• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناہید خان

گرمی کے مارے دَم نکل رہا تھا۔ مَیں نے اپنے خستہ حال کی پیڈ والے موبائل فون پر وقت دیکھا، تو بجلی آنے میں ابھی پورا ایک گھنٹا باقی تھا۔ شدید گرمی اور حبس میں مزید ایک گھنٹا بجلی کے بغیر گزارنے کا سوچ کر ہی مُجھے شدید کوفت ہونے لگی۔ بائیں جانب گردن گھمائی، تو فرحانہ دو روز سے شدید بخار میں مبتلا پانچ سالہ کاشف کو دستی پنکھا جھلتی نظر آئی۔ ’’ بخار کم نہیں ہوا؟‘‘ مَیں نے بخار کی حدّت سے سُرخ ہوتے کاشف کے چہرے کو چُھوتے ہوئے پوچھا۔ ’’دوا پلائوں، تو کچھ کم ہوجاتا ہے۔‘‘ فرحانہ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ ’’یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘ مَیں نے فوراً اُس کے بے تاثر لہجے کا سبب پوچھا۔ ’’کچھ نہیں۔‘‘ ’’بتادو ناں یار… پہلے کیا کم پریشانیاں ہیں۔‘‘ مَیں نے اصرار کیا، تواُس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور روہانسے لہجے میں کہنے لگی ’’خالد! آخر ایسا کب تک چلے گا۔ 

اس دڑبے نُما گھر سے تو ہوا کا گزر بھی نہیں ہوتا اور پھر اوپر سے اِس لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی مسلّط ہے۔ ہمارا بچّہ کئی روز سے بیمار ہے۔ ہم اسے کسی اچّھے ڈاکٹر کو نہیں دکھا سکتے ،بس سرکاری ڈسپینسری سے دوا لینے پر مجبور ہیں۔ صبح تم ناشتا کیے بغیر ہی دفتر چلے جاتے ہو، کیوں کہ گیس نہیں ہوتی۔ بالکل جانوروں سی زندگی گزار رہے ہیں ہم…‘‘’’مَیں خود اس وقت، بے وقت کی لوڈ شیڈنگ اور تنگ و تاریک گھر سے تنگ آ چُکا ہوں، لیکن بڑے اور ہوادار گھر کا کرایہ کہاں سے لائوں ۔ منہگائی ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ میری تن خواہ اور اوور ٹائم سے تو بہ مشکل مکان کا کرایہ اور یوٹیلٹی بِلز ہی ادا ہو پاتے ہیں۔‘‘ مَیں نے بے بسی سے جواب دیا۔

’’بابا! آپ نیا پنکھا لے آئے؟ بہت گرمی ہے یہاں۔‘‘ کاشف نے جاگتے ہی مُجھ سے سوال کیا۔’’ارے میرا شہزادہ اُٹھ گیا؟‘‘ مَیں نے اُسے لاڈ سے گود میں اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’بابا! اتنی گرمی میں نیند کہاں آتی ہے۔ چھت والا پنکھا خراب ہے۔ اس کی ہوا کم اور شور زیادہ ہے۔ آپ جلدی سے نیا پنکھا لے آئیں ناں۔‘‘دستی پنکھا مسلسل جھلنے کے باوجود بھی کاشف کی پُشت پسینے سے بھیگی ہوئی تھی۔ بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر میرے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی اور اپنی بے چارگی پر رونا بھی آیا، لیکن پھر اپنی ہمّت مجتمع کرتے ہوئے اُسے بہلانے کے لیے کہا ’’ بیٹا! تھوڑی دیر بعد بجلی آ جائے گی اور پھر تمہیں گرمی بھی نہیں لگے گی۔‘‘ یہ سُن کر کاشف نے دوبارہ آنکھیں موند لیں اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔

’’سُنو، آٹا اور چینی ختم ہونے والے ہیں۔ واپسی پر دونوں لازماً لیتے آنا۔‘‘ فرحانہ نے صبح مُجھے آفس روانہ کرتے ہوئے آہستگی سے کہا اور مَیں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اثبات میں سَر ہلا دیا۔ میرے پاس گھر کا سودا سلف خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے اور تن خواہ ملنے میں ابھی چار دن باقی تھے، جب کہ کہیں اور سے بھی پیسے ملنے کا کوئی آسرا نہیں تھا۔ بابا! نیا پنکھا بھی لے کر آنا۔‘‘ کاشف کی آواز سُن کر مَیں نے درد بھری نگاہوں سے اُسے دیکھا۔ یہ اُس کے کھلونوں کی فرمایش کرنے کے دن تھے، مگر ضرورت اور تکلیف شوق پر حاوی آ گئی تھی۔’’ کیوں نہیں بیٹا! بس تن خواہ مل جائے، تو پھر آپ کے لیے پنکھا بھی لے آئوں گا۔‘‘ میں نے کاشف کو گدگدی کرتے ہوئے کہا۔

