• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسماء صدیقہ

شادی ہال بُقعۂ نور بنا ہوا تھا،ہر سُو رونق و رعنائی کا راج تھا۔ خوش رنگ، بھڑکیلے ملبوسات اور میک اپ سے مزیّن چہروں نے ماحول کو خاصا مسحور کُن کردیاتھا۔ اسٹیج پر موجود لڑکے، لڑکیاں بھارتی گانوں پر جُھوم رہے تھے۔ ایسے میں چادر میں لپٹی مُونا ساڑی سنبھالتی ہال میں داخل ہوئی اور اپنے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کرنے لگی۔ شاکر نے بڑی مہربانی کرتے ہوئے اُسے یہاں تک پہنچا دیا تھا اور واپسی پر پِک کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے ضروری کام کا بہانہ بنا کر خود رفو چکّر ہو گیا تھا۔ شوہر کی اس بے مروّتی پر مُونا کا مُوڈ سخت خراب تھا۔ ’’خیرتو ہے مُونا آپی! شاکر بھائی کیوں چلے گئے اچانک… اور بچّے ساتھ کیوں نہیں آئے؟‘‘ دُلہن کی چھوٹی بہن نے اُسے ساتھ لپیٹتے ہوئے پوچھا۔’’ ندا! دراصل شاکر کو ایک بہت ضروری کام تھا اور تینوں بچّوں کے پیپرز ہو رہے ہیں۔ ویسے وہ واپسی پر تھوڑی دیر کے لیے شریک ہوں گے۔‘‘

مُونا نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی۔ گرچہ یہ اُس کے دُور کے رشتے داروں کی بیٹی کی شادی تھی، مگر اُسے بھی بڑے اہتمام سے چار دِن کی دعوت دی گئی تھی۔ ہال میں مخلوط اجتماع تھا، لیکن وہ اپنی رشتے دار خواتین کے ایک الگ تھلگ حلقے میں جا کر بیٹھ گئی۔ ’’ارے مُونا! تم دو دِن منہدی کی تقریب میں کیوں نہیں آئیں۔ سب نے خُوب موج مستی کی۔‘‘ سبز بنارسی ساڑی میں ملبوس ، جدید ہیئر اسٹائل کی حامل خاتون نے، جو رشتے میں اُس کی بھابھی لگتی تھیں، بڑی ترنگ سے پوچھا۔ ’’ جی جی… وہ بتایا ناں، بچوں کے پیپرز چل رہے ہیں۔‘‘ اس نے کھسیائے سے لہجے میں جواب دیا۔ ’’ارے بچّے کون سے اتنے اہم پیپرز دے رہے ہیں۔ وہ گھر میں پڑھتے رہتے، تم لوگ آجاتے۔ ویسے بھی اب تو صرف شادی بیاہ کی تقاریب ہی میں میل ملاپ اور ہنسنے بولنے کے مواقع ملتے ہیں۔‘‘ 

ایک اور خاتون نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔ ’’جی باجی! بس کیا بتائوں۔ مَیں بھی شاکر سے یہی کہہ رہی تھی۔‘‘ آخر کار نہ چاہتے ہوئے بھی سچ اُس کی زبان پر آ گیا۔’’ہاں بھئی، ہمیں معلوم ہے کہ تمہارا میاں شروع ہی سے غُل غپاڑے سے کتراتا ہے۔‘‘ قریب بیٹھی سلطانہ چچّی سے بھی خاموش نہ رہا گیا۔’’آپ تو سب جانتی ہیں ناں چچّی۔ اب تو اُن کے سادگی و قناعت کے لیکچرز بہت بڑھ گئے ہیں۔ مَیں نے منہدی میں شرکت کے لیے کہا، تو جواب دیا کہ آج کل مخلوط اجتماعات اور بے ہودہ فلمی گانوں کی وجہ سے تقریبات بے حیائی پھیلانے کا سبب بنتی جارہی ہیں۔ مَیں تمہیں قریبی پارلر سے منہدی لگوادوں گا، لیکن منہدی کے نام پر بےحیائی کی شیطانی مجلس میں مت جاؤ۔‘‘ مُونا نے اپنے منہدی لگے ہاتھ دکھاتے ہوئے حقیقت عیاں کر دی۔ ’’کُچھ زیادہ ہی مولوی ہوگئے ہیں… پہلے تو اتنی سختی نہیں کرتے تھے۔‘‘ ایک اور خاتون ہم دردی سے بولیں۔

