• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند نئی کتابیں۔ پرائیڈ آف پرفارمنس...جاذب قریشی بڑے مصنف بن چکے ہیں

ان سطروں کے قاری کتنے خوش قسمت ہیں کہ بیک وقت چند نئی کتابوں سے متعارف ہو رہے ہیں۔ یعنی (1) ادبیات، اکیڈمی ادبیات پاکستان۔ سوواں شمارہ،588صفحات (2) فنون ۔ پچاسویں سالگرہ۔ چار سو ستائیس صفحات۔ (3) Larkana to Peaking (انگریزی) ایک سو ستر صفحات۔ (4) اردو۔ جنوری تا دسمبر 2011 ، 302 صفحات۔ (5) کچھ بول محبت کے۔ ایک سو اٹھائیس صفحات۔
ادبیات
حسب سابق یہ مجموعہ ہے۔ تخلیقی اور تنقیدی مواد کا ٹوٹل ہے۔ میں بڑے عنوانات دیئے دیتا ہوں۔ جی تو چاہتا تھا کہ ساری تخلیقات کے انفرادی عنوانات دے سکوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اس میں کتنا تخلیقی اور تنقیدی مواد آ گیا ہے۔ حمد، سفر نامہ، اس سرا میں ہے دوسرا کچھ (نظمیں)، روشِ سبزۂ نورستہ کی شادابی پر (نئی آوازیں)، غزل بناتا ہوں آئینہ خانہ بنتا ہے (غزلیات)، دور تک کوئی مہربان نہیں تھا، آتے ہیں غیب سے مضامین، ہم وارث تختِ تمنا کے، خس و خاشاک کے موسم میں سراغ گل سرخ (درگزشت)، یادِ یاراں سے مہکتا رہے باغ گُلِ سرخ (یاد رفتگاں)، دل کی گلیوں میں گونجی آواز (موسیقی)۔
یہ فہرست مقامی ادب کی تھی، اب عالمی ادب سے انتخاب دیکھئے۔ سداما پانڈے، تا دیوش رو سے وچ، منو بھنڈاری، ایڈگر ایلن پو۔
خصوصی مطالعہ۔ ایلس منرو، ڈورس لیسنگ، خورخے لوئیس بورخیس۔ پاکستانی ادب، سندھی، خیر النساء جعفری، اول سومرو، مصطفیٰ ارباب، پنجابی۔ احمد راہی، افضل احسن رندھاوا، حنیف باوا، زاہد حسین، طارق عزیز۔ پشتو۔ غازی سیال، صابر علی صابر۔ بلوچی براہوی۔ غنی پرواز، صباء شنیاری، یعقوب شاہ فرشین، افضل مراد، مبارک قاضی، محمد رفیق مغیری، امرت مراد۔ سرائیکی۔ مسرت کلانچومی، طاہر شیرازی، ڈاکٹر غزالہ احمدانی۔ ہندکو۔ سلطان سکون، احمد حسین مجاہد۔ پوٹھوہاری۔ شیراز اختر مغل، شکور احسن، بلتی۔ علی احمد قمر۔
فنون لاہور
بڑی خوشی کی بات ہے کہ ادارے نے جو مدیر نیر حیات قاسمی اور مدیر اعزاز ڈاکٹر ناہید قاسمی نے پہلے صفحے پر ہی جہاں اسے اشاعت کا پچاسواں سال بتایا ہے۔ جلی الفاظ میں احمد ندیم قاسمی صاحب (مرحوم) کا نام ’’میرِ کاروانِ فنون‘ کے ساتھ لکھا ہے۔ یہ بڑی اچھی روایت ہے کہ مردہ کو مردہ قرار دے کر ماضی کے دھندلکے میں پھینک دیئے ہیں۔ یہاں ان محترم مدیران نیر حیات قاسمی اور ڈاکٹر ناہید قاسمی نے جناب احمد ندیم قاسمی (مرحوم) کو ’میرِ کاروان فنون‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ سامنے کے صفحے پر قاسمی صاحب کے جوانی بلکہ نوجوانی کی ایک نادر یک صفحی تصویر بھی دی ہے۔ اللہ ان مدیران کو جزا دے۔
Larkana to Peaking
جلد پر ایک نہایت خوبصورت تصویر چھپی ہے جس میں بھٹو صاحب (مرحوم) آنجہانی، کامریڈ مائوزے تنگ سے ہاتھ ملاتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر یہ تصویر اتنی خوبصورت نہ چھپتی جیسے چھپی ہے تو میں یہاں اس کا ذکر نہ کرتا۔ میں اس پر مؤلف کتاب برادرم محمود شام کو اور ناشر کتاب نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد کو خصوصیت سے مبارک باد دیتا ہوں۔
اُردو
