• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں ایک مدت سے مختلف لوگوں پر بدعنوانی اور بے قاعدگیوں کے الزامات عائد ہوتے اور اس حوالے سے احتساب کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ کئی بار سیاستدانوں اور بیورو کریسی کا احتساب کرنے کیلئے قوانین بھی بنائے گئے اور کئی ادوار میں خصوصاً ایوب خاں اور ذوالفقار علی بھٹو دور میں افسر شاہی کی تطہیر بھی کی گئی لیکن بدعنوانیوں پر موثر طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ جنرل ضیاء کی آمریت اور اس کے بعد آنے والی حکومتوں کے دور میں بھی حکمرانوں اور افسر شاہی پر لوٹ مار کے الزامات لگائے جاتے رہے۔ ایک مقتدر سیاستدان نے ضیاء دور میں تجویز دی تھی کہ انتخابات سے پہلے احتساب کیا جائے لیکن اس پر توجہ نہ دی گئی۔ غلام اسحاق دور میں اس وقت کی نواز حکومت نے احتساب کرنے کیلئے ایک بااختیار احتساب بیورو بھی قائم کیا لیکن اس کے بھی مثبت نتائج برآمد نہ سکے اور حزب اختلاف کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایک جماعت اور اس کی قیادت کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اب جب پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے لاکھوں افراد جن میں سیاستدان، حکمران اور تجارتی افراد شامل ہیں، ان پر آف شور کمپنیاں بنا کر بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے اور منی لانڈرنگ کے الزامات عائد کئے گئے اس میں وزیر اعظم کے صاحبزادوں کی آف شور کمپنیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے احتساب سے جوڈیشل انکوائری کا آغاز کیا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن کی 12رکنی کمیٹی مشترکہ ٹی او آرز بنانے کیلئے قائم کی گئی لیکن مشترکہ ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہو سکا اور اب تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے نہ صرف الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کر دیئے ہیں پیپلز پارٹی نے سب کا یکساں احتساب کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور چیئرمین بلاول بھٹو نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ پاناما انکوائری ختم ہوئی تو سڑکوں پر احتجاج ہو گا۔ بلاشبہ احتساب یکساں ہونا چاہئے لیکن تمام معاملات منتخب ایوان میں ہی طے ہوں تو بہتر ہے۔
تازہ ترین