• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ازہر منیر

اُن دِنوں مَیں غالباً سات برس کا تھا۔ میرا روز کا معمول تھا کہ جب بھی سڑک پار کرتا، تو ایک نظر فُٹ پاتھ پر بیٹھے بوڑھے فوٹو گرافر پر ضرور ڈالتا اور پھر خود بہ خود میری نگاہ دیوار کے ساتھ رکھے اُس کے باکس کیمرے پر جا پڑتی۔ وہ خاک نشیں فوٹو گرافر ہمیشہ خیالوں کی دُنیا میں گُم رہتا تھا۔ کیمرے کے نیچے تین ٹانگیں نصب تھیں، جب کہ اُس کا لینس سیاہ گتّے سے ڈھکا ہوتا۔ 

لینس کی پچھلی طرف ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی اور داہنی جانب ایک سیاہ کپڑا لٹکتارہتا۔ کبھی کبھار وہ بوڑھا فوٹو گرافر کسی گاہک کی تصویر کھینچنے میں بھی مصروف نظر آتا۔ تصویر کھنچوانے والا شخص دیوار کے ساتھ رکھی بینچ پر بیٹھتا، جب کہ اُس کی پُشت پر سیاہ رنگ کا پردہ آویزاں ہوتا۔ فوٹو گرافر کیمرے کی کھڑکی سے گاہک کو دیکھتا، لینس پر سے گتّا اُتارتا اور گاہک سے مخاطب ہو کر مخصوص ہدایات دیتا کہ،’’ٹھوڑی کو اوپر اٹھایئے… ذرا سا نیچے… نہیں، نہیں، ذرا اوپر… میرے ہاتھ کی طرف دیکھیے…ٹھیک ہے۔ بس اب یہیں رہیے۔‘‘ پھر جب کیمرے میں سے ایک بھیگا ہوا کاغذ نکلتا، جس پر اُس پر گاہک کی شبیہ ہوتی، تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہتی۔

ایک روز مَیں فوٹو گرافر کے پاس گیا اور اُس سے پوچھا کہ ’’ کیا آپ میری تصویر کھینچیں گے؟‘‘ اُس نے ہنس کر جواب دیا، ’’کیوں نہیں۔‘‘ مَیں نے استفسار کیا کہ ’’کتنے افغانی لگیں گے؟‘‘ ’’صرف پورٹریٹ چاہیے یا پوری تصویر؟‘‘ فوٹو گرافر نے سوال کیا۔ ’’پوری تصویر۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔ ’’صرف ایک نقل لو گے؟‘‘ اُس نے مزید وضاحت چاہی۔ ’’جی ہاں۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔ ’’تو پھر دس افغانی ہوں گے۔‘‘بوڑھے فوٹو گرافر نے معاوضہ بتاتے ہوئے کہا۔

مَیں نے اُسی روز سے پیسے جوڑنا شروع کر دیے۔ مَیں چاہتا تھا کہ جلد سے جلد دس افغانی جمع کرلوں تاکہ اپنی تصویر کھنچوانے کی دیرینہ خواہش پوری کر سکوں۔ تاہم، مُجھے یہ رقم جمع کرنے میں کئی روز لگ گئے۔ مطلوبہ رقم کابندوبست ہونے کے بعد مَیں نے سکّے جیب میں ڈالے اور بوڑھے فوٹو گرافر کی طرف چل دیا۔ مُجھے دیکھ کر اُسے ایک خوش گوار حیرت ہوئی اور بولا’’تو بالآخر تم آ ہی گئے۔‘‘ مَیں نے سکّے اُس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا کہ ’’پورے دس افغانی ہیں، گن لیں۔‘‘ 

اُس نے گنے بغیر ہی سکّے جیب میں ڈالے اور سیاہ پردے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مُجھ سے کہا کہ ’’یہاں کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ مَیں پردے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ بوڑھے فوٹو گرافر نے لینس پر سے گتّا اُتارا اور اپرچر سے مُجھے دیکھنا شروع کردیا۔ مَیں ٹکٹکی باندھے کیمرے کی لینس کی طرف دیکھ رہا تھا اور میرا دل تیز دھڑک رہا تھا۔ تصویر کھنچواتے ہوئے مُجھے ہنسی بھی بہت آ رہی تھی، جسے مَیں بڑی مشکل سے ضبط کیے کھڑا تھا۔

’’بائیں جانب دیکھو… نہیں، نہیں…ذرا سا دائیں جانب… ذرا اور… بس…‘‘ فوٹو گرافر نے مُجھے ہدایات دیتے ہوئے کہا۔ مُجھے رہ رہ کر یہی خیال آ رہا تھا کہ آخر میری تصویر کیسی ہو گی۔ اسی اثنا فوٹو گرافر نے مُجھے دونوں ٹانگیں ملانے کے لیے کہا، تو بے ساختہ میری ہنسی چُھوٹ گئی، جس پر اُس نے مُجھے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’’ہنسو مت۔‘‘ مَیں نے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ لیا اور ایک مرتبہ پھر لینس کی طرف دیکھنا شروع کردیا، لیکن ہنسی رُکنے کا نام نہیںہی لے رہی تھی۔ اب فوٹو گرافر نے ایک نیا حُکم دیا کہ ’’ہلو مت۔‘‘ مَیں نے اپنی ہنسی روکنے کی غرض سے اپنے ہونٹوں کو مزید سختی سے بھینچ لیا۔ فوٹو گرافر نے لینس سے گتّا اُتارا اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ ڈھانپ کر کہا، ’’بس۔‘‘