……٭٭٭٭٭ ……

’’بچّے کو ٹھنڈک میں رکھیں جناب۔ گرمی و تپش سے بخار بڑھ رہا ہے اور اِس سے مرض بگڑ سکتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کاشف کے معاینے کے بعد مُجھے سختی سے ہدایات دیتے ہوئے کہا۔ ’’جی بہتر ڈاکٹر صاحب۔‘‘ ڈاکٹر کی بات سُن کر یک لخت میری نگاہوں کے سامنے اپنے ڈربے نما گھر اور لوڈ شیڈنگ کے باعث اکثر ساکت رہنے والے پنکھے کا منظر گھومنے لگا۔ مَیں ان ہی خیالات میں ڈُوبا کلینک سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ سورج آگ برسا رہا تھا۔ ایک رِکشا روک کر ڈرائیور کو اپنی منزل بتائی، تو وہ 500روپے سے کم پر جانے پہ آمادہ نہ تھا، حالاں کہ گھر کلینک سے زیادہ دُور نہیں تھا۔ البتہ مَیں نے بیٹے کی حالت کے پیشِ نظراُس سے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ 

ہم گھر میں داخل ہوئے، تو بجلی غائب تھی۔’’کیا مصیبت ہے… یہ لوگ سکون کا سانس ہی نہیں لینے دیتے… گئی اب ڈھائی گھنٹے کے لیے۔‘‘ فرحانہ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ ’’بابا! آپ نے تو کہا تھا کہ پنکھا لائیں گے آج۔‘‘ کاشف نے غنودگی کے عالم میں کہا۔ ’’ہاں بیٹا! آج تن خواہ ملے گی، تو لے آئوں گا۔‘‘ میری بات سُن کر فرحانہ نے خوف زدہ لہجے میں کہا،’’ خالد! تم آج دفتر مت جاؤ۔ کسی بھی وقت تیز بارش ہو سکتی ہے اور تمہیں تو معلوم ہے کہ جب بھی بارش ہوتی ہے، تو نالے کا پانی ہمارے گھر داخل ہو جاتا ہے۔ اگر تمہارے جانے کے بعد بارش شروع ہو گئی، تو مَیں بیمار بیٹے کے ساتھ کہاں ماری ماری پھرتی رہوں گی۔‘‘ ’’تم فکر مت کرو۔ حکومت نے نالوں کی صفائی کا اعلان کیا ہے۔ اُمید ہے کہ ان بارشوں میں ہمارا گھر محفوظ رہے گا اور پھر ویسے بھی مَیں آج جلدی واپس آ جاؤں گا۔ ‘‘ مَیں نے بھی اُسے تسلّی دی کہ میرے پاس اس کے سوا تھا ہی کیا۔

……٭٭٭٭٭……

موسم کے تیور ٹھیک نہیں لگ رہے۔ مُجھے جلدی گھر پہنچنا ہو گا۔‘‘ مَیں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کراچی کی ٹریفک اور جلدی گھر پہنچنا… ناممکن سی بات ہے۔‘‘ ظفر نے میری بات سُن کر ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ’’مُجھے بھی یہی پریشانی کھائے جا رہی ہے۔ میرا گھر نشیب میں ہے اور اگر تھوڑی دیر بھی تیز بارش ہوگئی، تو…‘‘ اس سے آگے کے بارے میں سوچ کر ہی مَیں لرز گیا۔ ’’ایسا کرو، تم میری یہ بائیک خرید لو۔ مُجھے اقساط میں ادائی کرتے رہنا۔‘‘ ’’کیا…؟‘‘ ظفر کی اس غیر متوقّع پیش کش پر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ’’ہاں بھئی! تم لے لو میری بائیک۔ 

ویسے بھی مُجھے اسے فروخت کر کے دوسری بائیک لینی ہے۔‘‘ ’’مگر مَیں فوری طور پر تمہیں قسط کی رقم ادا نہیں کر سکتا۔ تمہیں چند ماہ انتظار کرنا ہو گا۔‘‘ مَیں نے گھبرا کر کہا۔’’ ارے یار! کوئی مسئلہ نہیں۔ تم اپنی سہولت کے مطابق رقم دیتے رہنا۔‘‘ ظفر کی اس فراخ دلی پر میرا دل بلیّوں اُچھل رہا تھا اور مَیں سوچ رہا تھا کہ جب کاشف بائیک دیکھے گا، تو کتنا خوش ہوگا۔ مَیں اُسے آج ہی کسی اچّھے ڈاکٹر کے پاس لے جائوں گا۔ فرحانہ کو سمندر بے حد پسند ہے۔ کل اتوار ہے، تو مَیں انہیں بائیک پر ساحل کی سَیر کروائوں گا اور یوں کاشف کی طبیعت بھی کچھ بہل جائے گی۔

