• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بے شک،منزل کتنی ہی خُوب صُورت ، دل فریب کیوں نہ ہو، مگر نفرت کے راستے پر کبھی مت چلنا کہ اس پرراہ زن شامیں لُوٹ لیتے ہیں۔یقین مانو، نفرت سے بڑا کوئی زہر نہیں ،یہ دِلوں میں آلودگی کی سیاہی بھر دیتی ہے۔ اِس کی زرد ٹہنی پر ہمیشہ بدگمانی کے خار ہی لگتے ہیں۔ نفرت وہ آگ ہے، جو دوسروں کو جلانے کے لیے اپنے اندر لگائی جاتی ہے، لیکن اکثر اوقات دوسروں کو جلانے سے پہلے خود ہی کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔‘‘ 

انھوں نے حقّے کا ایک کَش لیا اور پھر بولے ’’ہمیشہ محبّت کی چِلّم کی آگ سے دوسروں کی زندگی کے چولھے جلانا، محبّت کے لیے کوئی وجہ تلاش نہ کرنا، بلا وجہ بھی محبّت کرنا، خوشیاں بانٹنا اور دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں ہی بکھیرتے رہنا۔‘‘دادا چند لمحوں کے لیے رُکے اورپھر بولے، ’’میراابّا کہتا تھا ’’ایک وقت ایسا بھی آئے گا، جب زہروں کے نرخ مقرّر ہوجائیں گےاور وہ بدترین زمانہ ہوگا، اُس دَور میں زہریلے سانپ ہی معتبر ٹھہریں گے اور پھر زندگی کا کیلنڈر دسمبر کی آخری تاریخوں کی طرح بُجھ سا جائے گا۔‘‘اور دیکھو آج وہی دَور آچکا ہے۔ ‘‘ دادا نے بات مکمل کرکےایک لمبی آہ بَھری ۔

سخت جاڑے کا موسم تھااور جاڑوں کی خاصیت ہے کہ یہ خود تو سوگوار ہوتے ہیں، مگر دوسروں کو بھی اُداس کر دیتے ہیں۔ اس موسم میں بچھڑے ہوئے بہت یاد آتے ہیں، رویوں کی کسک نیلی پڑنا شروع ہو جاتی ہے، پرانے زخم نئے زخموں کے ہم سفر بننے لگتے ہیں۔رات نے شام کی ردا چھین لی تھی۔ ہلکی ہلکی اوس پڑنا شروع ہو گئی تھی۔ ہماری حویلی گائوں کی بہت بڑی اور سب سے پرانی حویلی تھی، جہاں دادا اپنے سارے خاندان کے ساتھ موجود تھے۔ دادا ہمارے قبیلے کے سردار بھی تھے، اس لیے سب انتہائی ادب و احترام سے اُن کی باتیں سُنتے تھے۔

ہر رات ہم سب گھر والے اور گاؤں کے لوگ ان کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے اور وہ ہمیں پرانے قصّے کہانیاں سناتے۔’’میرے بچّو! میری باتیں غور سے سُناکروکہ یہ میری زندگی کا حاصل ہیں۔ بہت جینا چاہتے ہو، تو ہر طرح کے زہر سے بچو، یہاں تک کہ تریاق کے زہر سے بھی۔‘‘ سب نے حیرانی سے دادا کی طرف دیکھا، سب کے منہ سے سرگوشی سی نکلی ’’تریاق کا زہر…؟؟ زہر کا تریاق تو سُنا تھا، لیکن یہ تریاق کا زہر آج پہلی بار سُن رہے ہیں۔‘‘دادا نے سب کی حیرانی بھانپ لی تھی، مگر پھر بھی بات جاری رکھی۔’’جب آپ اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتےہیں، دوسروں کو فتح کرنے لگتے اور خود پسند ہو جاتے ہیں، تو گویااپنی ذات کے پنجرے میں بند ہو جاتے ہیں۔ شکاریوں کو قفس بڑا پسند ہوتا ہے، پنجرہ کوئی بھی ہو، مالک کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور یہ صرف باہر ہی سے کُھل سکتا ہے۔

یاد رکھو، جو اپنی ذات کے قفس میں بند ہو جاتا ہے، وہ رفتہ رفتہ پتھر کا ہونے لگتا ہے اور ہاں، پتّھر کا ہونے کے لیے کسی کی آواز پہ مُڑ کے دیکھنا ضروری نہیں ہوتا، بس بے حِس ہونا ضروری ہوتا ہے۔دادا چند ثانیے ٹھہر گئے۔ حقّے کا ایک لمبا کش لیا۔سب ساکت بیٹھے تھے۔

دوسروں کو متاثر کرنے کی خواہش کا خاتمہ ہی آپ کی آزادی کا آغاز ہے۔(دادا نے دوبارہ سلسلۂ گفتگو کا آغاز کیا)میرے بچّو! کبھی کبھی آئینے بھی اپنا عکس بیچ دیتے ہیں۔اس لیے اپنی بینائی کو سنبھال کر رکھنا اور دوسروں کی زندگی کی اُترن کبھی مت پہننا، کیوں کہ اجتماعی قبر میں بھی اپنی قبر کا عذاب سہنا پڑے گا۔ خواہشات کی ٹھیس سے کبھی مت ٹوٹنا، کیوں کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں بھوک کا سالن ہی ٹھہر سکتا ہے۔ دستک کی موت میرے دَور کا نوحہ ہے۔مادہ پرستی کے اس بے حِس دَور میں ہم سب وہ دَر بن کر رہ گئے ہیں، جسے دستکوں کی پیاس ہے اور چوکھٹ کو آخری دستک سدا یاد رہتی ہے۔ زندہ رہنے کے دو طریقے ہیں، ایک اُمید اور دوسرا جنون۔ 

