعت کا اندازہ تھا، لیکن وہ قُرعہ اندازی کے ذریعے خود کو بے مول نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’آپ قُرعہ نہ ڈالیں، مَیں خود ہی اس گھر سے جارہی ہوں کہ شاید میرے جانے سے کچھ سکون میسّر آجائے ۔‘‘ رملہ نے فیصلہ کُن اندازمیں میاں سے کہا اور سامان سمیٹنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔ تب اُس نے چشمِ تصوّر میں غز ل بیگم سے ہم کلام ہوتے کہا ، ’’ میڈم !آپ تو کہتی تھیں کہ دُنیا سے ماورا قصّے، کہانیاں نہ لکھا کرو۔ آج آپ یہاں موجود ہوتیں ، تو دیکھتیں کہ مَیں خود ایک ایسے ہی ’’ماورائی‘‘ قصّے کا حقیقی کردار بن گئی ہوں۔ واقعی زندگی کا ہر رُوپ جدا، منفرد اور بہت ظالم ہے۔‘‘