مَیں نے گھر جاتے ہوئے راستے سے فرحانہ کے لیے گجرے خریدے اور سرشاری کے عالم میں اگلے روز کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے جیسے ہی اپنی کالونی میں داخل ہوا، تو دو مسلّح موٹر سائیکل سواروں نے مُجھے روک لیا۔ ’’جلدی سے مال نکال اوئے…‘‘ ایک ڈاکو نے پستول تان کر سخت لہجے میں کہا۔ ’’میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ مَیں نے گھگھیاتے ہوئے کہا۔ ’’استاد! صرف تن خواہ کی رقم نکلی ہے اس کے پاس سے…‘‘ دوسرے نے میری جیب کا صفایا کرتے ہوئے کہا۔ ’’چل گاڑی سے اُتر جلدی۔‘‘ پہلے ڈکیت نے یہ کہتے ہوئے بائیک سے چابی نکال لی۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ ’’بھائی! یہ میری گاڑی نہیں ہے…‘‘ 

مَیں نے اُن کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ ’’سچ کہا تُو نے… اب یہ ہماری ہے۔‘‘ پہلے ڈاکو نے یہ کہہ کر ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ ’’دیکھو! بارش سَر پر ہے۔ میرا بیٹا بیمار ہے اور مُجھے اُسے اسپتال لے کر جانا ہے۔‘‘ مَیں نے نہایت بے بسی کے عالم میں اُن کی منّت سماجت کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ایسے نہیں مانے گا۔‘‘ دوسرا ڈکیت مُجھے گریبان سے پکڑ کر زبردستی موٹر سائیکل سے اُتارنے لگا۔ ’’تمہیں اللہ کا واسطہ ہے۔ بائیک نہ چھینو۔ مَیں نے ابھی اس کی قسطیں…‘‘ ابھی میرا جملہ مکمل ہی نہیں ہوا تھا کہ ایک نے پستول کا دستہ پوری قوّت سے میری کنپٹی پر دے مارا۔ شدید ضرب لگتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور مَیں سڑک پر گر گیا۔ بارش کی موٹی موٹی بوندیں، کنپٹی سے بہتے خون کے ساتھ مل کر میرے چہرے کو تر کر رہی تھیں۔ بے ہوش ہونے قبل بھی میری نگاہوں کے سامنے بخار سے تڑپتا کاشف ، فرحانہ کا مغموم چہرہ اور پانی میں ڈُوبا اپنا گھر گھوم رہا تھا۔

پورے چوبیس گھنٹے بعد ہوش آیا، تو مَیں پوری قوّت سے چلاّیا، ’’میرا بیٹا، میری بیوی، میرا گھر…‘‘ ’’آرام سے خالد، تم زخمی ہو۔‘‘ ظفر نے مُجھے سنبھالتے ہوئے کہا۔ ’’مُجھے فوراً گھر لے چلو۔ کاشف کو اسپتال لے کر جانا ہے اور اگر مَیں گھر نہ پہنچا، تو میرا گھر ڈُوب جائے گا… یہ تم مُجھے کہاں لے کر جا رہے ہو۔ یہ میرے گھر کا رستہ تو نہیں ہے۔‘‘ مَیں نے بے تابی سے کہا۔ ’’ہم کاشف کے پاس ہی جارہے ہیں۔ تم تسلّی رکھو۔‘‘ ظفر نے مُجھے نرمی سے سمجھایا۔ ’’لیکن تم مُجھے یہاں کیوں لائے ہو۔ مُجھے میرے گھر لے چلو۔‘‘ مَیں سرد خانے کی عمارت دیکھ کرچیخا۔ 

یہ سُن کر ظفر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور گلوگیر لہجے میں بولا، ’’کاشف یہیں ہے۔‘‘ ’’یہ تم کیا بکواس کر رہے ہو؟‘‘ مَیں نے تیزی سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا۔ ’’صاحب! یہ رہی آپ کے بچّے کی باڈی…‘‘ میری نظر جونہی یخ بستہ باکس میں لیٹے کاشف پر پڑی، توجیسے یک لخت میرے تَنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑگئے۔ مَیں نے ظفر کو اپنی طرف کھینچا اور اس کے کان میں سرگوشی کی، ’’ظفر دیکھو! میرا بچّہ یہاں کتنے سکون سے سورہا ہے اور مَیں اُسے یہ راحت پہنچانے کے لیے کتنا ہلکان ہو رہا تھا۔‘‘ پھر مَیں نے بیٹے کے یخ بستہ رُخسار کو چُھوتے ہوئے کہا کہ ’’اس سرد خانے میں تمہیں گرمی نہیں لگے گی بیٹا۔ یہاں ٹھنڈ ہی ٹھنڈ ہے اور بجلی بھی نہیں جاتی، مگر میرے بچّے اس سہولت کے لیے ہم جیسوں کو مرنا پڑتا ہے۔‘‘