قرآنِ کریم میں ذکر: قرآنِ کریم میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکرسورۃ النساء، سورۃ الانعام، سورئہ یونس، سورۃ الصافات، سورۃ الانبیاء اور سورۃ القلم میں موجود ہے۔ اِن میں سے پہلی چار سورتوں میں نام لے کر اور باقی دو سورتوں میں ’’ذوالنون‘‘ اور’’ صاحب الحوت‘‘ یعنی مچھلی والا کہہ کر ذکر کیا گیا ہے۔ ’’نون‘‘ دراصل بڑی مچھلی کو کہتے ہیں اور چوں کہ حضرت یونس علیہ السلام کئی دن ایک بڑی مچھلی کے پیٹ میں رہے، اس لیے انہیں ’’مچھلی والا ‘‘کہا گیا۔
قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اور مچھلی والے کو یاد کرو، جب کہ وہ غصّے میں چلا گیا۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، آیت 87)۔ اس آیت میں حضرت یونس علیہ السلام کو ’’ذوالنون‘‘ کہا گیا۔ ایک اور جگہ فرمایا ’’اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا۔‘‘ (سورۃ القلم آیت 48)۔ اس آیت میں اُنھیں ’’صاحب الحوت‘‘ کہہ کر پُکارا گیا۔ نیز، قرآنِ کریم کی دسویں سورت، سورئہ یونس آپ ہی کے نام پر ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کا شہر: مؤرخینِ اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے نسب کے تعلق سے اِس سے زیادہ کوئی بات ثابت نہیں کہ اُن کے والد کا نام متّی تھا۔ چناں چہ وہ حضرت یونس بن متّی علیہ السلام کے نام سے مشہور ہوئے۔ حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں کہ حضرت یونسؑ کے زمانے کا تعلق تاریخ کی روشنی میں مشکل ہے، البتہ بعض مؤرخین نے یہ لکھاہے کہ جب ایران (فارس) میں طوائف الملوکی کا دَور تھا۔ اُس وقت نینوا میں حضرت یونس علیہ السلام کا ظہور ہوا۔ (فتح الباری،350/6)۔ حضرت یونس علیہ السلام کی عُمراٹھائیس سال تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں منصبِ نبوت پر سرفراز فرمایا اور اہلِ نینوا کی رشد و ہدایت پر مامور کیا۔
آپ اسرائیلی پیغمبروں میں سے تھے۔ امام بخاریؒ کی کتاب ’’الانبیا‘‘ میں شایع شدہ ترتیب کے مطابق، آپ کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے درمیان ہے۔ اہلِ کتاب کی روایتوں کے مطابق، حضرت یونس علیہ السلام کا عہد741تا781قبلِ مسیح ہے۔ اُس زمانے میں شہر نینوا عروج پر تھا۔ عراق میں دریائے دجلہ کے بائیں کنارے پر موجود موصل کے مقابل نینوا شہر آباد تھا۔1853ء میں اس کے کھنڈرات کی پیمائش کی گئی، تو رقبہ اٹھارہ سو ایکڑ تھا۔ (نشاناتِ ارضِ قرآن، از،شاہ مصباح الدین شکیل، صفحہ 199)-
نافرمان قوم اور عذابِ خداوندی:قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’بے شک، یونس علیہ السلام نبیوں میں سے تھے اور ہم نے انہیں ایک لاکھ بلکہ اور زیادہ لوگوں کی طرف بھیجا۔ (سورۃ الصافات، آیات139 اور 147)۔ حضرت یونس علیہ السلام عراق کے علاقے نینوا (موجودہ موصل) میں نبی بناکر بھیجے گئے تھے۔ یہ آشوریوں کا پایۂ تحت تھا۔ انہوں نے ایک لاکھ بنی اسرائیلیوں کو قیدی بنایا ہوا تھا۔
