سپریم کورٹ میں دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کے آہستہ اور اردو انگریزی ملا کر بولنے پر سر زنش کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وکیل کی آواز نہ آئے تو اسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔
اُنہوں نے سرزنش کرتے ہوئے وکیل کو ہدایت دی کہ اونچی آواز میں دلائل دیں۔
درخواست گزار کے وکیل میر افضل ملک نے کہا کہ معاہدہ ہونے کے بعد وزیرِ اعلیٰ نے زمین کی منتقلی پر بین لگا دیا۔
چیف جسٹس نے وکیل کی اردو اور انگریزی ملا کر بولنے پر بھی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین کیا ہوتا ہے؟ اس کا ترجمہ کیا ہے؟
وکیل میر افضل ملک نے کہا کہ معاہدے کی ڈیٹ سے اب تک سہراب رنگ روڈ سے متصل زمین خالی ہے۔
اس پر قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے سوال کیا کہ یہ ڈیٹ ہوتی ہے یا تاریخ؟
اُنہوں نے وکیل سے کہا کہ ایک زبان میں دلائل دیں، ایسے تو سمجھ ہی نہیں آتی، آپ 35 سال بعد عدالت آ گئے کہ معاہدے پر عمل در آمد نہیں ہوا، یہ نہیں ہو سکتا کہ دوست حکومت یا انتظامیہ عہدوں پر آ جائیں تو دعویٰ دائر کر دیں۔
جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری باقی زمین بھی کوئٹہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی لے لیکن وزیرِ اعلیٰ نے زمین کے تبادلے پر بین عائد کر رکھا ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ وزیرِ اعلیٰ کون ہوتے ہیں زمین منتقلی پر پابندی عائد کرنے والے؟ کوئٹہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی قانونی ادارہ ہے جس میں وزیرِ اعلیٰ کا اختیار نہیں بنتا، آپ حاتم طائی مت بنیں، ایسے تو بہت سے کھاتے کھل جائیں گے۔
وکیل نے استدعا کی کہ عدالت کے سامنے حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع دیا جائے۔
چیف جسٹس نے وکیل کی استدعا پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی بابت سب کو پیغام ہے کہ اب کوئی التواء یا مہلت نہیں ملے گی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلہ سنانے کے بعد ان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے درخواست خارج کر دی۔
واضح رہے کہ کوئٹہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے سہراب رنگ روڈ کے لیے درخواست گزاروں سے زمین حاصل کی تھی۔
درخواست گزار نے رنگ روڈ سے بچ جانے والی زمین کے استعمال نہ ہونے پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