دنیا کی سب سے طاقت وَر قوم: یہ دو ہزار سال قبلِ مسیح کی بات ہے کہ جب طوفانِ نوح ؑکی تباہی کے بعد اللہ تعالیٰ نے سرزمینِ عرب پر ایک ایسی قوم پیدا فرمائی، جو دنیا میں سب سے طاقت وَر، مضبوط و توانا افراد پر مشتمل تھی۔ یہ لوگ جسمانی خُوب صُورتی، سُرخ و سفید رنگت اور وجاہت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ مال و دولت کی فراوانی، شان دار تہذیب و تمدّن، شان و شوکت سمیت دنیا کی ہر نعمت و آسائش انہیں میسّر تھی۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اُن جیسی کوئی اور قوم اور مُلکوں میں پیدا نہیں کی۔‘‘ (سورۃ الفجر، آیت8)۔
ایک اور جگہ فرمایا۔ ’’اور یاد تو کرو،جب اُس نے تمہیں قومِ نوح ؑ کے بعد سردار بنایا اور تمہیں (زمین پر) خُوب پھیلایا۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت69)۔ حضرت ابنِ عباس اور مقاتل سے منقول ہے کہ اُن کے قد چھے گز یا 18فٹ تھے۔ قومِ عاد سے متعلق تفصیل سوائے قرآنِ کریم کے کسی اور مذہبی یا کسی قدیم تاریخی کتب میں نہیں ملتی، اس لیے اس قوم کے حالت کا نقشہ یا قرآنِ کریم کے ذریعے بن سکتا ہے یا پھر ان اثریات کے ذریعے، جو محقّقین علم الآثار نے اُن کے بارے میں حاصل کی ہیں۔ پہلا ذریعہ چوں کہ قطعی اور یقینی ہے، اس لیے اُس کے بیان کردہ حقائق کو بھی بلاشبہ قطعیت حاصل ہے، جب کہ دوسرا ذریعہ تخمینی اور قیاسی ہے۔ (قصص القرآن، حفظ الرحمٰن سیوہاروی، صفحہ 83)۔
قرآنِ کریم میں قومِ عاد کا ذکر: قومِ عاد کا ذکر قرآنِ کریم کی نو سورتوں میں کیا گیا ہے، 1۔ سورۃ الاعراف (ساتویں سورۃ)،2۔ سورئہ ہود( گیارہویں سورۃ)، 3۔ سورۃ المومنون(23ویں سورۃ)، 4۔ سورۃ الشعراء(26ویں سورۃ)، 5۔ سورئہ فصّلت، اسے ’’سورئہ سجدہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔( 32ویں سورۃ)،6۔سورئہ احقاف، (46ویں سورۃ)، 7۔ سورۃ الذاریات(51ویں سورۃ)، 8۔ سورۃ القمر (54ویں سورۃ)،9 ۔ سورۃ الحاقّہ(69ویں سورۃ)۔
قومِ عاد کا شجرۂ نسب: مؤرخین لکھتے ہیں کہ عاد نام کا ایک شخص حضرت نوح ؑکی چوتھی نسل میں اُن کے بیٹے سام کی اولاد میں سے تھا۔ چناں چہ اُس شخص کی اولاد اور اُس کی پوری قوم، قومِ عاد کے نام سے مشہور ہوگئی۔ بعض کُتب میں اُس شخص کا شجرئہ نسب یوں بیان کیا گیا ہے۔ عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح ؑ علیہ السلام۔
وہ اعرابی تھے، جو بہت لمبے اور مضبوط ستونوں پر قائم کردہ عالی شان محلّات میں رہا کرتے تھے۔ قرآنِ کریم نے انہیں ’’ارم ذات العماد‘‘ یعنی ’’ستونوں والے‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ارم اُن کا بہت خُوب صُورت شہر تھا، جس کے آثار 1984ء میں خلائی شٹر چیلنجر کی مدد سے دریافت کیے گئے ہیں۔ یہ علاقہ آج کل عمان کا حصّہ ہے۔
جائے عبرت: بحیرئہ عرب اور بحرِ احمر کے درمیان عمان، حضر موت، بحرین اور مغربی یمن تک ایک وسیع صحرا ہے، جسے صحرائے الاحقاف کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم صحرائوں سے میں سے ایک ہے، جس کا رقبہ ایک محتاط اندازے کے مطابق650000مربع میٹر ہے۔ اس صحرا میں سفید اور باریک ریت کے ہزاروں فٹ اونچے پہاڑ نما ٹیلے ہیں۔