چناں چہ اُن کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف حضرت یونس علیہ السلام کو بھیجا۔ حضرت یونس علیہ السلام ایک عرصے تک اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے اور بُت پرستی سے روکتے رہے۔ مگر قوم نے اُن کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ غرورو تکبّر میں مبتلا یہ لوگ دیگر نافرمان اقوام کی طرح آپؑ کی دعوت کا مذاق بھی اُڑاتے رہے۔ یہ لوگ کفر و معصیتِ الٰہی میں اتنے غرق ہوچکے تھے کہ کوئی وعظ اُن پر اثر کرتا، نہ حضرت یونس علیہ السلام کی کوئی دلیل اُن کے لیے کارگر ثابت ہوتی۔ حضرت یونس علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ قوم پر وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہورہا، تو انہوں نے اللہ سے دُعا کی اور بحکمِ خداوندی قوم میں یہ اعلان کردیا کہ تین دن کے اندر، اندر ان پر عذاب آنے والا ہے۔ پھر آپ بستی سے نکل گئے۔
قوم نے جب عذاب کے آثار دیکھے، تو وہ اپنی عورتوں، بچّوں، حتیٰ کہ جانوروں سمیت ایک میدان میں جمع ہوگئے اوراللہ کی بارگاہ میں عاجزی و انکساری کے ساتھ توبہ استغفار شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دُعا قبول فرماکراُن پر سے عذاب ٹال دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام ہر آنے جانے والے مسافرسے اپنی قوم کا حال معلوم کرتے رہتے تھے۔ اُنہیں جب یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی قوم سے عذاب ٹال دیا ہے، تو انہوں نے اپنی تکذیب کے بعد اس قوم میں واپس جانا پسند نہیں کیا، بلکہ اُن سے ناراض ہوکر کسی اور طرف روانہ ہوگئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اور مچھلی والے کو یاد کرو، جب کہ وہ ناراض ہوکر چلا گیا تھا۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، آیت 87)۔
مفسّرین کے درمیان اس امَر پر اختلاف ہے کہ قوم ِیونسؑ ایمان کب لائی؟ آیا عذاب دیکھ کرلائی، جب کہ اُس وقت ایمان لانا نافع نہیں ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے طے شدہ قانون سے مستثنیٰ کرکے اُن کے ایمان کو قبول کرلیا۔ یا ابھی عذاب نہیں آیا تھا، یعنی وہ مرحلہ نہیں آیا تھا کہ جب ایمان لانا نافع نہیں ہوتا، لیکن قرآنِ کریم نے قومِ حضرت یونسؑ کے ساتھ جو استثناء کیا ہے، وہ پہلی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔ (تفسیر،مولانا صلاح الدین یوسف، صفحہ592)۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ، ’’تو کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ جو ایمان لاتی، تو اس کا ایمان اُسے نفع دیتا۔ ہاں، یونسؑ کی قوم جب ایمان لائی، تو ہم نے دنیا کی زندگی میں اُن سے ذلت کا عذاب دُور کردیا اور ایک مدّت تک اُن کو بہرہ مند رکھا۔‘‘ (سورئہ یونس، آیت98)۔
اور جب اللہ نے عذاب ٹال دیا...! حضرت یونس علیہ السلام نے بہ حکمِ خداوندی قوم میں یہ اعلان کردیا تھا کہ ’’تم پر تین دن کے اندر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔‘‘ اس کے بعد آپ بستی سے نکل گئے۔ قوم نے حضرت یونس علیہ السلام کے اس اعلان پر آپس میں مشورہ کیا۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ حضرت یونس علیہ السلام کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا گیا، لہٰذا اُن کی بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بزرگوں کے مشورے پر یہ طے کیا کہ رات کو حضرت یونس علیہ السلام اگر اپنے گھر میں مقیم رہتے ہیں، تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگروہ یہاں سے کہیں اور چلے جاتے ہیں، تو یقین کرلو کہ صبح عذاب ضرور آئے گا۔