مُونا جو پہلے ہی بَھری بیٹھی تھی، اس قدر کریدنے کے بعد بس پھٹ سی پڑی۔’ ’قسمت کی بات ہے آپی۔ میرا تو ایسی پابندیوں کے بارے میں سوچ کر ہی دَم گُھٹنے لگتا تھا، مگر…‘‘اُس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا ، مگر مُونا کو جذباتی دیکھ کر خواتین اُسے مزید شہہ دینے لگیں۔ ’’اتنی پیاری لڑکی کو عجیب بے رنگ بندہ ملا ہے۔‘‘یہ ایک اور بھڑکانے والا تبصرہ تھا۔ ’’جی بھابھی! میرے تو ایک دن میں دو دو رشتے آتے تھے، مگر حاسدین کی بھی کمی نہیں تھی۔‘‘ اِس مرتبہ اُس نے بڑی حسرت سے کہا۔ ’’مُون باجی، ایک دن میں دو دو…‘‘ کچھ لڑکیوں نے اُس کی باتوں کے چٹخارے لیتے ہوئے پوچھا۔ ’’تو اور کیا…؟‘‘ اب تو وہ جیسے بھڑاس نکالنے پہ تُل گئی تھی۔ ’’امّاں کہتی تھیں کہ میری بیٹی کسی محل میں جائے گی اور راج کرے گی۔ 

یہ میدے ، سیندور ملی رنگت، غزالی آنکھیں… کس چیز کی کمی ہے میری بیٹی میں۔ ‘‘مونا جذبات کی رَو میں بہتی چلی جارہی تھی۔ ’’تو اب بھی کیا کم ہیں کسی سے۔ اتنی پیاری تو ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر لڑکیاں تو ہنسنے لگیں، لیکن اُس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور روہانسی ہو کر بولی ’’ مَیں بھی کتنی بدنصیب ہوں۔ کل شاکر نے مُجھے سختی سے منہدی کے فنکشن میں جانے سے منع کر دیا تھا۔ مَیں رونے لگی، تو مُجھے اور بچّوں کو آئوٹنگ پر لے گئے اور محلّے کے ایک پارلر سے منہدی بھی لگوا دی اور کہا کہ بس ہوتو گئی منہدی…‘‘ ’’ایسے نہیں کہتے مُونا بیٹا۔ تمہارا میاں تو بہت اچّھا، بہت ذمّے دار اور خیال رکھنے والا ہے۔ اُس نے تمہیں کبھی تنگی میں نہیں رکھا۔ 

تمہیں تو اللہ کا شُکر ادا کرنا چاہیے اور اب تو ویسے بھی شادی کو 22سال گزر گئے ہیں اور بچّے بھی جوان ہوگئے ہیں۔‘‘ ایک بزرگ خاتون نے اُسے بروقت ٹوکا، جب کہ ایک خاتون، دوسری سے تمسخرانہ انداز میں بولی۔ ’’حد ہوتی ہے شیخی بگھارنے کی… واقعی خدا جب حُسن دیتا ہے، تو حماقت آہی جاتی ہے۔‘‘ ایک اور معمّر خاتون کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولیں، ’’بیٹا! یہ فلمیں، ڈرامے بے حیائی اور بے وفائی کی فیکٹریاں بن کر زُلیخا کی سہیلیاں تیار کررہے ہیں۔‘‘ مُونا کھانے سے فارغ ہوئی، تو اُس کی نظر موبائل فون پر آئے شاکر کے میسیج پر پڑی۔ کچھ دیر میں وہ خود بھی وہیں پہنچ گیا۔ شاکر نے اُسے گجرے دیتے ہوئے تھوڑی دیر میں واپس چلنے کی تاکید کی اور میزبان سے کھانے میں شرکت سے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ وہ دوست کے ہاں کھانا کھا آیا ہے۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

مُونا بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور نہایت حسین تھی۔ اُس کے حُسن ہی کی وجہ سے سب اُسے شہزادی کہتے تھے اور وہ خُود بھی چشمِ تصوّر میں خود کو شہزادی ہی سمجھتی تھی۔ اُسے ڈرامے، فلمیں دیکھنے، سیر سپاٹے اور تقاریب میں ہلاّ گُلاّ کرنے کا بہت شوق تھا۔ تعلیم میں اُس کی دِل چسپی واجبی ہی سی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بہ مشکل سیکنڈ ڈویژن میں بی اے کرپائی اور کوئی خاص گھر داری اس وجہ سے نہیں سیکھی کہ تمام تر سگھڑاپے اور سلیقہ شعاری کے باوجود بڑی آپا اور باجی کے سُسرالیوں نے اُن کی کوئی قدر نہیں کی تھی،تو مُونا کی شدید آرزو تھی کہ وہ بیرونِ مُلک مقیم کسی امیر گھرانے کی بہو بنے، محل نُما گھر میں رہے،جہاں اُسے ہر قسم کی آسایش میسّر ہو۔ لیکن… جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں۔ 