جہاں کوئی بھی چیز پھینکی جائے، تو منٹوں میں غائب ہوجاتی ہے۔ کسی زمانے میں یہ دنیا کا سرسبز و شاداب علاقہ تھا اوروہاں یہ قومِ عاد آباد تھی۔ آج یہ بھیانک صحرا، اللہ تعالیٰ کی کُھلی نشانیوں میں سے ایک اور اہلِ زمین کے لیے جائے عبرت ہے۔
شدّاد کی جنّت: قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:’’وہ ارم جو ستونوں والے تھے۔ جن کی مانند (کوئی قوم) مُلکوں میں پیدا نہیں کی گئی۔‘‘ (سورۃ الفجر، آیات 8,7) بعض مفسّرین نے لکھا ہے کہ ’’اِرم‘‘ عاد کے دادا کا نام تھا۔ جیسا کہ اُن کے شجرئہ نسب میں بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد تحریر فرماتے ہیں کہ ’’عام مؤرخین کا خیال ہے کہ ’’ارم‘‘ قومِ عاد کے شاہی خاندان کا لقب تھا۔
قومِ عاد اپنی تعمیرات میں ستونوں کو خصوصی اہمیت دیتی تھی اور دنیا میں ستونوں پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ حالیہ دَور میں ایک شہر کے جو زیر زمین آثار دریافت ہوئے ہیں، اُن سے پتا چلتا ہے کہ اُس شہر کی فصیل پر تیس ستون یا مینار بنائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر شدّاد نے خصوصی اہتمام کے ساتھ بسایا تھا، جو اس قوم کا بہت بڑا بادشاہ تھا۔ قدوقامت اور جسمانی قوّت کے لحاظ سے دنیا میں اُن کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ اس طرح اس قوم نے جس معیار اور جس انداز کی تعمیرات کیں، ایسی تعمیرات اس سے پہلے دنیا میں کسی اور قوم نے نہیں کیں۔ شاید اسی لیے یہ جگہ شدّاد کی ’’جنّتِ ارضی‘‘ کے نام سے تاریخ میں مشہور ہے۔ (بیان القرآن،466/8 تفسیر سورۃ الفجر)۔
مولانا مفتی محمد شفیع بیان فرماتے ہیں کہ ’’بعض مفسّرین نے فرمایا کہ ارم، اُس جنّت کا نام ہے، جو عاد کے بیٹے ’’شدّاد‘‘ نے بنائی تھی اور اسی کی صفت ’’ذات العماد‘‘ ہے کہ وہ ایک عظیم الشّان عمارت بہت سے ستونوں پر قائم ہوئی اور سونے چاندی اور جواہرات سے تعمیر کی گئی، تاکہ لوگ آخرت کی جنّت کے بدلے اس نقد جنّت کو اختیار کرلیں، مگر جب یہ عالی شان محلّات تیار ہوگئے اور شدّاد نے اپنے رؤسائے مملکت کے ساتھ اس میں جانے کا ارادہ کیا، تو اُن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا، وہ سب ہلاک ہوگئے اور وہ محلّات بھی مسمار ہوگئے۔
اس اعتبار سے اس آیت میں قومِ عاد پر آئے ایک خاص عذاب کا ذکر ہوا ہے، جو ’’شدّاد بن عاد‘‘ اور اس کی بنائی ہوئی جنّت پر نازل ہوا۔ (معارف القرآن 741/8، تفسیر،سورۃ الفجر)۔ ایک اور روایت کے مطابق عاد کے بیٹے شدّاد نے جب جنّت کے نام اور خصوصیات سے متعلق سُنا، تو اُس نے زمین پر ایسی ہی جنّت بنانے کا ارادہ کیا اور عدن کے کسی صحرا میں تعمیرات کا کام شروع کردیااور مسلسل تین سو برس کی شب روز محنت کے بعد دنیا میں ایک خُوب صُورت جنّت بنادی، جس میں شان دار محلّات بھی تھے اور نہریں ،آبشار یںبھی۔