آپ رات ہی کو گھر سے رخصت ہوگئے تھے، صبح ہوئی، تو گہرے بادلوں کی شکل میں سیاہ دھواں بستی والوں کے سروں پر منڈلانے لگا۔ عذاب کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ چناں چہ اہلِ عقل کے مشورے پر سب گھروں سے نکل کر میدان میں جمع ہوگئے اور صدقِ دل سے عاجزی و انکساری کے ساتھ توبہ استغفار کرنے لگے اوراللہ تعالیٰ نے اُن کی دُعا قبول فرماکے ان پر سے عذاب ٹال دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کو جب عذاب کے ٹل جانے کی اطلاع ملی، تو اُنھیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ اب میں جھوٹا سمجھا جاؤں گا۔
بعض روایات میں ہے کہ اُن کی قوم میں کسی کا جھوٹ ثابت ہوجانے پراسے واجب القتل قرار دے دیا جاتا تھا۔ عذاب ٹل جانے کے بعد حضرت یونس علیہ السلام کا اپنی قوم میں واپس نہ آنا، اپنے اجتہاد کی بِناء پر ہجرت کا قصد کرلینا اور اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کا انتظار نہ کرنا، اُن کی نظر میں قابلِ گرفت بات نہ تھی، مگر اللہ تعالیٰ کو حضرت یونس علیہ السلام کا یہ طرزِعمل پسند نہیں آیا کہ وحی کا انتظار کیے بغیر ایک فیصلہ کرگئے۔ یہ اگرچہ کوئی گناہ نہیں تھا، مگر خلافِ اَولیٰ ضرور تھا۔ (معارف القرآن، جلد 6،صفحہ 223)۔
کشتی میں قرعہ اندازی: حضرت یونس علیہ السلام فرات کے کنارے پہنچے، تو ایک کشتی کو مسافروں سے لدا تیار پایا۔ ان کے کشتی میں سوار ہوتے ہی لنگر اٹھا دیا گیا۔ راہ میں طوفانی ہوائوں نے کشتی کو آگھیرا، جب وہ ڈگمگانے لگی اوراس کے غرق ہونے کا یقین ہونے لگا، تو اہلِ کشتی اپنے عقیدے کے مطابق کہنے لگے، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا کے پاس سے بھاگ کر آیا ہے، جو اس کشتی میں سوار ہے۔
جب تک اُسے کشتی سے جدا نہ کیا جائے گا، نجات مشکل ہے۔‘‘ حضرت یونس علیہ السلام نے سُنا، تو اُنھیں خیال ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو میرا نینوا سے وحی کا انتظار کیے بغیر اس طرح چلے آنا پسند نہیں آیا اور یہ میری آزمائش کے آثار ہیں۔ یہ سوچ کر انہوں نے اہلِ کشتی سے فرمایا۔ ’’اپنے آقا کے پاس سے بھاگ کر آنے والا وہ غلام میں ہوں، مجھے کشتی سے باہر پھینک دو۔‘‘ مگر ملاح اور اہلِ کشتی اُن کی پاک بازی سے اس قدر متاثر تھے کہ اُنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور آپس میں یہ طے کیا کہ قرعہ اندازی کی جائے۔
چناں چہ تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی اور ہر مرتبہ حضرت یونس علیہ السلام کے نام ہی پرقرعہ نکلا۔ تب مجبور ہوکر انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کو دریا میں ڈال دیا، یا وہ خود دریا میں کود گئے۔ اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُنھیں ایک مچھلی نے نگل لیا۔ مچھلی کو صرف نگل لینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’صرف نگل لینے کی اجازت ہے۔ یونسؑ تیری غذا نہیں ہیں، اس لیے اُن کے جسم کو مطلق گزند نہ پہنچے۔‘‘ (فتح الباری، جلد6 صفحہ 351)۔
