• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے زندگی میں جتنے بھی کام کئے ہیں، بڑی خبرداری، رازداری اور احتیاط سے کئے ہیں۔دیواروں کے کان اور آنکھیں بند کر دیتا ہوں۔ کسی کو کانوں کان بھنک پڑنے نہیں دیتا کہ میں کیا کرتا رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں لیکن پچھلے ہفتے کراچی کو کبھی روشنی اور کبھی اندھیرے میں رکھنے والے ادارے کے ای ایس سی یعنی کراچی الیکڑک سپلائی کارپوریشن نے رنگے ہاتھوں پکڑنے کے بعد مجھے چاروں شانے چت کر دیا۔ نہ جانے ان کو کیسے پتہ چل گیا کہ میں کنڈا لگا کر بجلی چرانے کا ماہر ہوں۔ بجلی چرانے اور چرا کر بیچنے کا کاروبار کرتا ہوں۔ جس طرح ٹیلیویژن کیبل آپریٹر آپ کے گھر تک ٹیلیویژن کیبل لے آتے ہیں اور آپ کے ٹی وی سیٹ میں نصب کردیتے ہیں اور آپ سے فیس وصول کرتے ہیں، عین اسی طرح میں بھی بجلی کے تاروں میں کنڈا لگا کر لوگوں کوگھر تک بجلی پہنچاتا ہوں اور ان سے اپنی فیس وصول کرتا ہوں۔ یہ کام میں آج سے نہیں بلکہ پچھلے پینسٹھ برسوں سے کر رہا تھا۔ میں نے کمال حکمت عملی سے کسی کو پتہ چلنے نہیں دیا تھا۔اگرکسی کو پتہ چل جاتا تھا تو میں اس کا منہ بند کرنا جانتا تھا۔ مجھے گدھ کو مردار کھلانے کا ہنر آتا ہے۔کنڈے کے کاروبار میں میرے معتبر ہونے کا اندازہ آپ میرے گاہکوں یا موکلوں کی فہرست سے لگا سکتے ہیں۔کراچی کی کئی اعلیٰ ہائوسنگ سوسائٹیوں کی چیدہ چیدہ کوٹھیوں میں کنڈا لگاکر میں نے بجلی پہنچائی ہے۔ شروع شروع میں کوٹھیوں والے جب مجھ سے کنڈے کے ذریعے بجلی لیتے تھے تب مجھے حیرت ہوتی تھی۔بجلی پہنچانے کے بعد جب فیس لینے کی غرض سے ان کے ہاں میرا آناجانا ہوا تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ پراپرٹی ٹیکس نہیں دیتے تھے،انکم ٹیکس نہیں دیتے تھے، سیلز ٹیکس نہیں دیتے تھے۔ ٹیلیفون،گیس اور پانی کا بل نہیں دیتے تھے۔ وہ یہ کام صفائی سے اس لئے کرسکتے تھے کیوں کہ مختلف محکموں میں براجمان چھوٹے بڑے گدھوں کو وہ میری طرح مردار کھلانے کا ہنر جانتے تھے۔ میرے گاہکوں کی فہرست میں بندر روڈ پر بنی ہوئے چار سنیمائیں بھی شامل تھیں۔ وہ تب تک کنڈے سے بجلی حاصل کرکے سنیما چلاتے رہے۔ جب تک ہندوستانی فلمیں امپورٹ ہوتی رہیں اور سنیما چلتے رہے۔ 1962ء میں ہندوستانی فلموں پر بندش کے بعد سنیما گھر بند ہونے لگے اور سنیماؤں کی جگہ شاپنگ مال اور دس پندرہ منزلہ لگژری اپارٹمنٹ والی عمارتیں بننے لگیں لیکن خدا کے فضل سے سنیما کلچر کے انہدام وتباہی کا میرے کاروبار پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ سنیماؤں کی جگہ بننے والی چار بلڈنگوں میں میرے کنڈوں کے ذریعے بجلی پہنچتی ہے۔ اسی طرح کئی دکانیں اور دو شاپنگ مال اور آٹھ شادی ہال کنڈے سے ملنے والی بجلی سے جگ مگ کرتے رہتے ہیں اور مجھے بھاری فیس اور دعائیں دیتے ہیں لیکن کراچی الیکڑاک سپلائی کارپویشن کو میری ہنر مندی کے بارے میں نہ جانے کیسے پتہ چلا؟ یہ ممکن نہیں کہ گھر کے بھیدی نے مجھے دھوکہ دیا ہو۔ میرا کوئی گھر نہیں ہے۔ جن کے گھر نہیں ہوتے وہ گھر کے بھیدی کی بیوفائی سے نہیں ڈرتے اور جن لوگوں کی قمیضوں کی آستینیں نہیں ہوتیں وہ آستین کے سانپ سے نہیں ڈرتے۔ میرے کوٹ اور قمیضوں کی آستینیں نہیں ہوتیں۔میں سلیولیسSleve lessقمیض اور کوٹ پہنتا ہوں۔پھر کے ای ایس سی والوں کو،جنہوں نے سوسالہ جشن مناتے ہوئے خود کو الیکڑک یعنی کراچی الیکڑک کانیا نام دیا ہے، کیسے میری بے مثال ہنرمندی کا پتہ چلا؟ اس سوال نے مجھے پچھلے آٹھ دس دن سے پریشان کردیا ہے۔ اب تو مجھے ہر طرح کے خوف نے گھیر لیا ہے۔