گرچہ مُونا کے لیے رشتوں کی لائن لگی تھی، مگر اُس کی شہزادی بننے کی آرزو پوری نہ ہو سکی۔ شاہ زیب ناروے میں اچّھے عُہدے پر فائز اور بڑے بھائی کی فیملی کے ساتھ وہیں رہایش پذیر تھا۔ اُس کی فیملی کو مُونا پسند آگئی، مگر معاملہ تب کھٹائی میں پڑگیا، جب ماموں جان نے استخارے کے نتیجے میں اس رشتے کو غیر موزوں قرار دے دیا۔ امّاں کو اپنے بھائی کے اِلقا اور چھٹی حِس پر بہت ناز تھا اور ویسے بھی اپنی لاڈلی بیٹی کو اتنی دُور بھیجتے ہوئے اُن کے دِل میں ہول اُٹھ رہے تھے۔ اُس کے بعد بھی کئی رشتے آئے، لیکن کبھی لڑکے کی تن خواہ کم لگتی، تو کبھی کُنبہ بڑا۔ کبھی اکلوتا بیٹا ہونا خامی نظرآتی، تو کبھی کچھ لالچی لوگ منہ سے جہیز کا مطالبہ کر دیتے۔ 

مگر جب صوفیہ خالہ کی نند کے بیٹے، فاروق کارشتہ آیا، توسب پُھولے نہ سمائے۔ لڑکے کا مسقط میں کاروں کا شوروم تھا اور اس کا سارا خاندان بھی وہیں مقیم تھا۔ تب امّاں نے ابّا سے کہا ۔ ’’اب تو واقعی میری شہزادی کے نصیب کُھل جائیں گے۔ سچ میں محل میں جا بسے گی میری لاڈلی۔‘‘ لیکن پھر صوفیہ خالہ کا خواب آڑے آگیا اور وہ پیچھے ہٹ گئیں۔ امّاں بہت ہولا ہو گئی تھیں۔ ’’ نہ جانے میری چاند سی بچّی کو کس حاسد کی نظر لگ گئی ہے۔‘‘ تب ابّا نے انہیں تسلّی دی، مگر ساتھ ہی فکرمندی کے ساتھ دُعائوں، وظائف اور صلاح مشورے کا سلسلہ بھی بڑھا دیا ۔بالآخر بہت چھان پھٹک کے بعد قرعۂ فال مڈل کلاس گھرانے کے شاکر علی کے نام نکلا، جو ایک نجی کمپنی میں اکاؤنٹینٹ تھا۔ 

شریف ، مختصر سا گھرانا تھا۔ساری فیملی سادہ مزاج سی تھی۔ پھر ماموں جان اور ابّا یوں بھی بہت خوش تھے کہ بچّی رخصتی کے بعد اسی شہر میں رہے گی۔ مُونا اپنے خواب بکھرنے پر مایوس تو ہوئی، لیکن جب خالہ امّی نے کہا کہ ’’ محلاّت میں محلاّتی سازشوں سے بھی نمٹنا پڑتا ہے، اللہ نے اُن سے بچالیا‘‘ تو خاموش ہو رہی۔ البتہ پُر رونق، پُر آسایش اور گلیمر سے بھری زندگی کی خواہش آج بھی اُس کے دِل میں مچل رہی تھی۔ مُونا کے سُسرالی بڑے وضع دار لوگ تھے ۔ وہ اُس کا بہت خیال رکھتے ۔ شاکر بھی بہت ذمّے دار شوہر ثابت ہوا، مگر ساتھ ہی کفایت شعار بھی تھا۔ وہ آئوٹنگز اور سیر سپاٹے کے خلاف تو نہیں تھا، لیکن تقریبات کے نام پر مخلوط اجتماعات اور بے ہودگی و بے حیائی اُس کی برداشت سے بالکل باہر تھی۔ اس پر اکثر دونوں میں نوک جھونک بھی ہوجاتی تھی اور پھر بالآخر مُونا ہی کو اپنا من مارنا پڑتا۔ 