مچھلی کے پیٹ میں دُعا: حضرت یونس علیہ السلام نے جب مچھلی کے پیٹ میں خود کو زندہ پایا، تو بارگاہِ الٰہی میں اپنی اس ندامت کا اظہار کیا کہ وہ کیوں وحی الٰہی کا انتظار کیے اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لیے بغیر اپنی قوم سے ناراض ہوکر نینوا سے نکل آئے؟ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ’’اور ذوالنون جب غصّے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم اُن پر قابو نہ پاسکیں گے۔
آخر اندھیرے میں (اللہ کو) پکارنے لگے۔ لاالٰہ اِلّاانتَ سبحآنک اِنّی کنت مِن الظّٰلمین۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، آیت 87)۔ ترجمہ:تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے (اور) بے شک مَیں قصوروار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی دردبھری آواز سُنی اور دُعا قبول فرما کر مچھلی کو حکم دیا کہ ’’یونس کو، جو تیرے پاس ہماری امانت ہے، اُگل دے۔‘‘ چناں چہ مچھلی نے ساحل پر حضرت یونس علیہ السلام کو اُگل دیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے اُن کا جسم ایسا ہوگیا تھا، جیسا کہ کسی پرندے کا پیدا شدہ بچّہ کہ جس کا جسم بے حد نرم اور جسم پر بال تک نہیں ہوتے۔
غرض حضرت یونس علیہ السلام بہت نحیف و ناتواں حالت میں خشکی پر ڈال دیئے گئے۔ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے ایک بیل دار درخت اُگا دیا۔ علماء نے لکھا کہ وہ کدو کی ایک بیل تھی، جس کے سائے میں وہ ایک جھونپڑی بناکر رہنے لگے۔ چند دن کے بعد ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے اس بیل کی جڑ کو کیڑا لگ گیا اور اُس نے جڑ کو کاٹ ڈالا۔ جب بیل سوکھنے لگی تو حضرت یونس علیہ السلام کو بہت غم ہوا۔ تب اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، ’’یونس! تمہیں اس بیل کے سُوکھنے کا بہت رنج ہوا، جو ایک حقیر سی چیز ہے، مگر تم نے یہ نہیں سوچا کہ نینوا کی ایک لاکھ سے زیادہ آبادی، جس میں انسان بس رہے ہیں اور اُن کے علاوہ جان دار بھی آباد ہیں، اُسے برباد اور ہلاک کردینے میں ہمیں کوئی ناگواری نہیں ہوئی ہوگی۔ اور کیا ہم اُن کے لیے اس سے زیادہ شفیق و مہربان نہیں ہیں، جتنا کہ تمہیں اس بیل کے ساتھ انس ہے، جو تم وحی کا انتظار کیے بغیر قوم کو بددُعا دے کر اُن کے درمیان سے نکل آئے۔ یہ ایک نبی کی شان کے خلاف ہے کہ وہ قوم کے حق میں عذاب کی بددُعا کرنے اور نفرت کرکے اُن سے جدا ہوجانے میں عجلت کرے اور وحی کا بھی انتظار نہ کرے۔‘‘ (قصص القرآن، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی،صفحہ570 ۔ 571)۔
مچھلی کے پیٹ سے رہائی: تفسیر ابنِ ابی حاتم ؒ میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ’’اس میدان میں اللہ نے یقطینہ کی بیل اُگا دی تھی۔ پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے؟ فرمایا، کدّو کی بیل اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پہاڑی بکری اُن کے لیے مہیّا کردی تھی۔ وہ صبح و شام آپؑ کو دودھ پلاکر چلی جاتی تھی، جس سے آپؑ کی صحت بہتر ہوگئی۔‘‘ علماء فرماتے ہیں کہ کدّو کی بیل اُگانے میں بہت سے فوائد پیشِ نظر تھے۔ اس کے پتّے نرم، شگفتہ اور سایہ گھنا ہوتا ہے۔ مکھیاں اس بیل کے پاس نہیں پھٹکتیں۔