مَیں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب مُجھے تصویر دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ اُس نے تصویر ایک لفافے میں ڈال کر میرے حوالے کر دی۔ چند قدم چلنے کے بعد مَیں نے لفافے سے نکال کر اپنی تصویر دیکھی، تو بے اختیار میری ہنسی نکل گئی۔ تصویر میں میری پگڑی اپنی جگہ سے تھوڑی اُوپر اُٹھی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے میرا ماتھا اور سَر کے بال دکھائی دے رہے تھے۔ 

مَیں کسی مجسمے کی مانند بالکل سیدھا کھڑا تھا اور میرے ہونٹ سختی سے ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے تھے اور صاف محسوس ہو رہا تھا کہ مَیں نے بہ مشکل اپنی ہنسی روک رکھی ہے۔ میری آنکھوں میں حیرت سمائی ہوئی تھی، جب کہ میرا طویل کوٹ اور جوتوں کے سِرے نہایت مضحکہ خیز لگ رہے تھے، لیکن اس کے باوجود مُجھے اپنی تصویر بے حد پسند آئی۔ مَیں نے اُسے جیب میں رکھا اور ماں کو دکھانے کی خاطر گھر کی طرف دوڑ پڑا۔

گھر داخل ہوتے ہی مَیں چلاّیا’’ماں ! مَیں نے تصویر کھنچوائی ہے۔‘‘ ماں نے بے تابی سے پوچھا، ’’کہاں ہے؟ لاؤ مُجھے دکھاؤ۔‘‘ مَیں نے جیب میں ہاتھ ڈالا، تو وہ بالکل خالی تھی۔ جلدی گھر پہنچنے اور ماں کو دکھانے کے شوق میں مَیں نے تصویر راستے ہی میں کہیں گرا دی تھا۔ جیب میں تصویر نہ پا کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ماں نے میرے فق ہوتے چہرے کی طرف دیکھا، تو پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘ مَیں کوئی جواب دیے بغیر ہی گلی کی طرف بھاگا۔ پہلے اپنی تصویر کو گلی اور پھر سڑک پر تلاش کیا، لیکن وہ نہیں ملی۔ 

مَیں گھر لوٹ آیا اور رونا شروع کر دیا۔ جب چچّا کو اس سارے قضیے کا پتا چلا، تو انہوں نے مُجھے تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ ’’ اب چُپ ہو جاؤ اور میرے ساتھ چلو۔ میں تمہاری نئی تصویر کھنچوا دیتا ہوں۔‘‘ پھر ماں نے مُجھے صاف سُتھرے کپڑے پہنائے اور بالوں میں کنگھی کی۔ چچّا نے میرا بازو تھاما اور ہم تصویر بنوانے نکل پڑے۔ چچّا مُجھے اُس بوڑھے فوٹو گرافر کی بہ جائے ایک خُوب صُورت سے فوٹو اسٹوڈیو لے گئے۔ مَیں نے اسٹوڈیو میں کھینچی گئی اپنی تصویر دیکھی، تو وہ مُجھے بالکل بے رونق اور پھیکی پھیکی لگی اور اپنی کھوئی ہوئی تصویر زیادہ شدّت سے یاد آئی۔

اس واقعے کے بعد مَیں نے کئی تصاویر کھنچوائیں، لیکن مُجھے اُن میں پہلی والی تصویر سی کشش و جاذبیت نظر نہیں آئی۔ پھر جب مَیں اسکول کے آخری درجے میں تھا، تو ایک روز مَیں نے کسی رسالے میں ایک تصویر دیکھی، تو چونک اُٹھا۔ یہ تو میری وہی تصویر تھی، جو برسوں پہلے مجھ ہی سے کھو گئی تھی۔ تصویر میں ایک چھوٹا سا بچّہ اپنے قد سے طویل کوٹ پہنے کسی فوجی کی مانند اِستادہ تھا۔ اُس کی پگڑی اپنی جگہ سے ذرا سی اوپر کو اُٹھ گئی تھی اور اس کا ماتھا اور سیاہ بال دکھائی دے رہے تھے۔ 

اُس کے جوتوں کے سِرے نہایت مضحکہ خیز لگ رہے تھے۔ بچّے نے ہنسی روکنے کی خاطر اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ رکھا تھا اور اُس کی چندھیائی ہوئی آنکھوں میں بے پناہ اشتیاق تھا۔ تصویر دیکھ کر مَیں کچھ دیر کے لیے اپنے خوش گوار ماضی میں کھو گیا اور پھر بے اختیار میری ہنسی چُھوٹ گئی۔ تصویر کا عنوان تھا، ’’اس ہفتے کی خُوب صُورت ترین تصویر‘‘ اور اس کے نیچے کیپشن درج تھا ’’مسرور دیہاتی لڑکا۔‘‘ تب بے ساختہ میرے ذہن میں سوال اُبھرا کہ’’ کیا اب وہ بوڑھا فوٹو گرافر بھی زندہ ہوگا؟‘‘ ( فارسی زبان کے افسانے ’’زریاب‘‘ کا ترجمہ)