تاہم ، ایک خلش سی اس کے دِل میں ضرور کھٹکتی رہتی۔ بہرکیف، جیسے تیسے وقت گزرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے ایک بیٹی اور دو بیٹوں کی نعمت سے نوازا اور بچّوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہی میں 22برس گزر گئے۔ ڈھلتی عُمر کے ساتھ اب حُسن بھی ماند پڑ گیا تھا۔ ساس سُسر اللہ کو پیارے ہوچُکے تھے اور شاکر کو وراثت میں ملنے والے حصّے اور کفایت شعاری کی بدولت آج وہ اپنے ذاتی فلیٹ میں منتقل ہو چُکے تھے۔ اب مُونا یہ سوچ کر خوش رہنے لگی کہ چلو محل نہ سہی، اپنا خُوب صُورت سا فلیٹ تو مل گیا ،جب کہ امّاں ابّا یہ سوچ کر مطمئن ہو گئے کہ سُسرال میں کوئی مداخلت و محاذ آرائی نہ ہو، تو وہ بھی کسی محل سے کم نہیں ہوتا۔ اب اُسے صرف اپنے بچّوں کی تعلیم اور کیریئر کی فکر تھی۔

چند روز پہلے ہی اُن کے محلّے میں ایک نئی فیملی شفٹ ہوئی تھی۔ کُنبے میں میاں بیوی اور ایک نوجوان بیٹا شامل تھا۔ گھر کے مکین خاصے پُر اسرار لگتے تھے۔ گرچہ مُونا بھی محلّے میں کسی سے زیادہ میل جول نہیں رکھتی تھی، لیکن نئی فیملی تو بالکل ہی آدم بے زار معلوم ہوتی تھی۔ اُسے اپنے بیٹوں، عاشر اور غافر کے توسّط سے پتا چلا کہ صاحبِ خانہ کوئی رات 12بجے گھر آتے ہیں، جب کہ ان کا بیٹا بھی صرف ضروری کام ہی سے گھر سے باہر نکلتا ہے اور کسی سے علیک سلیک نہیں کرتا۔ 

پھر اُسے اپنے پڑوس میں رہنے والی آنٹی نے بتایا کہ اس پُر اسرار گھرانے سے کبھی چیخ و پکار، کبھی خاتون کے گُھٹ گُھٹ کر رونے اور کبھی باپ بیٹے میں تلخ کلامی کی آوازیں سُنائی دیتی ہیں۔ نئی فیملی کے حالات جان کر وہ سہم سی گئی اور اُسے اپنی گھرہستی کسی محل سے بھی زیادہ خُوب صُورت لگنے لگی۔ ایک روز وہ یوں ہی ماضی کے خیالوں میں گُم تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔ ’’شاید غافر ہو گا…‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے دروازے کی طرف لپکی۔ دروازہ کھولا، تو سامنے صوفیہ خالہ تھیں۔ وہ والہانہ انداز سے اُن سے لپٹ گئی اورشکایتی لہجے میں بولی کہ ’’ خالہ! آج آپ کیسے بُھولے بھٹکے میرے گھر آ گئیں۔‘‘ 

خالہ نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے خوشی سے کہا ،’’ ارے بیٹا! مَیں تمہیں اور تمہارے گھر کا رستہ کیسے بھول سکتی ہوں۔‘‘ ’’تین سال ہو گئے ہمیں اس گھر میں… چلیں، خیرکوئی بات نہیں۔‘‘ مُونا نے کہا۔ ’’مگر چندا، تُم ہی کبھی چُھٹّی کے روز ملنے آجایا کرو۔ عید، بقرعید کے علاوہ شکل ہی نہیں دکھاتی، مَیں تو اب کہیں آنے جانے کے لیے محتاج ہو گئی ہوں۔ آج تمہارے خالو کو اس طرف کسی ضروری کام سے آنا تھا، تو مَیں بھی ساتھ چلی آئی۔ واپسی پر وہ مُجھے ساتھ لے جائیں گے۔‘‘ انہوں نے پانی کا گلاس پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’ خالہ! مصروفیات ہی اتنی بڑھ گئی ہیں کہ چُھٹّی کے دِن بھی فُرصت نہیں ملتی اور پھر آپ کو توپتا ہے کہ شاکر کو کہیں آنے جانے کا زیادہ شوق بھی نہیں ۔‘‘ وہ فریج سے کھانے پینے کا سامان نکالتے ہوئے بولی۔’’ نہایت شریف اور ذمّے دار ہے تمہارا میاں… بیٹا! دولت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ اب دیکھو ناں ، لوگ پوری زندگی کرائے کے گھروں میں گزار دیتے ہیں، جب کہ تمہیں تو اللہ نے اپنا فلیٹ بھی عطا کر دیا ہے۔ یہ بھی شاکر ہی کا کمال ہے۔ اللہ اسے مزید نوازے اور تم سب سدا خوش رہو۔‘‘ آج خالہ شاکر کی کچھ زیادہ ہی تعریفیں کررہی تھیں۔