اس کا پھل کچّا بھی اور پکاکر بھی کھایا جاتا ہے۔ اس کے چھلکے اور بیج بھی کھانے اور دیگر انتفاع کے قابل ہوتے ہیں۔ نیز، دل و دماغ کے لیے مقوّی ہوتا ہے۔ غرض، اس میں بہت سے فوائد پوشیدہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ سبزی بڑی رغبت سے تناول فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چالیس روز تک رہے۔
یہ انہیں زمین کی تہہ تک لے جاتی، دور دراز کی مسافتوں میں پھراتی اور نمکین کڑوے پانی کی اتھاہ تاریکیوں میں رکھتی۔ آپؑ نے ہر جگہ سُنا کہ مچھلیاں رحمت کی تسبیح کررہی ہیں، حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں بھی رحمٰن و رحیم کی تسبیح میں مصروف ہیں۔ آپؑ نے مچھلی کے پیٹ میں کتنا عرصہ گزارا، حقیقتِ حال تو پروردگارِ عالم ہی کو معلوم ہے، لیکن حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، سعید بن ابی الحسن اور ابو مالک سمیت اکثر کی رائے چالیس دن ہے، جب کہ بعض نے سات، بعض نے پانچ دن اور کچھ نے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدّت چند گھنٹے لکھی ہے۔ (واللہ اَعلم)۔ (قصص ابنِ کثیر،صفحہ 300)۔
سمندری جانوروں کی تسبیح: تفسیر ابنِ جریرمیں حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ مچھلی جب آپؑ کو لے کر سمندر کی نچلی سطح پر پہنچی، تو آپ ؑ نے کچھ آہٹیں سنیں۔ دل میں سوچا کہ یہ کیا ہے؟ تو اللہ نے وحی فرمائی کہ یہ سمندری جانوروں کی تسبیح ہے، تو حضرت یونس علیہ السلام نے بھی یہ تسبیح کی۔ فرشتوں نے آپ کی تسبیح سُنی تو بارگاہِ خداوندی میں عرض کرنے لگے، ’’اے ہمارے پروردگار! ہم اجنبی زمین سے ایک نحیف و کم زور سی آواز سُن رہے ہیں؟‘‘
اللہ نے فرمایا۔ ’’یہ میرا بندہ یونس ہے، جس سے میرے فرمان کی لغزش ہوئی، تو مَیں نے اُسے سمندر کے اندر مچھلی کے پیٹ میں قید کردیا۔‘‘ فرشتوں نے حضرت یونس علیہ السلام کی سفارش کرتے ہوئے کہا۔ ’’اے ہمارے معبودِ حقیقی! وہ تو تیرا بہت نیک بندہ ہے، جو شب و روز تیرے پاس نیک عمل پہنچاتا ہے۔‘‘ فرمایا۔ ’’ہاں، وہ بہت اچھی تسبیح کرتا ہے۔‘‘ پھر اللہ نے مچھلی کو حکم دیا کہ ’’ہمارے بندے کو ساحل پر ڈال دے۔‘‘ تفسیر ابنِ جریر میں حضرت سعد بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس نے حضرت یونس علیہ السلام کی دُعا کے ساتھ دُعا کی، اس کی دُعا بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوگی۔‘‘ (قصص الانبیاء، صفحہ226)۔
اسرائیلی روایات: مولانا مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں ’’یہ بات اہلِ علم سے مخفی نہیں کہ عام طور پر حضراتِ مفسّرین اپنی تفسیروں میں اسرائیلی روایات بھی نقل کردیتے ہیں۔ جن کے بارے میں ان سب کا اتفاق ہے کہ یہ روایات مستند و معتبر نہیں۔ کسی حکمِ شرعی کا ان پر مدار نہیں رکھا جاسکتا۔
اسرائیلی روایات خواہ مفسّرینِ اسلام کی کتابوں میں ہوں یا صحیفۂ حضرت یونسؑ میں، صرف اُن ہی کے سہارے حضرت یونس علیہ السلام پر یہ بہتانِ عظیم لگایا جاسکتا ہے کہ اُن سے فریضۂ رسالت کی ادائی میں کوتاہی ہوئی، کسی مفسّرِ اسلام نے اسے قبول نہیں کیا۔ (قصص الانبیا، صفحہ597)۔