اگر میرے دیگر کاموں کے بارے میں پبلک کو پتہ چل گیا تو وہ مجھے کہیں ملک کا سربراہ نہ بنادیں ! میں ہرطرح کی چھکڑا گاڑیاں چلاسکتا ہوں لیکن ملک نہیں چلا سکتا۔ ملک چلانے کیلئے ہیراپھیری، فنڈ ہضم، املاک ہضم، زمینیں ہضم اور کک بیک لینے میں مہارت کافی نہیں ہے۔ اگر یہ سب کافی ہوتا تومیں کب کا آپ کا ملک چلا رہا ہوتا۔اس وقت میرے سربراہ مملکت بننے کے آثارروشن ہوگئے تھے جب میری بیوی گولی کھانے کے بعد مرگئی تھی۔ میری بیوی بندوق کی گولی سے نہیں مری تھی، اس نے غلطی سے فنائل کی گولی کھالی تھی، مگر میں آپ کا سربراہ مملکت نہ بن سکا۔ ملک کے کسی بھی سربراہ سے آپ میرا موازنہ کرکے دیکھ لیں۔ آپ مجھے کسی سےکم نہیں پائیں گے، میں پورے کا پورا پاکستان ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں مگر کیا کروں کہ مجھے ہوشیاری نہیں آتی۔ میں بدھو کابدھو رہ گیا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آخرکار کراچی الیکڑک والوں نے مجھے رنگے ہاتھوں پکڑلیا۔ پکڑے جانے کے فوراً بعد میں نے ملک کے نامور پیر سائیوں سے رابطہ کیا اور ان سے گزارش کی کہ وہ میرے حق میں دعا کریں کہ میں حفظ و امان میں رہوں اور بیرون ملک میری املاک اثاثے اور کھچاکھچ بھرے ہوئے بنک اکاؤنٹوں پر پردہ پڑا رہے۔ انہوں نے کہا، توفکر مت کر۔ تیرے بدی خواہوں کی آنکھ پر ہم اپنی دعاؤں سے پردہ ڈال دیں گے مگر تو بھی تھوڑی سی ہوشیاری توسیکھ۔ تیرے پاس ہیراپھیری کرنے کا ہر وہ ہنر ہے جس کے بل بوتے پر تو اقوام متحدہ کے ایوانوں میں پہنچ کردنیا بھر کے سربراہان مملکت سے خطاب کرسکتا ہے اور خطاب کے دوران مسکرامسکرا کر انہیں اپنے دانت دکھا سکتا ہے۔ دعائیں ہم مانگیں گے مگر تو بھی کچھ ہوشیاری دکھا۔ مکیش نے ایک مرتبہ گانا گاتے ہوئے میرے بارے میں کہا تھا: سب کچھ سیکھا ہم نے، نہ سیکھی ہوشیاری۔ سچ ہے دنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی۔
پچھلے ہفتے کراچی الیکڑک نے سوسالہ جشن کے موقع پر کراچی کے نامور، معزز اور زندگی میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے بیس افراد کوزندگی بھر مفت بجلی کے انعام سے نوازا تھا۔ اس فہرست میں جہاں حنیف محمد،حکیم سعید، مشتاق احمد یوسفی اور جہانگیر خان جیسی ہستیوں کے نام تھے، ان میں میرا نام بھی شامل تھا۔ اعلان سننے کے بعد میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں چاہے کسی رنگ کی قمیض پہنوں، میری قمیض کا کالر سفید ہوتا ہے۔سفید کالر((WhiteCollarوالوں کے جرائم پکڑے نہیں جاتے پھرچاہےآپ ان کودس بیس برس جیل میں رکھ کران سے پوچھ گچھ کرتے رہیں وہ کبھی بھی گرفت میں نہیں آتے۔ میں شطرنج کا کہنہ مشق کھلاڑی ہوں۔ میں نے کراچی الیکڑک کی چال سمجھ لی۔ وہ مجھ پر معزز ہونے کا بوجھ ڈال کرمیرے چھیاسٹھ برس پرانے کنڈا کاروبار کا بھٹہ بٹھانا چاہتے تھے۔ عام پاکستانیوں کی طرح کراچی الیکڑک والے بھی سادہ لوح ہیں۔عام آدمی پاکستان کو ہڑپ کرنے کی صلاحیت رکھنے والےکواپنے ملک کاسربراہ اس لئے بناتے ہیں تاکہ عہدے کی عظمت تلے دب کر ہیراپھیری سے باز آجائے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ اپنے عہدے کے آخری ایام تک وہ ملک کھپانے کے بعد رخصت ہوجاتا ہے۔ جس روز کراچی الیکڑک نے مجھے مفت بجلی دینے کا اعلان کیاتھا، اسی روز سے میرے گھر کے باہر درخواست گزاروں کی قطاریں لگ گئی ہیں۔ میں اپنے گھر سے ان کے گھروں تک مفت بجلی براہ راست پہنچاؤں گا اور ان سے کسی قسم کی فیس نہیں لوں گا۔ ان سے ان کی دعائیں لوں گا۔ مجھے مفت بجلی کھپے۔
تازہ ترین