• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

بچپن میں ہمیں دوسروں سے اچھے سلوک کی تلقین کی جاتی تھی، چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھنے پربہت زور دیا جاتا، مثلاً اگر راہ چلتے کوئی پتھر یا کوئی ایسی چیزنظر آئے، جو کسی کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہو، تو اسے فوراً ہٹادینا چاہیے۔ لیکن افسوس، آج کل معاشرے میں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ لوگ راہ میں پڑی رکاوٹیں دیکھنے کے باوجود اَن جان بن کر گزر جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں بعض اوقات خوف ناک حادثات جنم لیتے ہیں۔ بے حسی پر مبنی ایسا ہی ایک واقعہ قارئین کی نذر کررہا ہوں، جس میں ایک ہنستے بستے گھرانے کے ایک نوجوان کی قیمتی جان چلی گئی۔

مَیں عموماً گاڑی ڈرائیو نہیں کرتا بلکہ زیادہ تر پیدل چلنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ واک کرتے ہوئے بس اسٹاپ تک جاتا ہوں اور پھر وہاں سے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے اپنے کلینک اور اسی طرح واپس گھرجاتا ہوں۔ میرے گھر سے تقریباً 2فرلانگ کے فاصلے پر بس اسٹاپ ہے، وہاں تک میں مین روڈ کے کنارے کنارے پیدل سفر طے کرکے پہنچتا ہوں اور آج تک میرے یہی معمولات ہیں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے، جب اُس علاقے کے مین روڈ پر ایک بنگلے میں ایک بہت ہی معیاری اسکول قائم تھا۔ 

اسکول کی بیرونی دیوار کے ساتھ کونے میں ایک انڈر گرائونڈ سیوریج کا گٹر تھا، دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس کا شگاف خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا، جسے دیکھ کراس بات کا اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر اسے بند نہیں کیا گیا، تو خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس شگاف کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا، لیکن کسی کو اسے بند کرنے کا خیال نہ آیا۔ مَیں جب بھی اُدھر سے گزرتا، میری چھٹی حِس کسی خطرے کا سگنل دیتی، ایک دفعہ مَیں نے اسکول جاکر وہاں کے سپروائزر کوبھی اس خطرے سے آگاہ کیا۔ 

اُس نے میری بات سُن کر مجھے تسلّی دی کہ جلد ہی اس گٹر کی مرمّت کروادی جائے گی۔ دو تین دن بعد دیکھا کہ گٹرکے اِردگرد کچھ چھوٹے بڑے پتّھر لگا کردرخت کی تنا نما ایک شاخ اس پر رکھ دی گئی ہے۔ میں دیکھتا ہوا گزر گیا، لیکن دل مطمئن نہیں ہورہا تھا، کیوں کہ یہ بندوبست عارضی نوعیت کا تھا، پھر چند روز بعد وہ تمام پتّھر بھی راہ گیروں کی ٹھوکروں سے اُسی گٹر میں گرگئے اور صرف ایک لمبی تنا نما شاخ ہی گٹر کے بیچوں بیچ رہ گئی۔

مَیں جب شام کو وہاں سے گزرتا، تو اُس وقت اسکول بند ہوچُکا ہوتااوروہاں سنّاٹا ہوتا۔ ایک روز مَیں پھر صبح گیارہ بجے اسکول پہنچ کر سپروائزر کو نظر انداز کرتا ہوا پرنسپل کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ اندر داخل ہوا تو پرنسپل نے اس انداز سے مجھے دیکھا، جیسے میرا آنا انھیں سخت ناگوار گزرا ہو۔ اخلاقاً بیٹھنے کو بھی نہیں کہا۔ پوچھا، ’’جی فرمائیے، مجھ سے کیا کام ہے آپ کو؟‘‘ مَیں نے کچھ لمحے انتظار کیا کہ شاید وہ بیٹھنے کو کہیں گے، لیکن انھوں نے بدستور ناگواری سے گُھورتے ہوئے پھر پوچھا، ’’بتائیے، کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ تومیں اُن کی ناگواری اور بداخلاقی نظر انداز کرتے ہوئے خُود ہی سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

میرے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، جو مَیں نے اُن کی میز پررکھ دی، کتاب کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگے، ’’فرمائیے۔‘‘ مَیں نے سارا معاملہ گوش گوار کیا اور ممکنہ خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اِس سے پہلے مَیں آپ کے سپروائزر اور گارڈ کوبھی بتاچُکا ہوں، لیکن کسی نے کوئی توجّہ نہیں دی، تو مجبوراً آپ کے پاس آنا پڑا۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں، آپ مطمئن رہیں، مَیں جاتے وقت اُس جگہ کو دیکھ لوں گا۔‘‘ پھر کچھ سوچ کر کہنے لگے۔ ’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’مَیں سوئی گیس کمپنی کا ایک ریٹائرڈ آفیسر ہوں، اور یہیں آپ کے اسکول کے عقب میں میری رہائش ہے۔‘‘ بہرحال، مجھے تسلّی دے کر مجھ سے پہلے ہی وہ خُود کھڑے ہوگئے، مَیں فوراً سمجھ گیا اور اُن کی بے اعتنائی دیکھتے ہوئے واپس چلا آیا۔ وہ صاحب ایک حسّاس ادارے کے ریٹائرڈ آفیسر تھے، لہٰذا میں مطمئن ہوگیا کہ اب یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ 