دراصل یہ جنوری تا دسمبر 2011 کے 4 شماروں کا مجموعہ ہے اور حسب روایت بعض نہایت اہم موضوعات پر مقالے جمع کر دیئے گئے ہیں۔ یہ سہ ماہی انجمن ترقی اردو پاکستان کی ملکیت ہے اور 1921ء سے مسلسل چھپ رہا ہے۔ یہ مجموعہ اس جریدے کی شاندار علمی روایات کا ایک وقیع نمونہ ہے۔
کچھ بول محبت کے
یہ عزیزی عدیل ہاشمی نے اپنے والد محترم اظہر عباس ہاشمی کو خراج عقیدت کے طور پر بہت سے مشاہیر اہل قلم کی نشر و نظم کا مجموعہ ہے۔ اس میں واقعی محبت کے بول ہیں اور کیوں نہ ہوں ان کے بولنے والے درحقیقت اہل محبت ہی مانے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ مجموعہ ایک مثال بن سکتا ہے۔ کسی بھی قابل ذکر اہل قلم کی مداہی میں بہت سے دوسرے مشاہیر کی آراء اور تبصروں کا سچ بعض بڑے ہی خوبصورت ادب کے خالق آج بھی اپنے بارے میں اپنے حق کے مطابق توصیفی تبصروں کی اشاعت سے اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ ضخامت میں دو تین صفحے سے زیادہ نہیں ہوتے اور اپنی جگہ ایک کتاب نہیں بن پاتے اور کتاب ایک کم از کم قابل قبول ضخامت مانگتی ہے۔
اب چند لمحے سلیم احمد مرحوم کے لئے
میں نے کتابوں کے اختصاریے بنانے چاہے اور وہ کسی حد تک بن بھی گئے۔ مضمون میں پیش ہیں لیکن جو لطف پوری تحریر سے آتا ہے وہ کسی جزوی مطالعے سے ممکن نہیں۔ فی الحال میں ایک کتاب کی طرف قاری کی خصوصی توجہ چاہوں گا۔ کتاب ہے ’’تخلیقی آواز‘‘۔ اس میں ان خاص اصحاب پر اور خاصے طویل یا بھرپور مضامین ہیں۔ غالب، ناسخ، اقبال، حسرت موہانی، عزیز حامد مدنی، منیر نیازی، قمرجمیل، ظفر اقبال، محشر بدایونی، سلیم احمد۔ سلیم احمد پر تو تین مضامین ہیں۔ غزل، نظم، سلیم احمد کی شخصیت۔ بڑا کام ہے۔ اللہ اکبر ۔ ان مضامین میں سلیم احمد کے تنقیدی اسلوب کا ذکر بھی آتا ہے۔ (جاذب صاحب، سلیم احمد کی زندگی میں بھی ان کی تنقید پر (ان کے سامنے) بڑی کھلی اور آزادانہ گفتگو کرتے تھے۔ میں گواہ ہوں۔ باقی مضامین اپنی جگہ خاص حیثیتوں کے حامل لگتے ہیں۔
حکومت نا انصافی ختم کرے
اتنی اور ایسی کتابوں کے مصنف پر اختصارئیے کے بعد ذرا کھل کر ایک بات کہنی پڑتی ہے وہ قاری سے اور حکومت سے۔ قاری سے توجہ کہ یہ کتابیں آپ نہ صرف خود پڑھیں بلکہ خریدیں اور بانٹیں۔دوسری ایک تجویز وفاقی حکومت سے یہ کہ اتنی خوبصورت اور اس تعداد میں تصنیفات کے مصنف کو آپ سرکاری قدر دانی کا انتظار اور کب تک کرائیں گے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس معلوم نہیں اور ’’سلسلہ امتیاز‘‘ میں سے انہیں وہ جس کے قابل سمجھیں۔ معلوم نہیں اب تک وہ کن وجوہ سے نظر انداز کئے گئے ہیں۔ میں نے انہیں کبھی کسی پارٹی بازی میں ملوث نہیں دیکھا۔ ایک سادہ مزاج غیر ملوث unparallelآدمی ہیں۔ انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس تو کبھی کا مل جانا چاہئے تھا۔ اس وقت میں کوئی تقابلی مطالعہ بیچ میں لا کر اس مضمون کو متنازع نہیں بنانا چاہتا۔ صرف ان کے اپنے حالات و واقعات اور کاموں کی حیثیت ہی کو سامنے رکھا جائے تو بے اختیار یہ سوال گونجنے لگتا ہے کہ پھر آخر حکومت کا یہ سلوک کیوں ہے۔ شاید ابھی مجھے اس ضرورت پر کچھ اور لکھنا پڑے گا۔ باقی کتابوں پر گفتگو انشاء اللہ آئندہ۔
تازہ ترین