اسی اثنا مُونا نے بیٹے کو چُپکے سے قریبی بازار دوڑادیا۔ آج وہ واقعی بہت خوش تھی۔ اُس نے کباب فرائی کیے، پَھل نکال کر رکھے اور تھوڑی دیر میں چائے کی میز سجا دی۔ ’’اگر شاکر سے بھی ملاقات ہو جاتی، تو کتنا اچّھا رہتا۔ اب تم لوگ ضرور میرے یہاں آنا۔‘‘ خالہ نے چائے کی پیالی اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’جی بالکل خالہ! بچّوں کے ٹیسٹ ختم ہو جائیں، تو کسی چُھٹّی کے دن ضرور چکر لگائیں گے۔‘‘ اُس نے یقین دلاتے ہوئے کہا۔ 

پھر خالہ اچانک اُسے مخاطب کرکے بولیں کہ’’ مُونا بیٹی! تمہیں یاد ہو گا، میری بڑی نند کے بیٹے کا تمہارے لیے رشتہ آیا تھا، جو مسقط میں رہایش پذیر تھا۔‘‘ ’’جی جی خالہ…‘‘ اُس نے سَر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ پھر مَیں نے ایک بُرا خواب دیکھا اور پیچھے ہٹ گئی ۔‘‘ ’’تو خالہ ،اب یہ برسوں پُرانی بات کیوں چھیڑ رہی ہیں؟‘‘ اُس نے حیرت سے پوچھا۔’’ اس لیے بیٹا کہ اللہ نے تمہیں بچالیا۔ دراصل، وہ خواب ایک رہ نُمائی ثابت ہوا اور تمہیں شاکر جیسا شریف اور باوفا شوہر مل گیا۔ تمہارے خالو اپنے اُسی بھانجے، فاروق کے گھرہی کسی ضروری کام سے گئے ہیں۔ 

اُن کے حالات اچّھے نہیں ہیں۔ شوروم سمیت سارا کاروبار ہی کم بخت لاک ڈاؤن کی نذر ہو گیا اور سارے شئیر ہولڈرز کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔‘‘ یہ سُنتے ہی مُونا کا دماغ جیسے سناٹے میں آگیااور کانوں میں ’’سراب، سراب…‘‘ کے الفاظ گونجنے لگے۔ حواس بحال ہوئے، تو خالہ بتا رہی تھیں کہ ’’ وہ لوگ اب اسی شہر بلکہ تمہارے محلّے ہی میں منتقل ہو گئے ہیں۔ وہ دیکھو… وہ رہا اُن کا گھر…‘‘ گیلری میں کھڑے ہو کر خالہ نے اُسی پراسرار گھر کی طرف اشارہ کیا، جہاں سے اکثر لڑائی جھگڑے، رونے پیٹنے اور چیخنے چلاّنے کی آوازیں آتی تھیں۔ گھر دیکھتے ہی مُونا لرز کر رہ گئی، جیسے کسی بہت بڑے حادثے سے بال بال بچی ہو۔

پھر سنبھلتے ہوئے خالہ کے کندھے سے لگ گئی اور ایک لمبی سی آہ بَھر کر تشکّر آمیز نظروں سے آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’شُکر ہے میرے مالک… تیرا لاکھ لاکھ شُکر ہے۔ میرا گھر کسی محل سے کم نہیں۔ یہاں سُکھ ہی سُکھ، عافیت ہی عافیت ہے۔‘‘ وہ بے ساختہ بولی۔ ’’ بیٹی! قناعت اور کفایت کے ساتھ جینے والا حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ لوگ عیش و آرام کے عادی تھے اور جب تنگ دستی آئی، تو زندگی محال ہوگئی۔ 

باجی بتاتی تھیں کہ مسقط میں بھی میاں بیوی ایک دوسرے پر شک کرنے کی وجہ سے ہمیشہ بے سکون ہی رہتے تھے اور اب بھی معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ بیوی شک کرتی ہے، تو شوہر اُس پر ہاتھ اُٹھا لیتا ہے۔‘‘ وہ خالہ کی باتیں سُن رہی تھی اور دِل ہی دِل میں ربّ سے اپنے نا شُکرے پَن کی معافی بھی مانگ رہی تھی اور آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صُورت بہہ بہہ کے دامن میں جذب ہوتے جا رہے تھے۔

سنڈے میگزین سے مزید