ہمیشہ اُس لاٹھی کی طرح بنو، جسے ضعیف ہاتھوں کے لمس کی آرزو ہوتی ہے۔ دستر خوان کو آباد رکھنا، دستر خواں کی خُوش بُو ہی مکانوں کو گھر بناتی ہے، جہاں کھانا بازار سے آتا ہے، وہاں گھروں کی وفات ہو چُکی ہوتی ہے۔یاد رکھو، انسان میں جتنا تکبّر داخل ہوتا جاتا ہے، اُس سے عقل اُتنی ہی نکلتی جاتی ہے۔ آپ کی کام یابی سے آپ کا سر فخر سے جُھک جانا چاہیے، کیوں کہ جس کا سرفخر سے جُھکتا ہے، وہ درویش اور صوفی کہلاتا ہے۔آپ کے کردار سے لوگوں کو مہک آنی چاہیے اور خُوش بُو کا لہجہ ہمیشہ گلاب ہوتا ہے،جو تمھاری زندگی کا محل تعمیر کریں ،پرانے شاہوں کی طرح اُن کے ہاتھ مت کٹوانا کہ جب محل گرنے لگتے ہیں ،تو وہی ہاتھ اُس کا سہارا بنتے، اُس کی تعمیر کرتے ہیں۔ اپنے رب سے دُعا کیا کرو کہ اے رب العزت !ہم ڈوبے ہوئے ہیں اور ڈوبا ہوا خود کو نہیں نکال سکتا، تُو ہمیں نکال لے۔‘‘ دادا کا انداز بہت پیار بَھرا تھا۔

’’دادا! مجھے اپنے دیس کے مستقبل کی فکر ہے، اس کا کیا بنے گا، حالات بہتر نہیں لگ رہے۔‘‘ تایا کے بیٹے نے سوال کیا، تودادا مسکرائے اور حقّے کا گہراکش لیتے ہوئے بولے،’’اس کو آباد کرنے ولا ایک مخلص انسان تھااور اخلاص کے سودے میں خسارہ نہیں ہوتا، چاہے سودا خالق کے ساتھ ہو یا اُس کی مخلوق کے ساتھ۔ اپنی غلطیوں سے نہ سیکھنے والوں کے لیے ہر سفر دائرے کا سفر ہے، جب دَر و دیوار میں آنگن اور دوستوں میں دُشمن گم ہو جائیں،تو خوف کی بات تو ہے، مگر تسلّی رکھو، ہمارے وطن کو کچھ نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ بریدہ ہاتھوں کی دُعا ہے اور بُریدہ ہاتھوں کی دُعا کُن کی وادیوں میں رہتی ہے۔ جب آزادی کا اعلان ہوا، تو میری ماں مجھے اُٹھائے ایک قافلے میں اپنے مُلک کی طرف گام زن تھی کہ اتنے میں قافلے پر سکھوں نے حملہ کردیا اور مجھے چھیننے کی کوشش کی۔ ماں نے مجھے بچانا چاہا، توبلوائیوں نے اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے۔ اُس وقت میری ماں نے اپنے دونوں کٹے بازو جوڑ کر دُعا کی کہ ’’اے میرے ربّ! میرے مُلک اور میرے بیٹے کی حفاظت کرنا اور پھر اپنی عزت بچانے کی خاطر دریا میں چھلانگ لگا دی۔‘‘ ’’تو بیٹا! اس دیس کی بنیادوں میں شہدا ءکا لہو ہے۔‘‘ دادا کی آنکھیں نم تھیں۔

’’ابّا! ہم نے زہر کے تریاق کا تو سُنا تھا، مگر یہ تریاق کا زہر کیا ہے؟‘‘ آخر کار پھپھو نے پوچھ ہی لیا۔’’میری بیٹی! دنیا میں ملکیت نہیں ہوتی، صرف لِیز ہوتی ہے۔ ہمیں جو عطا کیا جاتا ہے، وہ کسی بھی لمحے واپس لیا جا سکتا ہے۔ لیز ٹرانسفر نہیں ہو سکتی، صرف آپ کے اعمال اور کفن آپ کی ملکیت ہیں، جو کسی دوسرے کو منتقل نہیں کی جا سکتی اور جسے تم لوگ ملکیت سمجھتے ہو، یہ تو غلامی ہے۔

لیز کو ملکیت سمجھنا ہی تریاق کا زہر ہے۔‘‘ دادا کا فلسفہ بہت گہرا تھا۔ ’’جو تریاق کا زہر پیتے ہیں، اُن کو کیا کیا روگ لگتے ہیں، انہیں کیا سزا ملتی ہے؟‘‘ پھپھو نے بڑی معصومیت سے پوچھا، تو دادا نے زور دار قہقہہ لگایا اور یک دَم ہی اُن کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو تیرنے لگے۔ کچھ دیر چُپ رہنے کے بعد آنسو پونچھتے ہوئے بولے ’’زہر کھانے والے کو موت مار دیتی ہے اور تریاق کا زہر پینے والے کو زندگی۔اور جانتی ہو ،اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟‘‘ دادا نے پوچھا، تو سب نے یک زبان ہو کر پوچھا ’’کیا…؟‘‘ ’’اپنے ہونے میں نہ ہونے کا دُکھ۔‘‘ دادا کی آوازبے حد مدھم تھی اور پھر نہ جانے کیوں وہ قدیم حویلی اور اُس کے سب مکین بلک بلک کر رونے لگے۔

سنڈے میگزین سے مزید