شدّاد کی عُمر نو سو سال ہوچکی تھی۔ ایک دن اُس نے قومِ عاد کے لوگوں کو جنّت کے دیدار کی دعوت دی۔ وقتِ مقررہ پر وہ عظیم جمِ غفیر کے ساتھ اپنی جنّت کی جانب روانہ ہوا۔ ابھی شہر ِارم کے عالی شان دروازے کے قریب ہی پہنچا تھا کہ ربّ ذوالجلال کے عذاب نے آ گھیرا۔ یوں شدّاد اپنی جنّت کے ساتھ زمین میں زندہ دفن ہوگیا۔ (واللہ اَعلم بالصواب) اس واقعے کی صحت پر علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں۔ اسی لیے ہم نے اس واقعے کو دو مستند کتب کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔
بُتوں کے پُجاری: طوفانِ نوح ؑ کے بعد قومِ عاد ہی وہ پہلی قوم تھی، جو بُتوں کی پُجاری بنی۔ علّامہ جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر ’’درِّمنثور‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’قومِ عاد نہایت زورآور اور بہادر قوم تھی، وہ سب بُت پرست تھے۔ اُن کے بُتوں کے نام صمود اورہب تھے۔ ابنِ کثیر میں تیسرا نام صمد بیان ہوا ہے۔ مختلف کتب میں اُن کے بُتوں کے مختلف نام بیان کیے گئے ہیں۔ کچھ نے بُتوں کے نام صدا، صمود، وھرا بتائے ہیں۔
مؤرخین کی رائے کے مطابق اُن کے معبود بھی قومِ نوح ؑ کی طرح پتھر کے پانچ بُت یعنی وَدّ، سُوَاع، یَغُوث، یَعُوق اور نَسر ہی تھے۔ کفر و شِرک کے سمندر میں غرق قومِ عاد کی بداعمالیاں جب اپنی انتہا کو پہنچ گئیں، تو اللہ تعالیٰ نے اُن ہی کی قوم کے ایک نیک اور صالح بندے کو اُن پر پیغمبر بناکر مبعوث فرمایا۔
نبی کا وعظ و نصیحت: یہ حضرت ہود علیہ السلام تھے۔ جن کا تعلق قومِ عاد ہی سے تھا۔ قومِ عاد عربی النسل تھے۔ صحیح ابنِ حبان میں حضرت ابوذرؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طویل حدیث روایت فرمائی ہے، جس میں انبیاء اور رسولوں کا ذکر ہے۔ اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’انبیاء میں سے چا رانبیاء عربی ہیں۔
حضرت ہودؑ، حضرت صالح ؑ ، حضرت شعیبؑ اور تمہارا نبی، اے ابو ذرؓ (یعنی، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ حضرت ہودؑ، عاد کی سب سے معزز شاخ ’’خلود‘‘ کے ایک خُوب صُورت اور وجیہ شخص تھے۔ حضرت ہودؑ نے اُن سے کہا۔ ’’بھائیو! ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، اُس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔‘‘ قومِ عاد کے سرداروں نے جواب دیا۔ ’’تم ہمیں احمق نظر آتے ہو اور ہماری نظر میں تم جھوٹے ہو۔‘‘ حضرت ہودؑ نے کہا،’’ مَیں ربّ العالمین کا پیغمبر ہوں اور اللہ کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں۔‘‘ کہنے لگے، ’’تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم اپنے اُن معبودوں کو چھوڑ دیں، جنہیں ہمارے باپ، دادا پوجتے تھے اور صرف ایک اللہ کی عبادت کریں؟ اگر تم سچّے ہو، تو جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو، وہ لے آئو۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیات65 تا 70)۔