چند دن مزید گزرگئے، وہ جگہ ویسی کی ویسی ہی رہی۔ گارڈ سے پوچھا، تو کہنے لگا۔ ’’ہمارے صاحب نے چند دن پہلے اِس جگہ کا معائنہ کرکے کسی کو ہدایت تو دی ہے، لیکن اس سے آگے مجھے اور کچھ معلوم نہیں۔‘‘ واضح رہے کہ دن کی روشنی میں تو یہ گٹر صاف نظر آتا تھا، لیکن رات کے وقت بالکل نظر نہیں آتا تھا۔ میں جب واپس رات کو کلینک سے گھر جاتا، تو راستے میں کھلے گٹر کا خطرناک دہانہ کسی خطرے کا احساس دلاتا رہتا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، پرنسپل کے سرد رویّے کی وجہ سے دوبارہ اُن سے ملنا مناسب نہیں سمجھا۔ اِسی کشمکش میں مزید ایک ہفتہ گزر گیا۔ 

پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ اس معاملے کو اعلیٰ سطح پر اٹھانا چاہیے، لیکن اسی ادھیڑبُن میں کئی دن گزرگئے۔ عجیب بے کلی اور بے چینی کے ساتھ کسی خطرے کی بُو شدّت سے محسوس ہورہی تھی۔ اسکول کے برابر والی گلی میں موجود شہری دفاع کے ایک تربیتی ادارے کے منتظم سے بھی بات کی، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’یہ اسکول والوں کی ذمّے داری ہے۔‘‘ اب سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، جب بھی کلینک سے واپسی پر رات کو وہاں سے گزرتا، خود کو بڑا بے چین پاتا۔

ایک روز حسبِ معمول رات ساڑھے دس بجے وہاں سے گزر رہا تھا، تو دیکھا کہ عین اُسی جگہ کچھ لوگ جمع ہیں، میں سمجھ گیا کہ کوئی حادثہ پیش آگیا ہے۔ جلدی جلدی اُس جگہ پہنچا، تو معلوم ہوا کہ تقریباً15منٹ پہلے ایک نوجوان لڑکا اُسی گٹرمیں بائیک سمیت جاگرا اورخود کو بچانے کی کوشش میں اسکول کی دیوارسے لگی کیاری کی منڈیر سے سر ٹکرانے کی وجہ سے موقعے ہی پر دَم توڑ گیا۔ 

یہ بات مجھے وہاں کھڑے لوگوں نے بتائی، اسکول کا گارڈ بھی وہیں موجود تھا۔اس الَم ناک واقعے پرمَیں بہت دل گرفتہ ہوا، شدّتِ غم سے آنکھوں سے آنسو نکل آئے کہ ذرا سی لاپروائی سے ایک نوجوان اپنی جان گنوا بیٹھا۔ دل کو کسی پَل قرار نہیں آرہا تھا۔ دُکھ اس بات کا بھی تھا کہ اگر ایک ذمّے داراسکول پرنسپل، تھوڑا سا بھی احساسِ ذمّے داری کا مظاہرہ کرتا تو یہ الم ناک حادثہ پیش نہیں آتا۔ اورپھر صرف پرنسپل ہی پر کیا موقوف، اس اہم مسئلے پرتو کسی نے بھی کوئی توجّہ نہ دی، جس کے نتیجے میں کسی کے گھر کا چشم و چراغ یوں آناً فاناً بجھ گیا۔ معلوم نہیں، اُس گھر میں کیا قیامت ٹوٹی ہوگی۔

حادثہ رونما ہونے سے پہلے مَیں نے اپنے طور پرتمام تر کوششیں کیں، لیکن اس کے باوجود میرا ضمیر اب تک مجھے ملامت کرتا ہے کہ اے کاش! مجھے کچھ دن اور مل جاتے، تو شاید یہ مسئلہ حل ہوجاتا اور یہ الم ناک حادثہ پیش نہیں آتا۔ وہ اسکول بھی اس سانحے کے بعد بند ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد اُس عمارت میں ایک دوسرا اسکول قائم ہوا، تو نئی انتظامیہ نے سب سے پہلے اس گٹر اور اس کے شگاف کو اچھی طرح بند کروا کر روڈ کے لیول سے ملا دیا۔ آفرین ہے، ایسے لوگوں پر جو ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ 

مَیں اس واقعے اور حادثے کے حوالے سے موٹر سائیکل چلانے والوں سے التجا کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے بائیک چلاتے وقت ہیلمٹ کا استعمال ضرور کیا کریں۔ اگروہ نوجوان اُس وقت ہیلمٹ پہنے ہوتا، تو اس کی جان ضرور بچ جاتی، کیوں کہ کیاری کی منڈیر سے اس کا صرف سر ہی ٹکرایا تھا۔ آج بھی اس واقعے کو یاد کرتا ہوں، تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اللہ ہر ایک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین) (ہومیو ڈاکٹر ایم۔ شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)