• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو ڈر لگتا ہے؟ ٹال مٹول کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو دعویٰ کرسکے کہ اسےڈ ر نہیں لگتا۔ ڈر سب کو لگتا ہے۔ ڈر آپ کو لگتا ہے۔ڈر مجھے بھی لگتا ہے۔ ہر وہ شخص جسے آپ جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، وہ بھی ڈر ڈر کرزندگی گزار رہا ہوتا ہے، مگر وہ اپنے ڈر کا اعتراف نہیں کرتا۔ پھنے خان بن کر، سینہ تان کر کہتا، پھرتاہے کہ مجھے ڈر نہیں لگتا۔پھنے خان کا دعویٰ قطعی غلط ہے۔ ہر وہ شخص جواس دنیا میں آتا ہے، وہ اپنے ڈر اور خوف اپنے ساتھ لے آتا ہے۔ میں نے سادہ سا سوال پوچھا ہے۔کیا آپ کو ڈر لگتا ہے؟ میں نے آپ سے یہ نہیں پوچھا ہے کہ کیا آپ کو کاکروچ سے ڈر لگتا ہے۔ کیا آپ چوہے سے ڈرتے ہیں؟ چھپکلی دیکھ کر کیا آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور آپ چیختے چلاتے پھرتے ہیں؟ بلی سے ڈرنا ہمارے معاشرے میں مضحکہ خیز سمجھا جاتا ہے۔ میں نے آپ سے یہ نہیں پوچھا ہے کہ آپ کو بلی سے ڈرلگتا ہے؟ میں نے آپ سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کو مکڑی سے ڈر لگتا ہے،کہ جواب دینے سے پہلے آپ شرمندگی محسوس کریں۔ مکڑی، کاکروچ، چھچھوندر، بلی، پاگل کتے سے سب ڈرتے ہیں۔ یہ ڈر معیوب نہیں ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی معمولی اور کبھی غیر معمولی چیزوں سے ڈرتا ہے۔ یہ سب نارمل ہے۔ ڈر ہماری جبلتوں میں بیٹھا رہتا ہے۔ لہذا ایسے کسی ڈر کا اعتراف کرتے ہوئے ہم قدرتی طور پر شرمساری محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح کے ڈر عام طور پرہمارے ذاتی ڈ ر ہوتے ہیں۔ ہم اس نوعیت کے ڈر اکثر چھپاتے ہیں۔ کسی اور کوپتہ چلنے نہیں دیتے۔دراصل میں دوسری نوعیت کے ڈر سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ سب ملنے ملانے والوں سے ڈر کی مختلف صورتوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ ایسے ڈر نصابی کتابوں میں طلبہ کو پڑھائے اور سمجھائے جاتے ہیں۔ اس نوعیت کےڈ ر عام طور پر میڈیکل سائنس کے طلبہ کو پڑھائے اور سمجھائے جاتے۔ اور بدقسمتی سے فقیر کا گزر کبھی بھی میڈیکل سائنس کے ایوانوں سے نہیں ہوا۔ اس حوالہ سےفقیر ٹھہرے گنوار، ان پڑھ۔مگر ایک بات ہمیں یادرکھنی چاہیے کہ نشانیاں، اشارے نظر انداز کرنے نہیں چاہئیں۔ ان میں بند گلیوں سے باہر نکلنے کے راستوں کی نشاندہی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ بند گلیوں سے باہر نکلنا چاہتے ہیں، یا پھر جنم درجنم آپ بند گلیوں میں بھٹکنا چاہتے ہیں۔ آپ کو فرہاد کی طرح پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر نہیں نکالنی ہے۔ آپ اپنی سوچ سے ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں۔یہ فلسفہ میرا نہیں ہے۔ کسی اور کا ہے ۔میں نے کہیں سے سنا ہے اور آج آپ سے شیئر کررہا ہوں۔ زندگی نے سبق سکھایا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر سوچنا ضروری ہے۔مثلاً Claustrophobiaکے بارے میں پڑھانے اور سمجھانے کے لیے میڈیکل سائنس کے پاس دقیق مواد موجود ہے جو کم پڑھے لکھے ہم جیسے فقیروں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مگر ہم فقیر زندگی میں کھائی ہوئی ٹھوکروں سے سیکھتے ہیں۔ کھائی ہوئی ٹھوکروں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ کلیسٹرو فوبیا کا مطلب ہے تنگ اور بند جگہوں سے ذہنی انتشار،بے چینی اور دم گھٹنے کا خوف محسوس کرنا۔ بڑی تکلیف دہ صورت حال ہوتی ہے۔ لوگ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کئی لوگ لفٹ میں سوار ہوتے ہوئے، لفٹ میں اوپر کی منزلوں تک سفر کرتے ہوئے گھبراتے ہیں؟ آخرکیوں؟ کس وجہ سے وہ لفٹ میں سوار ہونے سے گھبراتے ہیں؟ سادہ ساجواب ہے کہ ایسے لوگ کلوسٹروفوبیا کے مریض ہوتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ ہے، مگر وہ علم ہماری سمجھ سے کوسوں دور ہے۔ ہم فقیر روزمرہ کی زندگی سے سبق سیکھتے ہیں۔ آپس میں شیئر کرتے ہیں۔بند جگہ کا احساس اچانک پیدا نہیں ہوتا۔ ڈاکٹروں کے پاس اسکے ایک سوایک اسباب ہونگے۔ مگر ہم عام آدمی محسوس کرتے ہیں کہ بچپن سے اگر بچے کو غیر واجبی بندشوں میں جکڑ دیا جائے، ہر منطقی جستجو سے روک دیا جائے، توپھر ایسے بچے کا کلیسٹرو فوبیا کا شکار یا مریض ہونا بعد ازامکان نہیں۔ آج چھوٹے کل بڑے، جواں ہوکر وہ خود کو گھٹن میں سانس لیتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ بند کمروں،لفٹ اور دیگر جگہوں میں خو د کو مقید محسوس کرتے ہیں۔ کچھ کہتے ہوئے، کچھ بولتے ہوئے، اپنی آرا کا اظہار کرتے ہوئے ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ میں نے ایک نہیں، انیک لوگوں کو گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتے ہوئے دیکھا۔حالات ہمیشہ پہلے جیسے نہیں رہتے ۔حالات بدل جاتے ہیں۔ آپ کو کچھ کہنے ، کچھ سمجھنے ، کچھ لکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اچانک آپ اپنا دم گھٹتے ہوئے محسوس کرنے لگتے ہیں۔ غفلت پر ایسی کڑی سزائیں رکھی جاتی ہیں کہ سوچ کر آپ کا دم نکل جاتا ہے۔ کلیسٹرو فوبیا کے مریض خود کشی سے گریز نہیں کرتے۔ ان باتوں کا ڈاکٹروں کے ہاں مخصوص علاج اور مدارت ہے۔ میں نے جوزندگی میں دیکھا ہے، اس مشاہدے پر مبنی باتیں آپ کو بتا دی ہیں۔ ان باتوں کا سائنس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

ویسے بھی ڈر ڈر کر جینے کا مزہ کچھ اور ہے

تازہ ترین