حضرت ہودؑ مسلسل پچاس برس یا اس سے بھی زیادہ وعظ و نصیحت کرتے رہے، کبھی اُنہیں اللہ کی عطا کردہ نعمتیں یاد دلاتے، تو کبھی عذابِ الٰہی سے ڈراتے، کبھی طوفانِ نوح ؑ کی ہول ناکیوں کا ذکر فرماتے۔ لیکن وہ غرور و تکبّر میں اندھے، بہرے بنے رہے، اُنہیں اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے۔ ’’قومِ عاد ناحق مُلک میں غرور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے؟‘‘ (حٰم السجدہ، آیت 15) قومِ عاد کے تیرہ خاندان تھے۔ عمان سے لے کر یمن تک ایک طویل علاقے میں اُن کی بستیاں تھیں۔ سرسبز و شاداب کھیت کھلیان، پھلوں، پُھولوں سے لدے باغات، میٹھے پانی کی بَل کھاتی نہریں، خُوب صُورت آب شاریں اور تن درست و توانا قویٰ، مضبوط و قدآور جسامتیں ان ہی سب نعمتوں نے اُنھیں شدید گھمنڈ میں مبتلا کر رکھا تھا۔
حضرت ہود علیہ السلام کی دُعا:حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو راہِ راست پر لانے کے لیے بڑی جدوجہد کی، لیکن قومِ عاد کے لوگ آپ ؑ کو جادوگر اور سحر زدہ شخص خیال کرتے تھے کہ جنھیں اُن کے پتھر کے باطل خدائوں نے دیوانہ بنا دیا تھا۔ بالآخر وہ لمحہ بھی آگیا کہ جب حضرت ہود علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں دُعا فرمائی۔ ’’اے میرے پروردگار! انہوں نے مجھے جھوٹا کہا ہے۔ اب تُو میری مدد کر۔‘‘ فرمایا، ’’اے نبی! یہ تھوڑے ہی عرصے میں اپنے کیے پر پچھتانے لگیں گے۔‘‘ (سورۃ المومنون، آیات 40,39)۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؑ کی دُعا قبول فرمائی اور قومِ عاد پر عذاب کی ابتدا ہوگئی۔ بادلوں کے فرشتے کو حکم ملا کہ اب بارش نہ برسائی جائے۔
چشموں کے فرشتے کو حکم ملا کہ اُن کے چشموں اور آب شاروں کو خشک کردو۔ دیکھتے ہی دیکھتے شادابی، ویرانی میں بدلنے لگی۔ مویشی مرنے لگے، پھل، اناج ناپید ہوگیا۔ پوری قوم خشک سالی کا شکار ہوکر بدحال و پریشان ہوگئی۔ یہ سلسلہ مسلسل تین سال چلتا رہا۔ نبیؑ سے قوم کی یہ پریشانی دیکھی نہ جاتی تھی، مسلسل وعظ و نصیحت کرتے رہتے اور فرماتے۔ ’’اے میری قوم! اپنے پروردگار سے بخشش مانگو، پھر اس کے آگے توبہ کرو۔ وہ تم پر آسمان سے مینہ برسائے گا اور تمہاری طاقت و قوت میں اضافہ فرمائے گا۔ اور دیکھو تم گناہ گار بن کر رُوگردانی نہ کرو۔‘‘ کہنے لگے، ’’ہود تم ہمارے پاس کوئی دلیلِ ظاہر نہیں لائے۔ ہم صرف تمہارے کہنے سے نہ تو اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ تم پر ایمان لانے والے ہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب زدہ کرکے دیوانہ کردیا ہے۔‘‘ (سورئہ ہود، آیات 52 تا 54)۔
قوم کے سردار حجازِ مقدّس میں: اُس زمانے میں یہ دستور تھا کہ قوموں کو جب کوئی مشکل آ گھیرتی، تو وہ بیت اللہ شریف جاکر اللہ کے آگے آہ و زاری کرتے اور اُن کی مشکل رفع ہوجاتی، یعنی کافر قومیں بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی تھیں کہ اس ارض و سماء کی مالک ایک لافانی قوت موجود ہے۔ چناں چہ قومِ عاد کے70سرکردہ افراد مکّہ مکرّمہ پہنچے۔ جہاں قومِ عمالیق کے معاویہ بن بکر کی حکومت تھی۔ معاویہ کی ماں کا تعلق قومِ عاد سے تھا۔ معاویہ نے اُن کی خوب آئو بھگت کی۔
وہ لوگ ایک ماہ تک وہاں رہے اور بارش کے لیے دُعائیں مانگتے رہے۔ دُعا کروانے والے سردار کا نام قیل بن عنبر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن پر تین رنگوں کے بادل بھیج دیئے۔ سفید، سرخ، سیاہ، پھر آسمان سے ندا آئی کہ ’’اُن میں سے ایک کو منتخب کرلو۔‘‘ قیل نے سیاہ بادل کو پسند کرلیا، کیوں کہ وہ خوب بارش برسانے والا تھا۔ پھر ندا آئی کہ تُونے ہلاکت و تباہی کو پسند کرلیا ہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے سیاہ بادلوں کو قومِ عاد کی جانب ہانک دیا، جسے دیکھ کر پوری قوم خوشی کے شادیانے بجانے لگی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’جب اُنہوں نے اس عذاب کو دیکھا، جو بادل کی صُورت اُن کے میدانوں کی طرف آرہا تھا، تو کہنے لگے، یہ تو بادل ہے، جو ہم پر برس کر رہے گا، تو اللہ نے فرمایا۔ (نہیں) بلکہ یہ وہ چیز ہے، جس کے لیے تم جلدی کرتے تھے، یعنی آندھی، جس میں درد دینے والا عذاب بھرا ہوا ہے۔ یہ ہر چیز کو اپنے پروردگار کے حکم سے تباہ کیے دیتی ہے۔ گناہ گار لوگوں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘ (سورئہ احقاف، آیات 25,24)۔
قومِ عاد پر عذابِ الٰہی کا نزول: ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اس تیز ترین آندھی نے قومِ عاد کا ستیاناس کردیا۔ اللہ نے یہ عذاب سات رات اور آٹھ دنوں تک مسلسل جاری رکھا۔ (سورۃ الحاقہ، 7,6) اس آندھی نے کسی جان دار کو زندہ نہیں چھوڑا۔ غاروں، پہاڑوں، گھروں، محلّات اور قلعوں کے اندر سب کو فنا کر ڈالا۔ حضرت ابنِ عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’وہ آندھی، جس کے ذریعے قومِ عاد ہلاک ہوگئی تھی، اللہ نے اُن کے اوپر صرف انگوٹھی جتنی جگہ کے مثل ہوا کھولی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے اس خوف ناک آندھی سے حضرت ہود علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں کو محفوظ رکھا، کیوں کہ اُنہوں نے اللہ کے حکم سے حظیرہ نامی ایک بستی میں پناہ لے لی تھی۔ چناں چہ عذاب اُن تک نہیں پہنچا اور وہ امن و سکون سے رہے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بارش ہوگی، لیکن آپؐ کے چہرئہ مبارک پر تشویش کے آثار نظر آتے ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’عائشہؓ! اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بادل میں عذاب نہیں ہوگا، جب کہ قومِ عاد ہوا کے عذاب سے ہلاک کردی گئی تھی۔ اس قوم نے بھی بادل دیکھ کر کہا تھا کہ یہ بادل ہے۔ جو ہم پر بارش برسائے گا۔‘‘ (قصص ابنِ کثیر،صفحہ135,134 )۔
پروردگارِعالم نے قرآنِ کریم میں قوموں کی تباہی کے جو واقعات بیان فرمائے ہیں۔ اُن کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ بنی نوع انسان اور خاص طور پر امّتِ مسلمہ اُن سے سبق حاصل کرے۔ اللہ نے قومِ عاد کو طاقت و قوت، مال و دولت، شان و شوکت سمیت دنیا کی ہر نعمت عطا فرمائی، لیکن جب اُس نے نافرمانی کی، اپنے نبیؑ کی بات ماننے سے بار بار انکار کیا، تو اللہ نے اُسے نیست و نابود کردیا۔ ہم سب کو بھی انفرادی و اجتماعی طور پر اپنے روزمرّہ معاملات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کہیں ہم جان بوجھ کر یا اَن جانے میں اللہ اور اس کے نبیؐ کی نافرمانی کے مرتکب تو نہیں ہورہے۔